یہ دو ہزار گیارہ کے اِنہی دنوں کی بات ہے‘ مجھے ایک شام فون آیا کہ اگلی صبح سات بجے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ماڈل ٹاؤن میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو ملاقات سات بجے ہو گی لیکن ان کی خواہش ہے کہ اسی بہانے آپ صبح چھ بجے ڈینگی کے بارے میں اجلاس میں بھی شرکت کر لیں۔ کسی صحافی کے لیے صبح چھ بجے کام پر جانا صرف ایک صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ اس کی جان پر بن آئے۔ چونکہ میری جان پر نہیں بنی تھی اس لیے فون کرنے والے دوست سے معذرت کی کہ وزیر اعلیٰ کی زیارت میرے پیشہ ورانہ امور کا حصہ ہے لیکن زیارت کا وقت صبح چھ کی بجائے کوئی اور رکھ لیا جائے۔ وہ ہنسے اور بولے، ''میں نے میاں صاحب کو کہا تھا، صحافی کو علی الصبح بلانا ممکن نہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ آپ کو بلایا جائے‘‘۔ میں نے شہباز شریف صاحب کی محبت کا غائبانہ شکریہ ادا کیا اور اگلے دن ماڈل ٹاؤن نہیں گیا۔ ان دنوں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی تو لاہور بھر میں خوف طاری تھا۔ وزیر اعلیٰ دن رات ڈینگی کے خاتمے میں جتے تھے۔ سرکاری ٹیمیں گھر گھر جا کر اس خطرناک مچھر کی افزائش کے راستے بند کررہی تھیں۔ سری لنکا کے ماہرین کی ٹیم جگہ جگہ چھاپے مارنے کے انداز میں مچھر کا لاروا تلاش کرتی اور جیسے ہی کسی جگہ ڈینگی مچھر کے لاروے کا پتا چلتا ٹی وی کیمرے پہنچ جاتے اور اس خوردبینی جرثومے کو ٹی وی سکرین پر دکھانے کی کوشش کرتے۔ ان اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔ ڈینگی بخار سے لوگ اتنا ڈر رہے تھے کہ اس کے توڑ کے لیے تعویذ گنڈا کرنے والوں کا کاروبار بھی خوب چل نکلا تھا۔ اس نادیدہ بلا کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا سوائے اس کے کہ جو اس مچھر کا شکار ہوا، موت کے گھاٹ اتر گیا۔ صوبائی حکومت نے دو مہینے بعد یہ خوشخبری سنائی کہ ڈینگی نومبر کے مہینے میں قدرتی طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ پہلی سائنسی اطلاع تھی جو پنجاب میں نویدِ مسرت کے طور پر سنی گئی۔ اس کے بعد سکون کا سانس تو آیا لیکن عوام کو، حکومت اسی طرح ڈٹی رہی۔ ہر دوسرے دن لاہور کے ہر گھر کا دروازہ بجتا اور کوئی ڈینگی مار ٹیم آ کر پانی کی ٹینکیوں، گملوں اور کیاریوں پر نظر ڈالتی۔ نتیجہ اس کارروائی کا یہ نکلا کہ ڈینگی کا حملہ وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اگلے سال کارروائی مئی جون میں ہی شروع ہو گئی اور ڈینگی کے لاروے مچھر بننے سے پہلے ہی تلف ہو گئے۔ دو ہزار گیارہ میں سترہ ہزار مریضوں کو ڈینگی بخار ہوا تھا، صرف ایک سال بعد ایک سو بیاسی مریض تھے جنہیں ڈینگی ہوا۔ ڈینگی کا قلع قمع ہوگیا لیکن اس کے خلاف مہم نہیں رکی، مسلسل چھ سال چلتی رہی۔ ڈینگی نے دوبارہ اس وقت پاکستان میں سر اٹھایا جب تبدیلی آ چکی تھی۔
میں شہباز شریف کے انداز حکومت کو مصنوعی سمجھتا ہوں لیکن ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی لائی ہوئی تبدیلی کا مطلب ہے نالائقی کی سرکاری و ریاستی سرپرستی۔ اسلام آباد میں تو یہ سرپرستی خود وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں لیکن لاہور میں نالائقی کا منبع ہمارے پیارے وزیراعلیٰ جناب عثمان بزدار کی ذاتِ با برکات ہے۔ جب سے پنجاب میں ان کا ظہور ہوا ہے، صوبے پر ایسے لوگ مسلط ہوگئے ہیں جن کے اعضائے رئیسہ میں ایک طویل زبان کے سوا کچھ کام نہیں کرتا۔ اگر ان میں سے کسی کو صحت کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے اس شعبے کو برباد کر دیا۔ کسی کے ذمے زراعت لگی تو اس نے اسے تباہ کر ڈالا۔ کسی کے ہاتھ تعلیم آ گئی تو وہ اسے روند رہا ہے۔ جناب وزیراعلیٰ خود پولیس کے رہنما و سرپرست ہیں تو اس کی درندہ صفتی عفریت کی طرح سر اٹھائے ہوئے ہے۔ ان کو کہیں کوئی معقول آدمی اپنی صفوں میں نظر آیا تو اسے نکال باہر پھینکا۔ ان کی یک سالہ فتوحات کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا بھی عبث ہے کہ ان سے کوئی ڈھنگ کا کام سرزد ہو جائے گا۔ اس لیے ان سے قطعاً کوئی توقع نہیں تھی کہ ان میں سے کوئی ایسا عاقل و بالغ ہو گا جسے ڈینگی کے خطرے کا بروقت ادراک ہو۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس مہیب نالائقی کے باوجود پنجاب میں 'صرف‘ دس ہزار لوگ ڈینگی کا شکار ہوئے ہیں۔ ڈینگی مچھر اگر کوئی ذی شعور مخلوق ہوتا اور اسے عثمان بزدار صاحب کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا تو یقین مانیے بستیوں کی بستیاں بے خوف و خطر اجاڑ ڈالتا۔ اگر اسے شعبۂ صحت کی بربادی کا علم ہوجاتا تو خاکم بدہن پنجاب کی سڑکوں پر مرگِ انبوہ کے نظارے ملتے۔ یہ تو قدرت کا اپنا نظام ہے کہ اس نے پنجاب میں رہنے والوں کی حفاظت کا کوئی غیبی بندوبست کیا ہے ورنہ اس صوبے کی حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کوئی ترقی یافتہ ملک ہوتا تو اس طرح کی غفلت پر حکومت استعفیٰ دے چکی ہوتی مگر یہاں راولپنڈی اور لاہور کے ڈپٹی کمشنر کو فارغ کرکے سمجھا جارہا ہے کہ سارے مسائل حل ہوچکے ہیں۔ اس بندۂ خدا کو ایک سال میں صرف یہ پتا چلا ہے کہ وہ ڈی سی کو گھر بھیج سکتا ہے۔ انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں کہ ڈینگی کا پھوٹ پڑنا صوبائی حکومت کے غیر مربوط ہونے کی وجہ سے ہے‘ بے چارے ڈی سی کیا کر سکتے تھے۔
پاکستان کے نظام میں خدا جانے ایسا کیا ہے کہ منتخبِ روزگار نالائق سیاست کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے عوام کے سروں پر سوار ہو جاتے ہیں۔ ملک کی تشکیل سے لے کر آج تک کی تاریخ عمومی طور پر ہمارے حکمرانوں کی نااہلی سے بھری پڑی ہے۔ سوائے چند ایک اتفاقی طور پر سرزد ہو جانے والے صحیح کاموں کے ہماری تاریخ میں کچھ ایسا نہیں جسے دنیا کے سامنے ہم فخر سے پیش کرسکیں۔ ہر نکمے نے اپنے سے بھی زیادہ نکموں کو بڑے بڑے عہدوں پر لگایا اور ملک کو تباہی کے راستے سے ہٹنے نہیں دیا۔ اب صورت یہ بن چکی ہے کہ یونیورسٹی کے لیے وائس چانسلر ڈھونڈنا ہو تو نالائقوں کی فہرست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری افسر ڈھونڈنے نکلیں تو بدتر اور بدترین کے درمیان چناؤ درپیش ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کے درمیان صرف ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ہی ایک کو دوسرے سے کم برا قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے درمیان نظریاتی فرق اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ 'میں‘ کے فلسفے سے برآمد ہوتا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں عمران خان صاحب نے اس قوم پر جو احسان کیا‘ وہ دراصل یہی ہے کہ اب ہم شرح صدر کے ساتھ خود کو ناقابلِ اصلاح سمجھنے لگے ہیں۔ ہم اس خوف سے نااہلوں کو برداشت کر رہے ہیں کہ ان کے (نکالے) جانے کے بعد ان سے بدتر آگئے تو کیا ہوگا۔ اقتدار کے ایوانوں میں اس قسم کے لوگوں کے داخلے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان بھی کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ اگر کرنا چاہتے تو وعدے کے مطابق باصلاحیت لوگوں کو آگے لاتے، نظام میں ایسی اصلاحات کرتے کہ کام کرنے والے لوگ بروئے کار آتے۔ ان کے مقاصد قوم کے سامنے ہوتے اور راستے کی اونچ نیچ میں وہ رہنمائی کرتے۔ ان کی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں تو کسی کو بھی کوئی بڑی خوش فہمی نہیں رہی؛ البتہ خوش گمانی تھی کہ وہ اہل لوگوں کی مدد حاصل کر لیں گے۔ ان کی پے در پے مہلک غلطیاں صرف اس لیے نظر انداز ہوگئیں کہ شاید یہ ان کے سیکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ مگر اب ایک سال بعد پاکستان میں شاید ہی کوئی ذی ہوش ہو جو یہ نہ سمجھ چکا ہو کہ انہوں نے نالائقی کا ڈینگی جان بوجھ کر ریاست کے ہر کونے کھدرے میں چھوڑ دیا ہے۔ صرف اس لیے کہ کوئی باصلاحیت شخص ان کے سامنے اپنا چراغ نہ جلا لے۔ وفاقی کابینہ ہو یا پنجاب و خیبر پختونخوا کی حکومتیں، وہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر سامنے لائے ہیں جو تندور سے روٹی بھی ٹھیک سے نہیں لگوا سکتے۔ شاید انہیں اندازہ ہی نہیں کہ انہیں نالائقی کے اسی ڈینگی نے ڈس لیا ہے۔ اب تحریک انصاف کے جسدِ سیاسی میں درد اٹھے گا۔ پھر اسے تیز بخار ہوگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ناک منہ سے خون بہنے لگے گا۔ آخرکار یہ تاریخ کے گھاٹ اتر جائے گی۔ یہ نظارہ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے، ہم پھر دیکھیں گے۔ یہی ہماری قسمت ہے۔