تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     26-09-2019

شکست خوردہ ڈینگی کے ڈنک پھرتیز

روش بدلی‘ نہ چلن میں بہتری آئی۔ بس‘ وہی باتیں جن کا نتیجہ ہمیشہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلتا ہے۔ سو‘ اب بھی نکل رہا ہے اور مسائل کا عفریت اپنے ہی لوگوں کو ڈستا جارہا ہے۔معلوم نہیں یہ کیسا اندازِ فکر ہے کہ ہوئے کاموں کا بھی بیڑا غرق ہوا جاتا ہے۔2011کے بعد پہلی مرتبہ ڈینگی کے ڈنک اتنی شدت اختیار کرچکے ہیں۔2011ہی وہ پہلا سال تھا ‘جب اہل پاکستان پہلی مرتبہ ڈینگی کے نام سے آگاہ ہوئے تھے۔سری لنکا سے لائے جانے والے ٹائروں میں چھپ چھپا کر یہ پاکستان پہنچا اور پھر اِس نے جو سراُٹھایا تواِس کی تندی وتیزی نے سب کوہی چکرا کررکھ دیا۔ آن کی آن میں 17 ہزار سے زائد مریض ڈینگی کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ گئے۔ دوسوباون ہلاکتیں ہوئی ‘لیکن جو خوف و ہراس پھیلا ‘وہ ناقابل ِبیان رہا۔ وجہ یہ رہی کہ کسی کو اس بارے میں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ہے کیا اور اس سے کیسے نمٹا جائے؟ ان حالات میں جو کچھ تب کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کیا‘ اُس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اُنہوں نے تو شاید ڈینگی کے خاتمے کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔یاد پڑتا ہے کہ اُنہی دنوں ہم کہیں رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ ایک سیکرٹری صاحب بھی رونق محفل بڑھا رہے تھے کہ اچانک موصوف کے چہرے پر پژمردگی چھا گئی۔ استفسار پر جل بھن کر بولے کہ کل کا دن خراب ہوگیا ہے۔ چیف منسٹرصاحب کی طرف سے پیغام ملا ہے کہ صبح چھ بجے ڈینگی پر میٹنگ ہے ۔ بولے کہ اس کے بعد شام تک یہی سلسلہ چلتا رہے گا‘ اس ڈینگی نے تو ہمارے لیے عذاب پیدا کردیا ہے۔سیکرٹری صاحب کے ساتھ دوسرے انتظامی افسران اور ان کے ساتھ میڈیا کا بھی یہی حال تھا۔وزیراعلیٰ کے ساتھ میڈیا کو بھی بھاگ دوڑ کرنا پڑتی تھی۔ شدید گرمی کے دنوں میں اُن کے ساتھ بھاگتے دوڑتے حوصلے جواب دینے لگتے تھے‘ لیکن شاید ہی کبھی اُن کے چہرے پر تھکن کے آثار دیکھے ہوں۔اپنا بہت سا وقت وہ ڈینگی کے بین الاقوامی ماہرین سے اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے میں بھی صرف کرتے تھے۔ سری لنکا سے ماہرین کی ٹیمیں بلوائی گئیں‘ جنہوں نے پاکستانی ماہرین کو اِس وبا کے بارے میں آگاہی فراہم کی ۔ ان پاکستانی ماہرین نے اپنا سبق آگے منتقل کرنا شروع کیا ۔ تعلیمی اداروں میں ڈینگی کے بارے میں خصوصی لیکچرز نے نونہالوں اور نوجوانوں کو اس بابت آگہی فراہم کی۔نئی بیماری کے خلاف سب متحد ہوئے ‘تو حالات میں بتدریج بہتری آنے لگی۔نتیجہ یہ نکلا کہ 2012ء میں کوئی ایک ہلاکت بھی رپورٹ نہ ہوئی۔ اس کے بعد2013ء میںڈینگی نے ایک مرتبہ پھر سر اُٹھایا ‘جس کے باعث کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔تب موجودہ وزیرصحت پنجاب کے بھائی سیکرٹری ہیلتھ پنجاب تھے ۔ ڈینگی سے ہلاکتیں ہونے کے بعد اُنہیں فو ری طور پر تبدیل کردیا گیا۔آنے والے سالوں میں ڈینگی کے مریض تو رپورٹ ہوتے رہے‘ لیکن اس وبا ء کو کھل کرکھیلنے کا موقع نہ ملا۔
2013ء کے بعد پہلی مرتبہ ڈینگی نے اس شدت کے ساتھ سر اُٹھایا ہے کہ ہر طرف ہاہاکار مچ گئی ہے۔پنجاب کی بات کی جائے‘ اس کے جڑواں شہروں ‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کی حالت تو اس حوالے سے بہت ابتر نظرآرہی ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہر میں بھی اس وباء نے کسی حد تک تو اپنے پر پھیلائے ہیں ‘لیکن اسے قابو سے باہر بہرحال نہیں ہونے دیا گیا ۔یہ الگ بات کہ ڈینگی کے پھیلنے کا ذمہ دار قرار دے کرڈی سی راولپنڈی علی ر ندھاوا کے ساتھ ڈسی لاہور صالحہ سعید کوبھی عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔وہ بچ گئے‘ جن پر اس کی براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔جہاں تک ہم نے دیکھا کم از کم سابق ڈی سی لاہور صالحہ سعید کی حد تک تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ڈینگی پر قابو پانے کے لیے اُن کی طرف سے اپنی سی کوششوں میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی تھی۔ 24گھنٹے ہی اُن کی طرف سے پیغامات ملتے رہتے تھے کہ وہ انسپکشن کے لیے خود فلاں فلاں جگہ پر جارہی ہیں ۔ جب ضلعے کا انتظامی سربراہ خود باہر نکلے گا‘ تو لامحالہ اُس کے ساتھ پوری انتظامی مشینری ہی متحرک ہوگی اور یہ کچھ ہوتا رہا۔ اسے انہیں کوششوں کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ لاہور کی ایک کروڑ کے قریب آباد ی میں ‘ تادم تحریر 80کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے۔ اللہ تعالی کا فضل و کرم رہا کہ لاہور میں ڈینگی کے باعث کوئی ہلاکت بھی رپورٹ نہیں ہوئی۔متعدد مرتبہ ہمیں خود بھی ڈی سی صاحبہ کے ساتھ متعدد مقامات پر جانے کا موقع ملتا رہا ۔اس دوران معلوم پڑا کہ وہ خود بھی ڈینگی کے حوالے سے کافی معلومات رکھتی ہیں۔ یہی معلومات اُنہیں اس عفریت سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتی رہیں۔ بعض اوقات اُن کی معلومات پر معالجین بھی حیران رہ جاتے۔ اس کے باوجود ڈی سی لاہور کو ان کے عہدے سے ہٹایا جانا ‘اچنبھے کا باعث بنا ۔ وہ بھی اِس صورت میں جب بیوروکریسی پہلے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی ہوئی ہے۔اس میں یہ احساس مضبوط تر ہوتا جارہا ہے کہ کوئی کام کرکے پھنسنے سے بہتر ہے کہ کام ہی نہ کیا جائے۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر بیوروکریسی کی یہ سوچ بن چکی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انتظامی مشینری سست تر ہوچکی ہے‘ جس کے اثرات حکومت بھی محسوس کررہی ہے۔انہیں اثرات کا نتیجہ ہے کہ وہ کام بھی ویسے کے ویسے ہی پڑے ہیں ‘جو تقریباً تکمیل کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اورنج لائن ٹرین منصوبے کی دی جاسکتی ہے۔ سابقہ حکومت کے رختِ سفر باندھنے تک اس منصوبے کا تقریباً 90فیصد کام مکمل ہوچکا تھا ۔ اس کے باوجود یہ منصوبہ وہیں کا وہیں ہے ‘جہاں جانے والی حکومت اسے چھوڑ کر گئی تھی۔افسوس کی بات تو یہ بھی کہ اس کی تکمیل کے ابھی تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے‘ اُلٹا اس کی لاگت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے ۔
کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا ‘جو یہ کہتا ہو کہ کرپشن کرنے اور اپنے فرائض سے غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے‘ ضرور ہونی چاہیے‘ لیکن اس کے ساتھ اُن کی تحسین بھی کی جانی چاہیے ‘جو اچھا کام کرتے ہیں۔بات اگر صرف ڈینگی کے حوالے سے ہی کر لی جائے ‘تو پھر سے اس وباء کے پھیلاؤ میں شدت پیدا ہوجانے سے بہت سے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ سب جانتے تھے کہ مون سون کا سیزن ختم ہونے کے بعد جب موسم دوبارہ گرم ہوجاتا ہے تو یہ گرم مرطوب موسم ڈینگی کو پھیلنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں مون سون کے دوران ہی انسدادِ ڈینگی ٹیموں کو میدان میں اُتار دیا جاتا تھا۔ اس مرتبہ یہ پریکٹس دیکھنے میں نہیں آئی اور نتیجتاً ڈینگی کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ایسے میں یہ سوچ بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر 2011ء میں بھی یہی حکومت ہوتی تو کیا ہوتا؟یہ سوچ ہی لرزہ طاری کردیتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اب خود بھی انسدادِ ڈینگی مہم کا حصہ تو بنے ہیں ۔ اُنہوں نے مختلف شہروں کے دورے بھی کیے ہیں ‘لیکن ظاہر ہے کہ ہر جگہ وہ خود نہیں پہنچ سکتے۔ کام اُنہوں نے بہرحال مختلف شہروں کی انتظامی مشینری سے ہی لینا ہے ۔ کم از کم ڈینگی کے حوالے سے وہ مشینری کو اُس طرح سے متحرک نہیں کرپائے‘ جس طرح سے شہباز شریف نے یہ کام کیا تھا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی قرار دی جاسکتی ہے کہ شہباز شریف مضبوط وزیراعلیٰ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بیوروکریسی اُن کے احکامات کو نظرانداز کرنے کی ہمت ہی نہیں کرسکتی تھی۔اب‘ پنجاب کے حوالے سے یہ تاثر مضبوط تر ہوچکا کہ یہاں مختلف پاورپاکٹس وجود میں آچکی ہیں ۔ یہ کنفیوژن پیدا ہوچکی کہ کس کا حکم مانا جائے کس کا نہیں؟حالات تو اِس نہج پر بھی پہنچ چکے کہ اچانک ہی کہیں نہ کہیں سے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے چل چلاؤ کی خبریں آنا شروع ہوجاتی ہیں‘ جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کو اُن کے دفاع میں سامنے آنا پڑتا ہے۔
یہی وہ حالات ہیں‘ جن کے باعث حل ہوچکے مسائل بھی سراُٹھا رہے ہیں ۔بات صرف افسران کی معطلیوں سے بننے والی نہیں ۔ اس کے لیے انتظامی سطح سے اوپر‘ حکومتی سطح پر بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ایک کو بچانے کے لیے دوسرے کی قربانی سے گریز کی روش اپنانا ہوگا۔ کام نہ کرنے والوںسے شوق سے جواب طلبی کریں‘ لیکن اچھا کام کرنے والوں کی تحسین کا رویہ بھی اپنائیں ۔چاہے‘ وہ سابق وزیراعلیٰ ہوں یا سابق ڈپٹی کمشنر۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved