تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     24-09-2019

تو بازمانہ ستیز

آج کے کالم کا عنوان اقبالؔ کے ایک کمال کے شعر کا دوسرا مصرع ہے۔ع
زمانہ باتو نسازد‘ تو با زمانہ ستیز
مطلب ہے کہ اگر آپ کو زمانہ (یعنی حالات اور اردگرد کا نقشہ) راس نہیں آتا‘ اگر آپ کو اردگرد کے حالات نہ اچھے لگتے ہیں اور نہ موافق آتے ہیں تو پھر بھائی جان! آپ ان کے خلاف لڑیں۔ ناموافق اور ناپسندیدہ حالات سے سمجھوتہ نہ کریں اور نہ چپ کرکے بیٹھ جائیں ۔ آپ کے شہر کو سیلاب لے جائے آپ کی بلا سے‘ آپ نے مژگاں نہ کھولنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ آپ وہ قسم توڑنے کا گناہ کیوں مول لیں؟دور کیوں جائیںآپ تو اپنے گلی محلے کی صفائی (جو آپ کے لیے نصف ایمان ہے) کے لئے چھوٹی انگلی ہلانے کے روا دار نہیں‘ آپ سے یہ توقع رکھنا کہ آپ پھولدار پودے اور سایہ دار درخت لگائیں گے‘یہ تو آپ جیسے ناک کی سیدھ پر چلنے والے ‘ہر وقت دوسروں پر لاٹھی چارج کرنے والے اور سیاست دانوں میں انواع و اقسام کے کیڑے نکالنے والے آدمی کی شان میں بڑی گستاخی کے مترادف ہوگا۔
مندرجہ بالا سطور میں لفظ ''آپ ‘‘ کئی بار لکھا گیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پڑھ کر میرے قارئین ناراض ہو جائیں کہ میں انہیں مخاطب کر کے کڑوی کسیلی باتیں لکھ رہا ہوں۔ اس کالم میں آپ کا لفظ اس مفہوم میں لکھا گیا ہے جس طرح فیض صاحب کی نظموں میں ''ہم‘‘ کا استعمال ہوا۔ میں ''آپ‘‘ لکھوں تو اس میں‘ میں بھی شامل ہوں اورجب فیض صاحب کہیں کہ ہم دیکھیں گے تو ہم سے مراد آپ اور آپ کی آئندہ نسلیں ہیں۔اختر بلوچ (بقول ڈاکٹر مبارک علی) عوامی مورخ ہیں۔ ان کی تازہ کتاب (کرانچی والا) کی شہرت سات سمندر کا سفر کر کے مجھ تک پہنچی تو میرے دل میں بھی یہ خواہش جاگی کہ میں بھی اُن بہادر اور شیر دل لوگوں کے خاکے لکھوں جو نامساعد حالات (حالات ہمیشہ نامساعد ہوتے ہیں) کے باوجود میدان جنگ میں اُترے۔ ساری عمر لڑتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ فتح پانے اور کامیاب ہونے کے امکانات صفر کے قریب ہیں‘مگر ہمت نہ ہاری اور لڑتے لڑتے جان دے دی اور اَمر ہو گئے۔
یوں جانیے کہ آج کا کالم اس مجوزہ کتاب کے پہلے چند اوراق کی صورت میں لکھا جا رہا ہے۔ جس عظیم شخص کا آپ سے تعارف کروانا مقصود ہے اُس کا پورا نام تھاSteve Sawyer ۔ جولائی کے آخری دن63 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوا‘ مگر اپنے پیچھے وہ نقوش چھوڑ گیاجو انمٹ ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ہر اچھے اخبار اور ہر معیاری رسالے میں اس کا تعزیت نامہ شائع ہوا۔ اسے یہ لازوال شہرت عالمی ماحول کی بہتری کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیمGreen Peace کی قیادت کرنے سے ملی۔ نگہ بلند ‘سخن دلنواز ‘جاں پرُ سوز۔ اچھے قائد کا جو معیار اقبالؔ نے مقرر کیا Steveاس پر پورا اترتا تھا۔ Steve جو چھوٹا سا بحری جہاز لے کر نیوزی لینڈ پہنچا اس کا نام Rain Bow Warriorتھا۔ اس طویل بحری سفر کا مقصد بحرالکاہل کے ایک ننھے سے جزیرے (Polynesia) کی مختصر سی آبادی کو پڑوسی جزیرے میں امریکہ کے تجرباتی ایٹمی دھماکے کی تابکاری سے بچا کر محفوظ مقام پر پہنچانا تھا۔ Steve کا جہازآک لینڈمیں لنگر انداز تھاکہ فرانسیسی خفیہ ایجنسی کے کارندوں نے اسے بارودی سرنگوں سے اُڑا کر غرق کر دیا تاکہ یہ جواں ہمت مرد Moruroaکے جزیرے میں فرانس کے تجرباتی ایٹمی دھماکے کے راستے میں چھوٹی سی رکاوٹ بھی نہ بن سکے۔ بڑا پتھر بن جانا تو ویسے ہی ممکن نہ تھا‘ مگر مخالف قوتوں کو ایک کنکر بھی قابل قبول نہ تھا۔ Steve کے بحری جہاز کے طویل سفر میں فرانس کی بحریہ کے بڑے جہاز تعاقب کر کے ٹکریں مار کر اُسے غرق کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو بارودی سرنگوں کا سہارا لینا پڑا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جونہی یہ خبر دنیا میں پھیلی‘ عوام دوست لوگوں(دنیا کے ہر ملک میں عوام کی اکثریت عوام دوست ہوتی ہے) نے Steve پر چندے میں دی گئی رقوم کی بارش کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے Green Peaceکروڑوں ڈالروں کی برسات سے مالا مال ہوگئی۔ یہ تھا عوامی ہمدردی اور عوامی غم و غصے کے ردعمل کا اظہار۔
1971 ء میں معرض وجود میں آنے والی تنظیم گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر عالمی اُفق پر آب و تاب سے چمکنے والی قوسِ قزح بن کر اُبھری۔ شروع کے سالوں میں یہ تنظیم وہیل مچھلیوں اور اُن کو شکار کرنے والوں کے درمیان اپنی کشتیاں لے کر کود پڑتی تھی۔ Green Peace کے جان فروش رضا کار برفانی سمندروں میں بنائے جانے والے تیل کے چشموں'' Oil Rigs ‘‘پر جا چڑھے اور وہاں ماحول کی حفاظت کے حق میں پرچم لہرانے لگے۔ بڑے بڑے صنعتی ادارے بڑی پائپ لائن تعمیر کر کے (اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر) اپنا کیمیائی اور زہریلا فضلہ سمندرمیں سالہا سال سے پھینک رہے تھے اور کوئی شخص ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ Green Peace نے ناصرف عالمی ضمیر کو جگایا‘مگر ایسی پائپ لائنوں میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈال کر انہیں اس طرح بلاک کر دیا کہ اب کیمیائی مواد نہ سمندروں کو آلودہ اور زہریلا بنا سکتا تھا اور نہ مچھلیوں اور دوسری آبی حیات کو موت کے گھاٹ اتارنے کا باعث بن سکتا تھا۔ ایک دوسری قسم کے (مگر اتنے ہی بے رحم اور سفاک) شکاریSeal Pups (سیل کے کم عمر بچوں) کی جان کے درپے رہتے ہیں۔ Green Peaceکے رضا کاروں نے اُن کی جان بچانے کے لئے یہ انوکھی مگر مؤثر ترکیب سوچی کہ وہ Seal Pups پر سبز رنگ کے رنگ و روغن کا اتنا سپرے کر دیتے تھے کہ اُن کی Fur شکاریوں کے لئے بے کار ہو جاتی تھی۔
Steveنے یونیورسٹی میں فلسفہ کی ڈگری حاصل کی‘ اعلیٰ درجے کی گٹار بجانا سیکھی‘ جنگلوں میں ننگے پائوں چلنے کی اہلیت حاصل کی‘جہاز رانی اور تیراکی کے فن میں مہارت حاصل کی۔وہ دنیا کی دو بڑی سلطنتوں (امریکہ اور فرانس) کے خلاف صرف بڑی پامردی اور بے خوفی سے نہیں بلکہ حکمت اور تدبر سے لڑے کہ وہ جیت گئے اور دونوں سلطنتیں ہار گئیں۔ حکومت امریکہ نے الاسکا میں ایٹمی تجربات کا ارادہ ترک کر دیا‘ اسی طرح فرانس کی حکومت کی Polynesia کے جزیرے میں ایٹمی تجربے کی سکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ Green Peace کی اَن تھک کوششوں کی بدولت دو عالمی معاہدے معرض وجود میں آئے‘ 1987 ء کا مانٹریال معاہدہ (فضا میںOzone کی تہہ میں مزید کمی کی روک تھام) اور1991ء کا Antarctic Protocol (منطقہ قطب شمالی میں گہرائی میں کھدائی(Drilling ) پر نصف صدی کی پابندی)۔Steve کا یہ بھی کمال تھا کہ اُس کی ولولہ انگیز اور بصیرت افروز قیادت میں اُس کی تنظیم نے انسانی خدمت کے میدان میں اتنے شاندار کارنامے سرانجام دیئے کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔ زلزلوں‘ طوفانوں اور سو نامی کے متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچانا۔ صرف انسان نہیں بلکہ اُن کے مویشی بھی اور گھریلو سامان بھی اور کئی بار گھر کے در و دیوار بھی۔ اپنی کشتیوں میں بادبانوں کے استعمال سے Steve نے Wind Power کے رموز سیکھے اور ہوائی چکیوں سے بجلی بنانے کے ہنر کو فروغ دیا۔ Steve نے ثابت کر دیا کہ اگر اکیلے انسان کی نیت نیک ہو اور وہ بہادر ہو‘ بلند ہمت ہو‘ حقیقت پسند ہو اور گفتار کی بجائے کردار کا غازی ہو تو وہ درست حکمت عملی اپنا کر ایک بڑی سلطنت کی حکومت کو شکست دے سکتا ہے۔ دو بڑے ممالک کی پالیسی عوام دشمنی اور ماحول دشمن تھی‘ Steve ان کے خلاف لڑا‘ ساری دنیا میں نیک دل لوگوں نے اُس کی حمایت کی اور اُس کا ساتھ دیا۔ موت بھی Steve کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved