بے ضمیری ‘بے حسی ‘خود غرضی ‘ہوس پرستی‘ دولت کے انبار جمع کرنے کی دوڑ کا ہر جگہ رواج ہے۔ ہر معاشرہ‘ ہر ملک‘ ہر حکمران‘ بلا تفریقِ رنگ و نسل ‘مذہب و تہذیب اس دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ احساسِ زیاں ناپید سے ناپید تر ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے تخیل میں :
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
عالمی ضمیر ہو یا ملک و قوم کا انفرادی ضمیر‘ یا کسی معاشرے کا اجتماعی ضمیر ‘لگتا ہے سب بے ضمیروں کی طرح سو رہے ہیں۔ کسی کو نہ خوفِ خدا ہے‘ نہ ہی خوفِ قانون اور نہ ہی انسانیت کا درس۔ فلسطین اور کشمیر کو لے لیجئے‘ کئی دہائیاں بیت گئیں مگر مجال ہے کہ دنیا بھر کی تہذیب یافتہ کہلانے والی مملکتوں اور معاشروں کو وہاں ہونے والے مظالم‘ انسانیت سوز مناظر‘اور خواتین و بچوں کی کر بناک چیخیںسنائی دیں‘ اور اگر سنائی دے بھی دیں تو محض اس وجہ سے اِن پر توجہ نہیں دی جاتی کہ یہ مسلمان ہیں اور اس وقت دنیا بھر میں سب سے ارزاں خون انہی مسلمانوں کا ہے۔ سب سے بے قیمت عصمتیں انہی حوا کی بیٹیوں کی ہیں۔مسلم حکمران تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود یہود و ہنود اور اغیار کے شکنجے میں جکڑے ہیں۔ خود کو بادشاہ کہلانے اور اپنی رعایا کو غلاموں کی طرح رکھنے والے بڑے بڑے بادشاہ اور اسلامی سلطنتوں کے حکمران عالمی طاقتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نام لیوا یہ مسلم حکمران ‘ اللہ کی کتاب پر ایمان جن کے دین کا بنیادی جزو ہے‘اپنے باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بجائے انہی طاغوتی قوتوں کے در پر جا کر اپنے دفاع کی بھیک مانگتے نہیں‘ بلکہ بھیک خریدتے ہیں۔ آپس میں جنگیں کرتے ہیں اور ثالثی کے لیے اغیار کو پکارتے ہیں۔ایران‘ عراق جنگ‘ مصر‘ لیبیا‘ کویت‘ یمن‘ شام‘ لبنان‘ افغانستان‘ میانمار‘ ایسی بے شمار مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جس میں دونوں طرف مسلمانوں کا خون بہایا گیا ‘لیکن اغیار کے ایجنڈے پر اوراغیارکے کہنے پر۔اب ‘ایران سعودی عرب کی جنگ شروع کروانے کے لیے ایک مضبوط سٹیج تیار کیا جا رہا ہے۔یہ کلمہ گو عوام کے کلمہ گو حکمران عوامی مفاد میں نہیں ‘بلکہ محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے ‘اپنی انا کی تسکین اور غرور و تکبر کے تسلسل کیلئے باہم نئے نئے محاذ کھولتے رہتے ہیںاور پرور دگارِ عالم کے حکم ''اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ کے برخلاف اقدامات و اعلانات کرتے نظر آتے ہیں‘جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تمام تر دفاعی ‘صلاحیتوں ‘مالی اور افرادی قوت اور تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود ہمارا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔یورپی ممالک ایک یونین‘ ایک کرنسی پر عمل پیرا ہیں‘مگر مسلم حکمران ایک دوسرے سے ملنے کو تیار نہیں۔عرب وعجم کی لڑائیاں اپنی جگہ‘ اب تو عربوں کے مابین بھی فساد برپا ہے۔
عالمی بے ضمیری کی طرح بے حسی کے اس کار زار میں ہمارے حکمران اور ہماری اشرافیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اس اشرافیہ کا تعلق معاشرے کے کسی بھی طبقے سے ہو‘ بالائی سطح پر ان کا ایک ہی کلب ہے۔ یہ اشرافیہ عوام کے ووٹوں سے پاور حاصل کرتے ہیں‘عوام کے ٹیکسوں پر عیش و عشرت کے مزے لوٹتے ہیں‘مراعات یافتہ یہ طاقتور طبقہ عوام کے ذریعے اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں پہنچتا ہے ‘لیکن پاور کوریڈورز میں پہنچ کر انہی عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔اس اشرافیہ میں محض ہمارے حکمران ہی شامل نہیں بلکہ بااختیار نوکر شاہی اور ہر وہ فرد اور شعبہ زندگی شامل ہے‘ جو عوام کے دیے گئے ٹیکسوں سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے ‘ جس کا فرض ہے کہ وہ عوام کے جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔
سیاسیات کی تعلیمات کے مطابق یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو ووٹ کے ذریعے اپنا اختیار ‘جسے سیاسی اصطلاح میں سوشل کنٹریکٹ یعنی عوام اور حکمران کے درمیان سماجی معاہدہ کہتے ہیں ‘ اس شرط پر حکمران سیاسی اشرافیہ کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ اقتدار کو عوام کی طرف سے سونپی گئی امانت کے طور پر استعمال کریں گے ۔ یہی ذمہ داری سول سرونٹس کی ہوتی ہے‘ اسی لیے انہیں سول سرونٹ کہا جاتا ہے کہ وہ عوام کے ملازم ہوتے ہیں‘ کیونکہ ان کا سارا خرچ عوام ہی اٹھاتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کی طرح یہ نوکر شاہی بھی اللے تللے کرنے میں مگن رہتی ہے اور عوام کے بجائے اپنا سارا وقت اور صلاحیتیں اسی اشرافیہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں صرف کرتی ہے۔وطن عزیز کے حکمران‘ نوکر شاہی اور اشرافیہ بھی ایک طویل عرصے سے اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔اور عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کے بجائے جمہوریت کے لبادے میں اقتدار اور اختیار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
کراچی اور سندھ کے عوام کو کچرے کا سامنا ہے‘ڈینگی اور آوارہ ‘پاگل کتوں کا سامنا ہے۔حکمرانوں کی بے حسی کا عالم مگر یہ ہے کہ اشرافیہ کے اعلیٰ نسل کے کتوں کا رہن سہن ‘ان کی خوراک ان انسانوں سے ہزار درجے بہتر ہے جن کے ووٹ سے وہ مقتدر ٹھہرے۔یہ اعلیٰ نسل کے کتے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں رہتے ہیں اور غیرملکی خوراک کھاتے ہیں‘دوسری جانب بھوکے اور آوارہ کتے اپنی بھوک مٹانے کے لیے مفلس اور بے یارو مددگار انسانوں کو نوچ رہے ہیں اور یہ اشرافیہ کتوں سے نوچے گئے انسانوں کا علاج کرنے میں ناکامی پر ندامت کی بجائے یہ کہتے سنی جاتی ہے کہ قصور انہی مفلس انسانوں کا ہے جو ہسپتال کے باہر تڑپ تڑپ کر اپنی ممتا کے ہاتھوں میں جان دے دیتے ہیں۔حکمراں خاندان کہتا ہے کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین بہت مہنگی ہے‘ اسے ہر کسی کو لگا کر ضائع نہیں کیا جا سکتا۔کیا وہ ویکسین ان کے اعلیٰ نسل کے کتوں کے ایئر کنڈیشنر زکے بلوں سے بھی مہنگی ہے؟ اللہ تعالیٰ اس بے رحم اور ظالم اشرافیہ کو سر بازار رسوا بھی کرتا ہے‘ مگر یہ لوگ پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے۔ کراچی کے کچرے کو اٹھانے میں بھی کم و بیش یہی رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میئر کراچی‘ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت تینوں نے ووٹرز کو ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ ہر ادارہ پیسے کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے‘ جبکہ اسی شہر کے ڈی جی پارکس کے برآمد شدہ اثاثوں کی مالیت دس ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ قصور میں جو معصوم زینب کے ساتھ کیا گیا‘ کیا کوئی مسلم معاشرہ اس کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ اس معاشرے میں ہو رہا ہے۔ بچیوں کی عزتوں کو پامال کرنے والے مسلمان‘ ان درندوں کو تحفظ دینے والے مسلمان‘ ان مظلوموں کو انصاف فراہم نہ کرنے والے مسلمان۔ کیا ایسا کسی نے تصور کیا تھا کہ جوکچھ مقبوضہ کشمیر میں ہمارا دشمن ہماری بچیوں کے ساتھ کررہا ہے ‘وہی کچھ یہاں ہورہا ہے۔ کیا ایسا معاشرہ اللہ کے عذاب سے بچ سکتا ہے؟ کیا مسلمان اپنے ہی بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں مردہ جانوروں کی طرح جنگلوں میں درندوں اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک بنا کر پھینک سکتا ہے؟ یہ بے راہ روی اور بے حسی‘ اللہ کی پناہ۔کیا زمیں پر فساد پھیلانے والوں اور اللہ تعالیٰ کے قانون کو پامال کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں نہیں دی جاسکتیں؟
عوام پر حقِ حکمرانی کے وعویدار ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ کیا وہ عوامی مینڈیٹ کے تقاضے پورے کررہے ہیں ؟ سیاسی اشرافیہ‘ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے‘کیا وہ کچرے کے ستائے عوام‘ کتوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کیلئے‘ ڈینگی کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے والوں کیلئے اور قصور کے بچوں ‘ بچیوں کی آہ و پکار کیلئے سڑکوں پر نکلے؟ نہیں بالکل نہیں‘ کیونکہ ان عوام سے اس اشرافیہ کا کوئی لینا دینا ہی نہیں۔لینا ہے تو بس ووٹ۔اس وقت اپوزیشن جماعتیں حکومت گرانے کے لیے دن رات صلاح مشورہ کررہی ہیں۔ مولانا دَر دَر جا رہے ہیں اور دھرنے میں شرکت کے لیے تعاون مانگ رہے ہیں‘ لیکن ابھی تک مولانا کو نہ کتے کے ہاتھوں مارے جانے والے کے گھر میں جانا نصیب ہو اور نہ ہی انسانوں کے ہاتھوں نوچے جانے والے قصور کے بچوں اور بچیوں کو انصاف دلانے اور ان کے لواحقین کو ڈھارس بندھوانے کیلئے ان کے گھر جانے کی توفیق ہوئی۔ یہی حال ہماری دیگر سیاسی اشرافیہ کا ہے۔ حکومتوں کی بے حسی اپنی جگہ ‘ مگر ہم بحیثیت مسلم معاشرہ زوال کی انتہائی ذلتوں کو چھو رہے ہیں۔
اس کا واحد حل قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرنا اور آخری پیغمبر محمد مصطفیﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔