تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     24-09-2019

کچھ تو ہم خود بھی اچھا کریں!

پندونصائخ ہمیشہ دوسروں کے لیے‘ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا کوئی رواج‘ چلن نہ کوئی عادت۔پستی کی طرف جاری و ساری سفر کی تندی و تیزی ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ بڑھتے بڑھتے بے یقینی بھی حد سے بڑھ چکی۔حکومتوں کو اپنی بقا کے چاک چکر اور ہمیں دوسروں پر انگشت نمائی کرنے سے فرصت ملے تو اندیشوں بھرے معاشرے کے معاشرتی چال چلن میں بہتری لانے کی بابت لکھا ‘ بولا اور سوچا جائے۔بات کی جائے کہ آخر کیوں ہم نے اپنے ماحول کو پراگندہ رکھنے کا ہی تہیہ کررکھا ہے۔کہتے ہیں ‘ جانتے ہیں‘ مانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے ‘لیکن سب صرف کہنے کی حد تک۔
ہمارے اسی چلن نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کوڑے دان میں تبدیل کردیا۔معاملات ہیں کہ جیسے ناقابل حل سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ حکومت بے بس اور شہری لاچار نظرآتے ہیں۔لاچاری و بے چارگی میں بھی سیاست کا تڑکا بہرحال زوروشور سے لگایا جارہا ہے۔ بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ‘لیکن اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کی یہ حالت دیکھ کر کچھ کچھ اطمینان بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس شہر کے رہائشی نہیں۔ اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ لاہور ابھی تک اس طرح کے مسائل سے بچا ہوا ہے۔لاہور میں صفائی کی ذمہ دار لاہور ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی‘تنقید کے نشتر تو برداشت کرتی رہتی ہے ۔اس کے معاملات پر بھی اُنگلیاں اُٹھتی رہتی ہیں‘ لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ لاہور میں اگر صفائی کی صورت حال بہتر ہے تو اُس کا کریڈٹ اسی ادارے کو جاتا ہے۔صبح سویرے جب سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں‘ تب اس کے ورکرز شاہراہوں اور گلی محلوں کی صفائی میں مصروف ہوتے ہیں۔ جیسے ہی کاروبار زندگی رواں دواں ہونے لگتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر ہر طرف گندگی بکھرنا شروع ہوجاتی ہے۔ہمارے اسی عمومی رویے کے باعث شاہراہوں اور محلوں سے گندگی ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ روزمرہ کی بنیادوں پر پھیلائی جانے والی گندگی کی بات تو ایک طرف رہی‘کسی بھی گلی محلے میں چلے جائیں وہاں جابجا ریت ‘ اینٹیں اور دوسرا تعمیراتی سامان بکھرا ہوا ملے گا۔ اکثر اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے میٹریل منگوایا گیا ہوتا ہے ‘ اُسے ختم ہوئے عرصہ گزر جاتا ہے‘ لیکن سامان کو اِدھر اُدھر بکھرنے کے لیے ویسے کا ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔گھر پر لاکھوں ‘ کروڑوں روپے خرچ کردئیے جاتے ہیں ‘لیکن معمولی رقم ادا کرکے بچے کھچے تعمیراتی سامان کواُٹھوانے کا تردد کرنا‘ وقت اور پیسے کا ضیاع گردانا جاتا ہے۔روزمرہ کی پریکٹس ہے کہ گھروں کا کوڑا کرکٹ بلا کسی جھجھک کے گلیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آپ کسی کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش تو کریں ‘ اُس کے بعد دوبارہ آپ ایسا کرنے کی کبھی ہمت نہیں کریں گے۔
چلیے چھوڑئیے صفائی ستھرائی کی باتوں کو ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم صفائی نصف ایمان کی بس گردان کرتے رہیں ‘لیکن‘اتنا تو سوچنا ہی ہوگا کہ آخر کیوں کر ہم نے شاہراہوں پر مرنے کا تہیہ کررکھا ہے؟جس ملک میں ایک سال کے دوران پانچ ‘ پانچ ہزار افراد ٹریفک حادثات میں مارے جائیں تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی دن جاتا ہوگا جب شاہراہوں پر کوئی نہ کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوتا ہوگا۔شاہراہوں پر لپکتی موت سے کوئی محفوظ نہیں ۔ ابھی اس ماہ کے دوران شکرگڑھ ‘ ظفروال روڈ پر پیش آنے والا حادثہ کسے بھولا ہوگا‘ جس میں سکول کے بچوں سمیت آٹھ افراد اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ہنستے کھیلتے ہوئے بچے خوشی خوشی گھروں سے سکول گئے جہاں سے واپس اپنے گھر پہنچنا نصیب ہی نہ ہوسکا۔ راستے میں سڑک پر موجود گہرے کھڈے کے باعث تعمیراتی سامنا سے بھرا ہوا ٹرک ‘ رکشے پر اُلٹا اور سب کچھ ختم ہوگیا۔چنگ چی رکشے کا ڈرائیور سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔سات بہنوں کا اکلوتا بھائی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر تصورتو کیجئے کہ کیا بیتی ہوگی اُن بہنوں پر ۔ کیسے خشک ہوئے ہوں گے‘ اُن کے آنسو۔اتفاق کی بات ہے کہ حادثے سے چند روز قبل ہم نے بھی نارووال سے براستہ ظفروال ‘ اس شاہراہ پر سفر کیا تھا۔یقین جانیے کہ انجر پنجر تو نارووال ‘ ظفروال شاہراہ نے ہی ہلا دیا تھا‘ لیکن ظفروال ‘ شکرگڑھ شاہراہ کی حالت دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ ہم کسی شاہراہ پر سفر کررہے ہیں۔آرام دہ گاڑی کے باوجودد سفر کی صعوبت بہت زیادہ محسوس ہورہی تھی۔معلوم ہوا کہ گزشتہ چار سال سے اس کی حالت میں بہتری لانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی تھی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہاں چھوٹے موٹے حادثات کا ہونا تو معمول کی بات ہے ۔ عمومی طور پر اس وقت تو پنجاب کی بیشتر شاہراہوں کی یہی صورت حال نظرآتی ہے۔ ہمارے یہاں تو شاہراہوں پر پیش آنے والے حادثات میں ذمے داران کے تعین کا بھی ایک طے شدہ فارمولا ہے ۔ اگر ٹرک اور کار کے درمیان تصادم ہوجائے تو قصور وار ٹرک والا۔کار اور موٹرسائیکل کے درمیان تصادم ہوجائے تو قصور وار کار ڈرائیور‘کوئی موٹرسائیکل سوار پید ل چلنے والے کو ٹکر مار دے تو قصوروار موٹرسائیکل سوار۔
بالکل اسی طرح زندگی کے بہت سے دوسرے معاملات میں بھی ہم نے اپنے پیٹرن سیٹ کررکھے ہیں۔ ہمیشہ دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنی ہے۔ کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرنی‘ ویسے ہی جیسے ہرمعاملے میں ہم فوراً حکومت کو موردِالزام ٹہرا دیتے ہیں۔تسلیم کہ بے شمار حوالوں سے ہماری حکومتیںبھی بے شمار قباحتوں کی ذمہ دار ہیں‘ لیکن ہم خود بھی کچھ اچھا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ جب گاڑی کا شیشے نیچے کرکے ہم کوئی شاپر باہر پھینکتے ہیں تو ہم لاہور میں ہرروز پیدا ہونے والے تقریباً 6ہزار ٹن سالڈ ویسٹ کو مزید بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔کیا یہ بہت مشکل بات ہے کہ ہم اس شاپر کو گاڑی کے اندر ہی رکھ لیں اور جہاں کہیں ڈسٹ بن دکھائی دے تو وہاں اس سے پیچھا چھڑا لیں۔ کبھی تو سوچنے کی زحمت گوارا کرلینی چاہیے کہ جب موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے ہم پان کی پیک تھوکتے ہیں تو شاہراہوں کی گندگی میںمزید اضافہ کررہے ہوتے ہیں۔جب ہم کسی بھی جگہ اپنی گاڑی بغیر سوچے سمجھے پارک کردیتے ہیں تو دوسروں کے حقوق کو پامال کررہے ہیں۔جب انتہائی تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں ‘نا صرف اپنی‘ بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔پاکستان بھر میں پیش آنے والے 80فیصد ٹریفک حادثات کی وجہ تیز رفتاری ہوتی ہے‘ لیکن ہم نے نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔جب ہم اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو موٹرسائیکل یا گاڑی دے کر باہر بھیجتے ہیں تو گویا ہم خود ہی اُن کے دشمن کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔جب پولیس ون ویلنگ یا تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرتی ہے تو ہم سفارشیں ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ان سب باتوں سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی ہماری ایسی کسی غلطی کی نشاندہی کردے تو اسے بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔آپ کسی کو کہہ کر دیکھ لیں کہ بھیا آپ نے گاڑی غلط جگہ پر پارک کررکھی ہے تو عام طور پر یہی جواب ملتا ہے کہ تم مامے لگتے ہوئے سڑک کے۔ کس نے ہم کو روکا ہے کہ ہم ناپ تول میں ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ کس نے ہم کو روکا ہے کہ ہم تیزرفتاری سے گریز کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں ۔ کون ہمیں روکتا ہے کہ ہم اپنی گاڑی مناسب جگہ پر پارک نہ کریں۔کون ہمیں اپنے گھروں کے ساتھ اپنے اردگرد کا ماحول بھی صاف ستھرا رکھنے سے روکتا ہے ۔ کوئی نہیں روکتا‘ لیکن ہم نے خود ہی کچھ اچھا نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔بس ہمارا تمام فوکس اسی بات پر ہوتا ہے کہ فلاں نے یہ کردیا‘ فلاں نے وہ کردیا‘ لیکن ہم نے خود کیا کیا؟اس پر کبھی غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved