تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     25-09-2019

افغانستان، مذاکرات کے تعطل کے بعد

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو اچانک معطل کرنے پر دنیا بھر کے لوگ حیران بھی ہیں اور پریشانی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقریباً ایک سال کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان متعدد ملاقاتوں‘ بحث مباحثوں اور تبادلۂ خیالات کے بعد دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ افغانستان میں 18 سالہ جنگ ختم ہونے کا مرحلہ قریب آ پہنچا ہے کیونکہ معاہدے کے تمام پہلوؤں پر اتفاق ہو چکا ہے‘ اب صرف اس پر دستخط ہونا ہی باقی ہیں۔ مگر صدر ٹرمپ نے سات ستمبر کو اچانک مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر افغان صدر اشرف غنی کی طالبان کے کچھ سینئر لیڈرز کے ساتھ جو خفیہ ملاقات طے تھی‘ وہ بھی منسوخ کر دی۔
امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد دنیا کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا افغان مذاکرات دوبارہ بحال ہوں گے یا افغانستان میں جنگ جاری رہے گی؟ اور اگر یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو افغانستان اور اس کے اردگرد خطے کا کیا بنے گا؟ اس لئے کہ افغانستان کے امن مذاکرات بڑی محنت سے اس مرحلے پر پہنچائے گئے تھے۔ اس میں پاکستان سمیت کئی ممالک جن میں قطر‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات بھی شامل ہیں‘ نے مثبت کردار ادا کیا تھا۔ روس اور چین کی بھی اس مذاکراتی عمل کو حمایت حاصل تھی۔ اس لئے ان تمام حلقوں میں صدر ٹرمپ کے اقدام کو مایوس کن قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس اقدام کی وجہ پانچ ستمبر کو کابل میں طالبان کے ایک خودکش حملے کو قرار دیا تھا‘ جس میں 20افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک امریکی سپاہی بھی شامل تھا‘ مگر مبصرین امریکہ کے اس عذر کو تسلیم نہیں کرتے‘ کیونکہ افغانستان کی جنگ میں اب تک امریکہ کے دو ہزار سے زائد سپاہی مارے جا چکے ہیں‘ بلکہ جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ اب تک 16امریکی فوجی طالبان کے حملوں میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ اس لئے صرف ایک فوجی کی ہلاکت پر امریکی صدر کی طرف سے اتنے بڑے اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ دراصل افغانستان میں قیامِ امن اور مصالحت کیلئے مذاکرات کا یہ سلسلہ آغاز سے ہی چند ایسے بنیادی نقائص اور خامیوں کا شکار تھا کہ آگے جا کر اس کے ختم ہونے پر کسی حیرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی مثلاً مذاکرات کے دوران کسی بھی مرحلے پر افغانستان کی حکومت اس میں شامل نہیں تھی۔ طالبان نے شروع سے ہی موقف اختیار کیا تھا کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ کسی قسم کی براہ راست بات چیت نہیں کریں گے۔ امریکیوں نے طالبان کے اس موقف کو تسلیم کر لیا تھا‘مگر مذاکرات کے دوران ان کی کوشش تھی کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر راضی کیا جائے اور اس کے لئے انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کی خدمات بھی حاصل کیں‘ مگر طالبان اس پر راضی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے امریکیوں سے یہ شرط بھی منوا لی کہ نہ صرف امریکی افواج کے انخلا کے دوران‘ بلکہ ان کے چلے جانے کے بعد بھی وہ افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے دوران بھی افغانستان میں جنگ جاری رہی اور دونوں طرف سے بھاری جانی نقصان ہوتا رہا بلکہ جوں جوں معاہدے پر دستخط کرنے کا مرحلہ قریب آ رہا تھا‘ جنگ میں بھی تیزی آ رہی تھی حالانکہ امریکیوں‘ افغان سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے برابر مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ امن مذاکرات کے دوران فریقین جنگ بندی کا اعلان کر دیں تاکہ افغان عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ افغان حکومت کو الگ کر کے امن مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت دینا بہت مشکل تھا‘ اس لئے کہ بے شک افغانستان کی سرکاری افواج میں نہ تو لڑنے کیلئے سپرٹ ہے اور نہ وہ نظم و ضبط ہے‘ جو اسے ایک مؤثر قوت بنا سکے‘ اس کے باوجود افغان حکومت اور اس کے زیر کنٹرول علاقوں میں سرکاری افواج کی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور طالبان‘ افغان حکومت کی شرکت اور ذمہ داری کے بغیر جس معاہدے کی طرف بڑھ رہے تھے‘ کابل انتظامیہ کو اس پر سخت تحفظات تھے۔ ان تحفظات سے خود امریکہ میں بھی کئی حلقے متفق ہیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلا کے بعد‘ ملک میں کس قسم کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ ہوگا؟ طالبان کا اصرار تھا کہ وہ ملک میں وہی حکومتی ڈھانچہ‘ یعنی اسلامی امارات افغانستان بحال کریں گے‘ جو دسمبر 2001ء سے پہلے افغانستان میں قائم تھا‘ لیکن گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران افغانستان کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ پارلیمنٹ کی صورت میں ایک منتخب ادارہ قائم ہو چکا ہے‘ بہت سی سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں‘ جن میں لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم اور صحت کے علاوہ دیگر کئی شعبے ہیں جن میں افغان مرد اور عورتیں‘ ملازمت کر رہے ہیں۔ ان تمام تبدیلیوں کو نظر انداز کر کے افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا مطلب صرف ایک تھا کہ ملک کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے‘ مگر افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک جن میں پاکستان اور ایران کے علاوہ روس اور چین بھی شامل تھے‘ اس پر راضی نہیں تھے‘ کیونکہ ان کے سامنے 1990ء کی دہائی کے افغانستان کی مثال تھی‘ جب روسی افواج نے اچانک افغانستان خالی کر دیا تھا اور ان کے انخلا کے بعد افغانستان ایک طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا تھا۔ ایسی صورتحال ایک دفعہ پھر افغانستان میں پیدا ہونے سے روکنے کیلئے نہ صرف امریکہ اور افغان حکومت بلکہ پاکستان‘ چین اور روس بھی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست بات چیت پر زور دے رہے تھے۔ افغان امن عمل کے اچانک دھڑام سے گر جانے کی ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ اس کے حتمی نتائج یعنی معاہدے کے بارے میں امریکہ اور طالبان کی امیدوں اور توقعات کے درمیان شروع سے ہی بنیادی اختلافات تھے۔ امریکہ معاہدے کے تحت اپنی فوجوں کے انخلا کے بارے میں اپنی شکست اور پسپائی کا تاثر نہیں دینا چاہتا تھا بلکہ وہ افغانستان میں اپنی فوجوں کا کچھ حصہ بدستور مقیم دیکھنا چاہتا تھا۔ امن مذاکرات سے کئی سال پہلے امریکہ کی سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے پر تیار ہے‘مگر وہ افغانستان سے مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی بدستور قائم رکھنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان کے ارد گرد کے خطوں میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھ سکے۔
طالبان کے نزدیک وہ امریکہ کو شکست دے چکے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ایک شکست خوردہ فریق کی حیثیت سے وہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر روانہ ہو جائے۔ باقی ان کے جانے کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا‘ اس کا فیصلہ افغان باہمی مشاورت سے خود کریں گے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ طالبان اس مشاورتی عمل میں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت کو رد کر چکے ہیں‘ بلکہ مجوزہ معاہدے کی جو تفصیلات جزوی طور پر منکشف ہوئی ہیں‘ اس کے مطابق انہوں نے امریکیوں سے اپنی یہ شرط منوا لی ہے کہ انخلا کے دوران وہ امریکی فوجوں پر حملے نہیں کریں گے‘ مگر افغانستان کی سرکاری فوجوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی اور اسی دوران اگر امریکیوں نے اپنی فضائیہ کے ذریعے افغان سرکاری فوجوں کی مدد کی تو وہ معاہدہ ختم کر دیں گے۔ یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ امریکیوں نے طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر اتفاق کیا ہے وہ زیادہ تر طالبان کے حق میں جا رہا تھا اس پر نہ صرف افغان حکومت بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کے بھی چند مقتدر حصے ناراض تھے بلکہ بین الاقوامی برادری بھی متذبذب تھی۔ ان کے نزدیک امریکہ ایک دفعہ پھر موقع پرستی اور خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان سے اپنی افواج کو عجلت میں نکال کر ملک کو انارکی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ا نہی تحفظات کی وجہ سے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے معاہدے پر دستخط سے انکار کر دیا تھا اور اب امریکی کانگرس اس پر بریفنگ کے ذریعے اصل حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ تمام جنگوں کا خاتمہ مذاکرات کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے افغانستان میں بھی مذاکرات کے ذریعے ہی جنگ کا خاتمہ ہوگا اور امید ہے کہ معطل شدہ مذاکرات بحال ہو جائیں گے۔ مگر خدشہ ہے کہ معاہدے تک پہنچنے میں افغان عوام کو جنگ اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس کے آثار ابھی سے واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved