ملتان یوں بھی ایک خوبصورت شہرہے‘ مگر جوں جوں گرمیوں کا زور ٹوٹتا ہے اس کا حسن اور بھی نکھر تا جاتا ہے۔ یہ دو برس پہلے کی بات ہے وہ ستمبر کا مہینہ تھا‘مجھے ملتان کا سفر درپیش تھا۔ ملتان کو چاہنے کے بہت سے اسباب ہیں ان میں ایک شاکر شجاع آبادی بھی ہے۔ یوںتو وہ شجاع آباد کا رہنے والا ہے‘ لیکن ملتان اس کی پہچان کا مرکز ہے۔ شاکر سے میرا پہلا تعارف اس کے ایک شعر کے حوالے سے ہوا ‘جو میرے دوست نے مجھے سنایا تھا۔شعر کیا تھاایک جہانِ معنی تھا ‘جس میں عام لوگوں کی محرومیوں کا ذکر دلچسپ انداز میں کیا گیا تھا۔؎
بہتّر حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھنسوں
اکہتّر حور دے بدلے اساں کوں رَج کے روٹی دے
(ہم بہتّر حوروں کے بجائے ایک حور پر قناعت کرلیں گے۔ بس‘ اکہتّر حوروں(جو ہم نہیں لیںگے) کے بدلے ہمیں پیٹ بھر کر روٹی دے دے) ۔یہ شعر سن کر میں بے چین ہو گیا‘ یہ کون شاعر ہے‘ جس نے شاعری میں گل و بلبل کی بجائے لوگوں کی محرومیوں کو موضوع سخن بنایا ہے؟ اسی دوران ایک جگہ پر یارِ عزیز رئوف کلاسراسے ملاقات ہوئی ‘وہ ہماری پہلی ملاقات تھی‘ باتوں باتوں میں میں نے رئوف کو یہ شعر سنایا تو اس نے بھی جی بھر کر داد دی اور بتایا کہ شاکر شجاع آبادی سرائیکی شاعری کا ایک بڑا نام ہے۔ میں نے کچھ اور تجسس کیا تو معلوم ہوا کہ دنیا جسے شاکر شجاع آبادی کے نام سے جانتی ہے اس کا اصل نام محمد شفیع ہے اور وہ شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گائوں راجہ رام میں پیدا ہوا۔ 1994ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اور اس کے بعد وہ بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا۔ اب وہ بولتا ہے تو صرف اس کے گھر والے سمجھ سکتے ہیں۔ مشاعروں میں جاتا ہے تو اس کا بیٹا اس کی ترجمانی کرتا ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کیسی عجیب بات ہے کہ شاکر خود تو قوتِ گویائی سے محروم ہو گیا‘ لیکن وہ لاکھوں محروم لوگوں کی آواز بن کر ابھرا۔ایک ایسی آواز جو مفلسوں کے دلوں اور کچے صحنوں سے اٹھتی ہے اور وڈیروں کی پختہ حویلیوں اور اقتدار کے بلند ایوانوں میں گونجتی ہے۔ اب یہ آواز سرائیکی کی پہچان بن گئی ہے۔ شاکرشجاع آبادی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے قبولِ عا م حاصل ہے ۔وہ مشاعروں کی جان ہے ۔عام محنت کش ہو یا سیاسی ایکٹیوسٹ‘ سب اس کے کلام کو اپنے دلوں کی آواز جانتے ہیں‘ یہ محبت‘ یہ شہرت صرف اس کے حصے میں آئی ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا‘ یہ آج سے دو برس پہلے کی بات ہے ۔ یہی ستمبر کا مہینہ تھا۔اُس روز ملتان کے لیے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ملتان ریجنل آفس کے ریجنل ڈائر یکٹر ذوالفقار کھوسہ صاحب سے درخواست کی تھی کہ شام کو ایک سرائیکی مشاعرے کا اہتمام کریں اور کوشش کریں کہ اس میں شاکر شجاع آبادی بھی اپنا کلام سنائیں۔ کھوسہ صاحب نے بتایا کہ شاکر صاحب کی طبیعت آج کل خراب رہتی ہے اور تقریبات میں نہیں جاتے ‘ لیکن وہ کوشش کریں گے کہ شاکر صاحب ہمارے مشاعرے میں آ جائیں۔ وہ ہر لحا ظ سے ایک یادگار مشاعرہ تھا‘جس کے انتظامات کا سہرا ذوالفقار کھوسہ صاحب اور ملتان ریجن کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر محترمہ شاہدہ تنویر کے سر ہے۔ ملتان جائیں تو سرائیکی زبان کے سکالر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر خالد اقبال ملاقات کے لیے ضرور تشریف لاتے ہیں ‘اس مشاعرے میں بھی انہوں نے شرکت کی۔ خوشی کی بات ہے کہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میں اب سرائیکی زبان کا ایک ا نسٹی ٹیوٹ ہے جس میں ڈاکٹر خالد اقبال اور سرائیکی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر نسیم اختر صاحبہ سرائیکی زبان و ادب کی ترویج کے لیے متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔اُس روز مشاعرے میں رات بارہ بجے تک لوگ یکسُو ہو کر بیٹھے رہے‘جس میں شاکر شجاع آبادی کے علاوہ دوسرے معروف سرائیکی شعرا نے شرکت کی اس کی نظامت معروف دانشور اور استاد جناب امتیاز بلوچ صاحب نے کی۔ اس روز میں نے قریب سے شاکر کو دیکھا اور سنا۔ مشاعرے کے دوران بھی اور مشاعرے کے بعد بھی ۔شاکر کی شاعری کا بنیادی موضوع امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق ہے‘ اس کادل اس معاشی اور معاشرتی تفاوت پر کڑھتا ہے۔؎
کہیں دے کُتے کھیر پیون‘ کہیں دے بچے بھکے مرن
رزق دی تقسیم تے ہک وار ول کجھ غور کر
(کچھ لوگوں کے کتے بھی دودھ پیتے ہیں اور کچھ لوگوں کے بچے بھوکے مر رہے ہوتے ہیں۔ اے خدا ‘رزق کی تقسیم پر ایک بار پھرغور کر)
شاکر محنت کش ہے اور محنت کشوں کی زندگیوں کے دکھ بخوبی جانتا ہے‘ کیسے محنت کش دن بھر مزدوری کی چکی میں پستے رہتے ہیں وہ خدا سے التجا کرتا ہے۔
میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر دے
جو روٹی رات دی پوری کریندے شام تھی ویندی
(میرے رازق ہمارے (محنت کشوں کے) ساتھ یہ رعایت کر کہ نمازیں رات کو ہو جائیں کیونکہ ہمارا سارادن رات کی روٹی کے حصول کے لیے مشقت کرتے گزر جاتا ہے)۔شاکر کے ہاں غزل کی خاص شگفتگی ملتی ہے‘ جس میں معاشرتی تفریق کا رنگ جھلکتا ہے۔
ساکوں بال کے شاکرؔ ہتھ سیکیں
اساں راہ دے ککھ تیڈے کم آسوں
(ہمیں اپنے ہمراہ لے لو ‘ ہم گلیوں کے تنکوں کی طرح بے وقعت ہیں‘ لیکن ہمیںجلا کر تم اس کی تپش میں تم اپنے ہاتھ سِینک سکتے ہو)
انہاںدے بال ساری رات روندین بھک توں سمدے نہیں
جنھاں دی کہیندے بالاں کوںکھڈیندے شام تھی ویندی۔
(ان( محنت کشوں) کے بچے ساری رات بھوک سے روتے رہتے ہیں اور سوتے نہیں جنہیں دوسروں (امیروں) کے بچوں کو بہلاتے شام ہو جاتی ہے)۔شاکر اس معاشرے میں تفریق کے اس نظام سے بغاوت کرتا ہے‘ وہ اس تلخ حقیقت کو اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے اور سچ کی سزا بھگتنے کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔
جے سچ آکھن بغاوت ہے بغاوت ناں ہے شاکرؔ دا
چڑھا نیزے تے سر مینڈا‘ مینڈے خیمے جلا ڈیوو
( اگر سچ کہنا بغاوت ہے تو پھر شاکر بغاوت کا نام ہے اس جرم میں میرا سر نیزے پر چڑھا دو اور میرے خیموں کو آگ لگا دو) ۔شاکر اس ظالمانہ نظام معیشت میں بھی امید کا دیا روشن رکھتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے۔ ایک نہ ایک دن اس کا صلہ ملتا ہے)
تو محنت کرتے محنت دا صلہ جانڑے خدا جانٹرے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا ہوا جانٹرے خدا جانٹرے
(تم محنت کیے جائواس کا صلہ خدا دے گا تمہارا کام دیا جلانا ہے اس کا انجام ہوا اور خدا پر چھوڑ دو)۔اس روز مجھے یوں لگا شاکر سے میرا رشتہ صدیوں پراناہے۔ پھر میری شاکر سے ملاقات اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں ہوئی‘ جہاں وہ معروف سماجی کارکن زمرد ملک کی دعوت پر کچھ عرصے کے لیے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ میں نے شاکر کے ڈاکٹر سے علیحدہ ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ تھراپی سے ان کا علاج ممکن ہے‘ خود میں نے بھی دیکھا شاکر کے بولنے میں اب Clarity آگئی‘ لیکن شاکر تو ایک پرندہ ہے جو آزاد فضاؤں کا عادی ہے‘ جس کی آنکھیں اسلام آباد کی چکا چوند روشنیوں کے بجائے اپنے گائوں کے چراغوں کی متلاشی رہتی ہیں۔شاکر اب بھی دو کمروں کے ایک خستہ مکان میں رہتا ہے‘ افلاس کا سایہ جس کے آنگن سے ہٹتا ہی نہیں۔ بیماری اور غربت نے جیسے اس کا گھر دیکھ لیا ہے۔کبھی کبھار میں سوچتا ہوں یہ کیسے ہیرے ہیں غربت کی دھول نے جن کی روشنیاں کو کجلا دیا ہے۔ ہم بحیثیت قوم زندگی میں ان ہیروں کی قدر نہیں کرتے‘ ان کی موت کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ان کے جانے کے بعد چاروں طرف سے توصیف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ آئیں لمحہ موجود میں ان نگینوں کی قدر کریں‘ ان کی زندگی میں آسائش لائیں ۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور ہم ساری عمر پچھتاوے کی اذیت میں سلگتے رہیں۔