تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     26-09-2019

مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر

شام اور یمن کئی سالوں سے جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ وہاں کی دیہی اور شہری آبادیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ آدھے سے زیادہ شام خالی ہے۔ اس کے شہری ترکی (جہاں تیس لاکھ مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں)، اردن، لبنان اور دیگر عرب اور مغربی ممالک میں دربدر ہیں۔ شام کی جنگ میں روس، امریکہ، ایران اور سعودی عرب، سب براہِ است مداخلت کار ہیں۔ وہاں حکومت، اور مختلف دھڑے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ مذہب اور نظریاتی بنیادوں پر مختلف ممالک سے جنگجو میدان میں جھونکے گئے ہیں۔ شام اب ایک اکائی نہیں، بلکہ کئی اکائیوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ شام کی حکومت اور فوج، روس، ایران اور لبنان کی حزب اﷲ کی اعانت سے اپنے قدموں پر کھڑی رہیں، لیکن شہریوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
یمن کا اس سے بھی برا حال ہے۔ وہاں ایران کے حمایت یافتہ حوثی قبائل نے مرکزی شہر اور دیگر علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اُن کو شکست دینے کیلئے سعودی عرب پانچ عرب ریاستوں پر مشتمل فوجی اتحاد قائم کرکے اس جنگ میں فریق بن چکا ہے۔ یمنی بیچارے بموں سے بھی مر رہے ہیں اور بھوک سے بھی۔ صد افسوس، ان ممالک میں اقتدار پر وہ افراد قابض ہیں جو بیرونی آقائوں کی خوشنودی اور اپنی ذاتی طاقت کی جنگ میں خونِ ناحق بہانے پر کمربستہ ہیں۔ یہ وہ سرزمینیں ہیں جہاں کبھی غیرت مند، جری، بہادر اور انصاف پسند حکمران پیدا ہوئے تھے۔ آج پیادے ہی پیادے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے والے۔ امتِ مسلمہ ایک خوش کن استعارہ ہے، اور ماضی کا ایک اچھا حوالہ بھی، مگر آج کی کیفیت دیکھنی ہے تو ان جنگوںکے آسمان تک بلند شعلوں پر نظر دوڑائیں۔ ماضی اور حال کا فرق صاف نظر آجائے گا۔ 
جس دوران یہ جنگیں جاری ہیں، ریاستیں تباہ حال، لوگ مررہے ہیں، اب ایک اور جنگ کے کالے بادل افق پر ابھر رہے ہیں۔ یہ ایران اور سعودی عرب کی جنگ کے سنگین ہوتے ہوئے خدشات ہیں۔ ویسے ان دو حریف مسلم ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف طویل عرصہ تک خفیہ جنگ جاری رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر مسلمان ملک میں فرقہ پرستی کو پروان چڑھایا گیا۔ اس کی زد میں وطنِ عزیز بھی آیا۔ لیکن شکر ہے کہ جو دراڑیں وہ پیدا کرنا چاہتے تھے، اس میں ناکام رہے‘ مگر انتہا پسند تنظیمیں ہمارا بہت زیادہ نقصان کرگئیں۔ 
سعودی عرب میں اپنے طور پر اتنی سکت نہیں کہ وہ عسکری میدان میں ایران اور اُس کے اتحادی ممالک کا مقابلہ کرسکے۔ کئی دہائیوں سے وہ امریکہ کے سلامتی کے حصار میں محفوظ رہا ہے، مگر اس سکیورٹی کی اس نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اب تک لاکھوں ارب ڈالرمالیت کا جدید اسلحہ خریدا جا چکا ہے، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب اور امارات کے تیل کی ادا کردہ قیمت کسی طرح واپس لی جائے۔ ترقی کے تمام بڑے بڑے منصوبوں، جدید اسلحہ اور امریکی اور یورپی شہروں میں سرمایہ کاری کے ذریعے دولت دوبارہ مغربی ممالک کے پاس جمع ہوجاتی ہے۔ ابھی تک امریکی حکومت سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی ٹھوس شہادت سامنے آئے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے وزیرِ خارجہ نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اس کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ حوثی قبائل اور اُن کی قیادت کا دعویٰ کہ حملہ اُنھوں نے یمن کی سرزمین سے کیا ہے، اُنہیں قابلِ اعتبار نہیں لگتا۔ حوثی ملیشیا سعودی سرزمین پر میزائل اور ڈرون حملے کرتی رہتی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ حملہ اُنھوں نے ہی کیا ہو۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حوثی قبائل ایرانی حکومت کے اُسی طرح اتحادی ہیں جس طرح حز ب اﷲ یا بشارالاسد کی حکومت۔ 
ایران نے موثر علاقائی حکمتِ عملی اختیار کررکھی ہے۔ اگرچہ امریکہ نے ایران کی دنیا کی منڈیوں، تجارت اور ٹیکنالوجی تک رسائی پر موثر پابندیاں عائد کررکھی ہیں، اور اُن کومزید سخت کیا جارہا ہے، لیکن ایران نہ تو اندر سے ٹوٹا اور نہ ہی اس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے دیرینہ اتحادیوں کی کمک میں کمی کی۔ سیاسی اور عسکری حوالے سے ایران کی علاقائی طاقت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عراق میں ایرانی ملیشیا، فوج کے کچھ حصے داعش کے خلاف جنگ میں استعمال ہوئے۔ اُنھوں نے کامیابی کے ساتھ داعش کا خاتمہ کیا۔ وہاں امریکہ کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ 
عراق میں ایران کا اثرورسوخ بڑھ چکا ہے۔ وہاں کے علما، سیاسی تنظیمیں، یہاں تک کہ امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت بھی ایران کو اپنا اتحادی تصور کرتی ہے۔ اسی طرح ایران نے شام کی حکومت اور اُس کی فوج کے ساتھ مل کر داعش اور حزبِ اختلاف کے مختلف دھڑوں، جنہیں وہاں امریکہ اور سعودی عرب کی درپردہ حمایت حاصل تھی، ختم کیا۔ تباہی وسیع پیمانے پر ہوئی ہے، لیکن شام اور ایران اپنے عسکری اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ لبنان میں ایران کا اثر کئی دہائیوں سے حزب اﷲ کی حمایت سے بڑھا ہے۔ حزب اﷲ نہ صرف لبنانی حکومت میں شراکت دار ہے، بلکہ اس نے جنوبی لبنان میں اپنی علیحدہ عسکری قوت قائم کررکھی ہے۔ حزب اﷲ نے یہ علاقے بھاری جانی قربانیوںکے بعداسرائیل کے تسلط سے آزاد کرائے، اور اس نے یہاں اسرائیلی جارحیت کے خلاف عسکری حصار قائم کررکھا ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی میں سب سے بڑی تبدیلی تمام مسلمان ممالک میں اپنے مذہبی عقائد سے ہم آہنگ آبادیوں کو تعلیمی، مالی اور سیاسی طور پر طاقتور بنانا تھا۔ شدید ردِعمل کے باوجود یہ پالیسی کسی نہ کسی طور جاری ہے؛ چنانچہ اس خطے میں ایران عسکری، سیاسی اور مسلکی اعتبار سے جو اتحادی قائم کرچکا، وہ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مظہر ہیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں رونما ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا دفاع مذہبی قیادت کا اوّلین نصب العین رہا۔ اس دوران مغرب،خصوصاً امریکہ اور اس کے علاقائی حلیفوں نے پوری کوشش کی کہ ایران کی اسلامی ریاست کو کمزور کیا جائے۔ انقلاب کے فوراً بعد عراق کے صدر صدام حسین کو ایک طویل اور خطرناک جنگ کیلئے تیار کیا گیا۔ اُس وقت صدام حسین امریکہ اور مغرب کے چہیتے تھے، اور اُن کی پشت پر مغربی اسلحہ اور عرب ممالک کی تیل کی بے پناہ دولت تھی۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ ایران سلامت رہا۔ مگر اس کیلئے ایران نے بے پناہ جانی اورمالی قربانیاں دیں،لیکن اس نے عراق کو اپنی ایک انچ سرزمین پر بھی قبضہ نہ کرنے دیا۔ 
آج ایک مرتبہ پھر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ایران کے خلاف کارروائی کے لیے کمربستہ ہوچکے ہیں، لیکن ایران کی طرف سے شدید مزاحمت اور جنگ کے پھیل جانے کے خطرے کے پیشِ نظر شش وپنج میں ہیں کہ اب سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد کیا کریں۔ اس لیے ابھی تک شواہد تلاش کررہے ہیں کہ حملہ کریں یا کوئی اور راستہ تلاش کریں۔ 
اس علاقہ میں جنگی صورتحال پیدا کرنے میں صدر ٹرمپ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کئی برسوں کی ریاضت، محنت اور کاوش کے بعد سابق صدر بارک اوباما نے ایٹمی معاہدہ کیا تھا، جس کے مطابق ایران جوہری ہتھیار بنانے سے دستبردار ہوگیا تھا۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے سے ایران پر عائد پابندیاں ہٹنے لگیں، اور تیل فروخت کرنے لیے عالمی منڈی تک جانے کی راہ ہموار ہوگئی۔ موجودہ امریکی صدر کو پسند نہیں کہ ایران تیل اور گیس کی فروخت سے حاصل ہونے والی دولت سے اتحادیوں کو مضبوط کرے۔ اس کی وجہ سے امریکہ کے عرب اتحادی دبائو میں آسکتے ہیں۔ مذکورہ عرب ریاستیں اوباما کے ایٹمی معاہدے کے خلاف تھیں۔ 
اگر امریکی صدر اور عرب قیادت دوراندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ کریں تو مشرقِ وسطیٰ کو ایک اور خوفناک جنگ سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے اُن حالات کو ختم کرنا ہوگا جو تصادم اور تنائو کا باعث بن رہے ہیں۔ ایران کا کہناغلط نہ ہوگا کہ یہ جنگ بہت دور تک پھیل سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ یمن پرمسلط کردہ جنگ بند کرکے اس مسئلے کاکوئی سیاسی حل نکالا جائے۔ امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی تجدید کرے، اور ایران پر عائد پابندیاں ختم کرکے تنائو کم کرے۔ معاشی خوشحالی کے امکانات معاملہ فہمی کی راہ نکالتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved