تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-09-2019

’’جو ہو گا دیکھا جائے گا ‘‘

مودی سرکار کی دال روٹی صرف اس بات پر چل رہی ہے کہ کسی نہ کسی طور ہر معاملے میں پاکستان کو گھسیٹ کر لائے اور لتاڑے۔ بھارت میں اگر تیز ہوا سے کوئی درخت بھی اکھڑ جائے تو الزام پاکستان کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ یہ ہندو نیشنلسٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مجموعی مزاج ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے انتہا پسندی کو انتہا تک لے جانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کردیا ہے۔ گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کی زندگی کو عذاب بنانے کیلئے ساتھ ساتھ اب مقبوضہ کشمیر میں بھی معاملات کو اِس قدر الجھادیا گیا ہے کہ کشمیریوں کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے۔ 
نئی دہلی میں سکونت پذیر ارون دھتی رائے کو ہر حال میں شاباش دینا پڑے گی کہ انہوں نے عمومی سطح پر مسلمانوں سمیت بھارت میں اقلیتی برادری کے تمام افراد اور خصوصی طور پر کشمیری مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے میں کبھی بخل سے کام لیا ہے‘ نہ خوف محسوس کیا ہے۔ ارون دھتی رائے نے مسلمانوں سمیت بھارت کی تمام اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ بھرپور آواز اٹھائی ہے اور تنقید کے معاملے میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ 
جسٹس (ر) مارکنڈے کاٹجو کا شمار بھی بھارت کے اُن گِنے چُنے بھارتیوں میں ہوتا ہے جو اپنے ضمیر کی آواز ہر لبیک کہتے ہوئے حق کا ساتھ دینے سے کبھی نہیں ہچکچاتے۔ رواں سال فروری کے اوائل میں جب پاکستان نے ونگ کمانڈر ابھینندن کا طیارہ مار گرایا تھا اور وہ گرفتار کرلیے گئے تھے تب بھی جسٹس (ر) کاٹجو نے اپنی حکومت کو لتاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ پلوامہ حملے کے حوالے سے انہوں نے سکیورٹی فورسز کو بھی نہیں بخشا تھا۔ 
خوشا کہ اب شرد گووند راؤ پوار میدان میں ہیں۔ بھارت کے سابق وزیر دفاع اور نیشنلسٹ کانگریس کے صدر نے انتہائی کشیدہ ماحول میں پاکستان کے لیے لب کشائی کرکے خوش گوار حیرت کا سامان کیا ہے۔ آج کے بھارتی ماحول میں پاکستان کو سراہنے کی معمولی سی کوشش بھی برداشت نہیں کی جارہی۔ ایسے میں شرد پوار کی شجاعت کو داد دی جانی چاہیے کہ انہوں نے اپنی حکومت کی ناراضی کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ تین بار مغربی ریاست مہا راشٹر کے وزیر اعلٰی کے منصب پر فائز رہنے والے شرد پوار کہتے ہیں ''مودی سرکار پاکستان کے حوالے سے انتہائی بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں لوگ انصاف سے محروم اور پریشان ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستانی تو بہت خوش ہیں۔ مودی سرکار سیاسی فوائد بٹورنے کے لیے پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں گمراہ کن باتیں پھیلا رہی ہے۔ میں کئی بار پاکستان گیا ہوں اور جب بھی گیا ہوں میرا شاندار خیر مقدم کیا گیا ہے‘ مہمان نوازی کا شاندار مظاہرہ کیا گیا ہے۔ پاکستانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے وہ بھارت نہیں آسکتے تو بھارت سے آنے والے ہر فرد کو اپنے رشتہ دار کا درجہ دیتے ہیں۔‘‘ 
شرد پوار نے پاکستان کے لیے ایسے ماحول میں زبان کھولی ہے جب بھارت میں ہر طرف پاکستان مخالف جذبات انتہا کو چُھو رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پورے ملک کو مسلم دشمنی کے رنگ میں رنگنے کے لیے تمام گھوڑے کھول دیئے ہیں۔ مودی سرکار اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ مسلم دشمنی کا جو ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے ‘اُس سے ملک کی سلامتی ہی نہیں‘ سالمیت بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ اس کے باوجود مسلم مخالف فضاء پروان چڑھانے سے گریز نہیں کیا جارہا۔ گائے کا تحفظ یقینی بنانے کے نام پر ملک بھر میں متعدد مقامات پر ہجوم کے ہاتھوں کئی مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد مودی سرکار نے اب مقبوضہ جموں و کشمیر کو داؤ پر لگادیا ہے۔ بھارت میں کروڑوں افراد کی عمومی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ عالمی برادری بھارت پر زور دے رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا کیا جانے والا جیل کا سا ماحول ختم کرے ‘مگر اُس کی ایک نہیں سُنی جارہی۔ بھارت بہت بڑی منڈی ہے۔ امریکا اور یورپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ایک بڑی منڈی کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے‘ اس لیے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جانے کا مشاہدہ کرنے کے باوجود وہ عملی سطح پر کچھ نہیں کر رہے۔ 
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے خطاب کی گھڑی بھی آپہنچی ہے۔ دنیا یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ کشمیریوں کے لیے کون کیا کہتا ہے۔ اہلِ کشمیر نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے کسی بھی جاں گُسل مرحلے سے گزرنے کو تیار ہیں۔ حد یہ ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رہنما اور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کو بھی مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یشونت سنہا نے بتایا کہ حکام نے انہیں ''امن کے لیے خطرہ‘‘ قرار دے کر ائیر پورٹ ہی سے واپس بھیج دیا۔ اس سے قبل 24 اگست کو کانگریس کے صدر راہل گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن کے وفد کو بھی سری نگر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ 
شرد پوار نے یہ بات خوب کہی کہ پاکستانی تو خوش ہیں۔ اہلِ پاکستان کے بارے میں یہ رائے صرف شرد پوار جی کی نہیں ‘بلکہ ہر اُس بیرونی شخصیت کی ہے جو ایک بار یہاں آتی ہے اور مشاہدہ کرتی ہے کہ دنیا جو کچھ بھی پاکستانیوں کے بارے میں کہہ رہی ہے ‘وہ سراسر بے بنیاد اور محض جھوٹ ہے۔ پاکستانی ہر حال میں خوش رہنے کے عادی ہیں۔ ایک دنیا نے ایک مدت سے چھوڑ رکھا ‘مگر پھر بھی ہم اپنے حال میں مست رہنے کی روش سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ؎ 
قائم اِسی سے اپنا بھرم ہے جہان میں 
سب کچھ لُٹا کے جینے کی عادت وطن کے نام 
اہلِ پاکستان کے پاس خوش رہنے کے سوا کوئی آپشن بھی تو نہیں۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ دنیا بھر میں حالات خراب ہیں‘ لیکن اگر بڑی کرکٹ ٹیموں نے آنے سے انکار کیا ہے تو صرف پاکستان کو چُنا ہے! بم دھماکے کہاں نہیں ہوتے ‘مگر اس حوالے سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے تو صرف پاکستان سے۔ شعوری کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں کرکٹ ختم ہو جائے‘ اُس کا نشان تک مٹ جائے۔ 
جو کچھ بھارت نے اب تک پاکستان کے معاملے میں کیا ہے ‘وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس قدر پریشان کن ہے کہ کوئی اور ملک ہوتا تو اُس کے اعصاب جواب دے جاتے۔ ہم نے ہر پریشانی کو خندہ پیشانی سے جھیلا ہے‘ برداشت کیا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے مظالم کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پوری وادی کو دنیا کے سب سے بڑے زندان میں تبدیل کردیا گیا ہے‘ تاہم پاکستانیوں کو نفسی اور اعصابی اعتبار سے دبوچنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی باتیں بھی ہو رہی ہیں‘ مگر اہلِ پاکستان کی پیشانیوں پر شدید الجھن کی کوئی شکن نہیں۔ یہ بے حِسی نہیں‘ زندہ دلی ہے۔ ''جو ہوگا دیکھا جائے گا‘‘ کی ذہنیت ہمارا خاصہ ہے۔ ایک دنیا پاکستانیوں کی زندہ دلی کو تسلیم کرتی ہے اور اِس وصفِ حمیدہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مودی سرکار کو سوچنا چاہیے کہ کشمیریوں کا جینا محال کرکے وہ کیا پارہی ہے اور پاکستان و پاکستانیوں کے بارے میں بے بنیاد باتیں کرکے کیا کمارہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved