تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     26-09-2019

قانون کی تربیت اور تعلیم

انصاف ایک ایسا آئینی ماڈل ہے جس پر کسی بھی آزاد اور پُر امن معاشرے کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ یہی وہ خیر ہے جو عوام کو بنیادی حقوق کی زنجیر سے جوڑے رکھتا ہے اور تھکے ہارے اور منتشر عوام کو‘ جو ایک بار پھر آزاد فضا میں سانس لینے کے متمنی ہوتے ہیں‘ جمہوریت کے ذریعے ایک امید دلاتا ہے۔ اس انصاف کی ضامن اور وہ زنجیر جو ریاستی جہاز کو آئین کے لنگر کے ساتھ باندھے رکھتی ہے‘ ہماری وکلاء برادری ہے یعنی بینچ اور بار۔ اسی وجہ سے ہماری جمہوری اخلاقیات کا دار و مدار بینچ اور بار کی مؤثر کارکردگی پر ہے۔
اس امر کا ادراک بھی اہم ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں انصاف کا آئیڈیا صرف اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت مشہور و معروف مقدمات تک ہی محدود نہیں ہے‘ جیسا کہ بہت سی حالیہ سٹڈیز سے بھی عیاں ہے کہ ان مقدمات کی تعداد پاکستان میں زیر سماعت مقدمات کا عشر عشیر بھی نہیں ہے؛ چنانچہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا مسئلہ بڑی حد تک ضلعی عدلیہ اور بار میں اصلاحات سے جڑا ہوا ہے۔ فی زمانہ ضلعی عدالتوں اور بار رومز میں انصاف اور قانون کے بیّن تقاضوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ 
گزشتہ چند ہفتوں میں صرف لاہور میں پی پی سی کی دفعہ 295-C کے تحت ایسے لوگوں کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج کئے گئے ہیں جنہوں نے ''نہج البلاغہ‘‘ فروخت کی تھی۔ چند ماہ پہلے ایک پانچ سالہ بچے پر قتلِ عمد کی فرد جرم عائد کی گئی تھی جو پی پی سی کی دفعہ 82,83 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ججز بھی اکثر وکلا کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں، فیروز والا کچہری میں ایک وکیل نے پولیس کانسٹیبل کو تھپڑ مار دیا تھا‘ جسے بار کی طرف سے مکمل سپورٹ اور تحفظ حاصل تھا۔ ہمارے نظام عدل میں ابھی تک ارشد ملک جیسے جج موجود ہیں۔ تقریباً ہر ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ضلعی عدالتوں کے ججز کی سرزنش ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا انصاف کے نام پر ظلم و ستم کے ارتکاب کی وجہ ہمارے لیگل کوڈ میں پایا جانے والا کوئی بنیادی نقص ہے؟ کیا پاکستان کے قوانین کا خیر اور رحم کے اصولوں کے ساتھ ہر طرح کا تعلق منقطع ہو چکا ہے؟ یا پھر یہ کہ ہم قانون کی دفعات کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ وہ ظلم اور نا انصافی کا باعث بنتی ہیں؟ کیا ہمارے وکلاء اور عدلیہ خاص طور پر ضلعی عدالتیں ہی انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن چکی ہیں؟ کیا انہوں نے کامن قانون کے وہ سنہرے اصول فراموش کر دیئے ہیں جو عدل و انصاف کی تشریح میں مینارۂ نور کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں؟ یا کیا یہ باتیں انہوں نے قانون کے سکول اور پھر وکلاء کی ٹریننگ کے دوران کبھی کسی کو نہیں سکھائیں؟ یا پھر ہمارے انسان ہونے میں ہی کوئی خامی رہ گئی ہے؟ یا پھر یہ مسئلہ ہے کہ ہم نے انصاف کو غلط تربیت یافتہ افراد کے حوالے کر دیا ہے؟
اس مسئلے کی بڑی وجہ ہماری گھسی پٹی قانون کی تعلیم ہے، اور جس طرح وکلاء کو پریکٹس کے لیے لائسنس جاری کئے جاتے ہیں اور جس طرح ہم ضلعی عدلیہ کی تقرری اور ٹریننگ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر پاکستان بھر میں قانون کی تعلیم دینے والے ادارے ہی ان خواتین و حضرات کو تعلیم اور ٹریننگ دینے میں کوتاہی کے ذمہ دار ہیں‘ جن کے سپرد پاکستان کا نظام عدل کیا جانا ہے۔ اساتذہ کی کمی، طلباء کی غیر حاضری اور بار بار پرانے امتحانی پرچہ جات کا استعمال (جنہیں رٹا لگا کر پاس کیا جا سکتا ہے) پاکستان بھر کے لا کالجز میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جب یہ لا گریجویٹس ضلعی عدالتوں میں آتے ہیں تو کسی مشکل ٹیسٹ، انٹرویو اور سلیکشن پروسیس کے بغیر انہیں وکالت کا لائسنس دے دیا جاتا ہے۔ صورت حال اس وقت اور بھی ابتر ہو جاتی ہے جب لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل ایکٹ 1973ء کے تحت ضلعی عدالتوں میں دو سالہ تجربے اور ایک انٹرویو کی رسمی کارروائی کے بعد اس وکیل کو ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے کا لائسنس دے دیا جاتا ہے۔ بار کی سیاست کا میکنزم‘ جس کا مقصد اپنا ووٹ بینک بڑھانا ہوتا ہے‘ نوجوان وکلاء کے لیے غیر معمولی فیور (Favour) کا باعث بنتا ہے۔ درحقیقت قانون کی عدالتوں میں پریکٹس کرنے کے لیے کسی بھی وکیل کو لائسنس دینے کے حوالے سے سلیکشن کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ انہی وکلاء میں سے ضلعی عدلیہ کی جس طرح سلیکشن کی جاتی ہے وہ کسی کو عدالتی اختیارات دینے کے لیے موزوں طریقہ کار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں سٹرکچرل پس منظر میں ایک کمزور سے ٹیسٹنگ پروسیس سے گزر کر سلیکٹ ہونے والے پنجاب جیوڈیشل اکیڈمی کی مدد سے ضلعی عدلیہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پنجاب جیوڈیشل اکیڈمی‘ جو انصاف کی موثر فراہمی کے لیے عدلیہ کے ججز اور عہدے داروں کو پیشہ ورانہ مہارت، اخلاقی معیار اور استعداد میں اضافے کے لیے ٹریننگ کا انتظام کرتی ہے‘ لاہور ہائی کورٹ کے کنٹرول اور سرپرستی میں کام کرتی ہے۔ اس کے فرائض میں عالمی معیار کے مطابق (ایکٹ کی دفعہ 5) ٹریننگ کی فراہمی، مہارت میں اضافہ، امتحانات کا انعقاد، عدالتی دلائل اور اخلاقی اقدار کی مہارتوں میں اضافہ (ایکٹ کی دفعہ 4) شامل ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں ایک بورڈ ڈائریکٹر جنرل کے ذریعے جیوڈیشل اکیڈیمی کی ''پالیسی اور پروگرام‘‘ کارکردگی کی جانچ پڑتال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ (ایکٹ کی دفعہ 8)
اس ساری صورت حال کے پیش نظر یہ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ ہمارے قانون یا قانون کی تعلیم کے ڈھانچے میں کسی قسم کی کوئی کمی یا خامی ہے۔ جس بات کا صریح فقدان نظر آتا ہے وہ اس قانون کا نفاذ ہے اور اس کے ذریعے ضلعی عدلیہ کے عدالتی احکامات کی کوالٹی میں بہتری لانا ہے۔
اگر ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ ہماری سرکاری یونیورسٹیوں میں قانون کی تعلیم کو ٹھیک کرنا شعبہ تعلیم میں بڑے پیمانے پر درکار اصلاحات کا حصہ ہے (جو راتوں رات ممکن نہیں ہے) تو اس بات کا جواز کم ہی رہتا ہے کہ ہماری اکیڈمیز ایسا ٹھوس نصاب اور نگرانی کا عمل کیوں وضع نہیں کرتیں جس سے ہمارے فقہ یا علم قانون (Jurisprudence) کے معیار میں بہتری آ سکے۔ اگر ہم ایسے وکلاء پیدا کرنے سے قاصر ہیں جو ایک پانچ سالہ بچے پر قتل کا مقدمہ چلانے کے غیر قانونی عمل کا ادراک رکھتے ہوں تو ہم کم از کم ایسے ججز لانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں جو قانون کو پیش نظر رکھ سکیں۔
ہمارے ہاں عدل کا نظام محض نعرے لگانے یا اکا دکا کوششوں سے درست نہیں ہو گا۔ نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کے ذریعے ہی ہم پاکستان میں قانون کا بول بالا نہیں کر سکتے۔ بینچ کی فہم و فراست پر معاشرے کا یقین اعلیٰ عدالتوں کے نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد سے بحال نہیں ہو گا۔ موجودہ قوانین کے تحت ضلعی عدلیہ میں بہتری اور ٹریننگ کی ذمہ داری ہماری اعلیٰ عدلیہ پر ہے۔ اس اصلاحاتی عمل کو شروع کرنے کے لیے بینچ کو ٹھونک بجا کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ 
خدا کی طرح انصاف بھی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں نظر آ جاتا ہے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے قصبوں سے آنے والی چھوٹی چھوٹی آوازوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے کم اہم معاملات سے تعلق رکھنے والی چھوٹی چھوٹی باتیں انصاف کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھی بڑی اہمیت کے حامل قومی امور کے فیصلے کرنے والی بڑی بڑی شخصیات کی نظر کرم کی منتظر ہیں۔
ہمارے ہاں عدل کا نظام محض نعرے لگانے یا اکا دکا کوششوں سے درست نہیں ہو گا۔ نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کے ذریعے ہی ہم پاکستان میں قانون کا بول بالا نہیں کر سکتے... اصلاحاتی عمل کو شروع کرنے کے لیے بینچ کو ٹھونک بجا کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved