وہ گلیاں‘ محلے ‘ بازار اور کھلے میدان ‘جہاں ہم اپنی آنکھیں کھولتے اور بچپن گزارتے ہیں‘ لیکن بعد ازاں فارغ التحصیل ہو کر ایک دن تلاش ِمعاش یا کسی بھی دوسری وجہ سے کہیں بھی جا کربس جائیں ‘ ہمیںاپنی جنم بھومی کے خدو خال کبھی بھی نہیں بھولتے‘ اس کے انمٹ نقوش ہر دم یاد آتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک چھوٹے سے قصبے کھڈیاں خاص سے میرا تعلق ہے‘ جو آج کل پھیل کر ایک تجا رتی شہر کی شکل اختیار کر چکا‘ لیکن اس کی سڑکیں‘ گلیاں‘ بازار دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ ستر کی دہائی کے بعد شاید کسی حاکم ِ وقت کا یہاں سے کبھی گزر ہی نہیں ہوا ۔
ضلع قصورر کا یہ تجارتی قصبہ ‘ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مارکیٹیں‘ دکانیں ‘ سکولز‘ پرائیویٹ ہسپتالز‘ میڈیکل سٹورز اور چھوٹی چھوٹی زرعی ورکشاپس ہیں ‘گزشتہ کئی ماہ سے بجلی کے بد ترین بحران کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کیلئے دو دن سوموار اور ہفتہ تو ایسے مقرر ہیں کہ صبح9 بجے سے شام4 بجے تک بجلی کی سپلائی قصبے کیلئے معطل کر دی جاتی ہے‘ جس کے متعلق متعلقہ حکام آج تک کوئی خاص وجہ بتانے سے انکاری ہیں۔ لیسکو کے ہر چھوٹے بڑے افسر سے ادب سے کئی کئی بار پوچھ چکے کہ جناب! اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھئے ‘دفتر کی بھیڑ یا شکایات لے کر آنے والے عوام کے ہجوم سے ہٹ کر کبھی اکیلے میں نماز پڑھنے سے پہلے یا بعد میں خود سے سوال کیجئے کہ ہم اپنے فرائض کس طرح ادا کر رہے ہیں؟
کتنی شرم کی بات ہے کہ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے عوام کو کس قدر تکلیف پہنچتی ہے۔چھوڑ دیجئے کہ کوئی بیمار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی بھول جایئے کہ کسی کو ایسی تکلیف بھی ہوسکتی ہے ‘جو حبس اور گرمی سے دو چند ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ایک طرف رکھ دیں کہ کسی بھی دکان اور میڈیکل سٹور کی بجلی‘ اگر سات سات گھنٹے مسلسل بند رہے گی‘ تو ان کے اندر موجود ادویات حبس اور گرمی کی شدت سے مریضو ں کی شفا کیلئے کیا اثرات چھوڑیں گی؟ ان سات گھنٹوں میں دکانداروں اور وہاں کام کرنے والے ملازمین کی روزی روٹی کا سلسلہ بند ہونے سے ان کے گھر والوں کو کن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا؟ یہ سب چھوڑ دیجئے‘بس صرف اتنا بتائیں کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے اور کس کے حکم اور اشارے پر کیا جا رہا ہے؟بات ‘اگر ہفتے میں ان دو دنوں کی بجلی کی معطلی کی ہوتی تو شاید اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر برداشت کر لیا جاتا ‘لیکن ان دو مخصوص دنوں کے علا وہ وقفے وقفے سے چودہ چودہ گھنٹے بجلی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہو تا۔ یہ کوئی لفاظی یا اپنے مضمون میں کشش یا توجہ حاصل کرنے کیلئے قصہ گوئی نہیں‘ بلکہ یہ وہ کڑواسچ ہے‘ جو میں اپنے کالم کے توسط سے وزیر توانائی عمر ایوب خان اور لیسکو چیف کے نوٹس میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو آج جو تھوری بہت اور سستی بجلی دستیاب ہے‘ وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے صدر ایوب خان مر حوم و مغفور کی وجہ سے ہے۔ وہ تربیلا ڈیم‘ منگلا ڈیم‘ وارسک ڈیم‘ جبن پاور ہائوس‘ درگئی پاور ہائوس‘ نندی پور پاور ہائوس‘ رسول پاور ہائوس‘ چیچو کی ملیاں اور گدو جیسے بجلی کے منصوبے مکمل نہ کرتے تو آج اس ملک اور قوم کا نہ جانے کیا حال ہوتا۔ کاش! انہوں نے کالا باغ ڈیم کا جو منصوبہ شروع کیا تھا‘ ان کو مکمل کرنے دیا جاتا اور ان کو نکالنے کے بعد کسی ایک بھی حاکم نے ہی اسے مکمل کر دیاہوتا‘ تو آج کسی بھی شہر اور قصبے کو نہ تو بجلی کی کمی کا سامنا تھا اور نہ ہی بجلی کے زیا دہ بلوں کیلئے آئی پی پی پیز کا روگ لگنا تھا۔ آج جب انہی صدر ایوب خان کا پوتا ملک کو بجلی سپلائی کرنے کا وزیر ہے ‘تو نظریں اور امیدیں کیوں نہ ان کی طرف اٹھتے ہوئے اپیل کریں کہ جناب کچھ تو کیجئے! اگر زیا دہ نہیں تو اتنا ہی کر دیجئے کہ میڈیکل سٹوروں میں رکھی ہوئی ادویات حبس اور گرمی سے اپنی تھوری سی افادیت ہی قائم رکھ لیں۔ دکانوںاور ورکشاپوں پر محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ اتنا سا کام کر لیںکہ دو وقت کی روزی روٹی کا بندو بست کر لیں۔ کچھ تو کیجئے جناب ! اب تو یہ حالت ہو چکی کہ ہوٹلوں اور بیکریوں میں رکھی گئی کھانے پینے کی اشیاء آئے روز بجلی کی لگاتار بندش سے اکثر گل سٹر جاتی ہیں۔
کھڈیاں خاص ‘جہاں دس سال مسلم لیگ نون کا اقتدار رہا ‘ وہاں ہر جانب ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر لگتا کہ شاید کسی ہڑپہ یا موہنجو ڈارو کی طرف نکل آیا ہوں۔ جیسے ہی بارش ہوئی‘ نہ کہیں آنے کا راستہ‘نہ جانے کا ۔کوئی ایک سڑک بھی ٹھیک نہیں ۔نہ جانے وہ پنجاب کدھر ہے ؟جس کی ترقی اور خوش حالی کا میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ نواز ڈھنڈورا پیٹتی چلی آ رہی ہے ۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز پر جب سندھ کے تھر اور کراچی حیدر آباد کی گندگی کی تصویریں اور خبریں سننے کا اتفاق ہوتا ہے تو کئی دفعہ دل چاہا کہ انہیں بتائوں کہ تھر کیلئے اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے ؟لاہور سے 80 کلو میٹر کے فاصلے پر اس قصبہ کھڈیاں خاص میں چلے آئو ‘جہاں ہر طرف آپ کو گرد اُڑتی نظر آئے گی‘ جہاں آپ کو بجلی کے بڑے بڑے پول اور لمبی لمبی ایک دوسرے سے گتھم گتھا تاریں تو دکھائی دیں گی ‘لیکن ان میں بجلی کی ہلکی سی رمق بھی نظر نہیں آئے گی ‘ اگر اسے مذاق یا زیب داستان کیلئے نہ لیا جائے ‘تو بچے تو اب ان تاروں پر جھولے لیتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے بچپن اور لڑکپن میں ہائی سکول کے بالکل ساتھ ایک سول ہسپتال ہوا کرتا تھا‘ جہاں1975 ء تک ایل ایس ایم ایف ڈاکٹر اور کچھ دوسرا پیرا میڈیکل سٹاف ہوتا تھا۔ گو کہ اس وقت آبادی بھی آج کی نسبت بہت ہی کم تھی ‘لیکن ہر کسی کو علاج کی سہولت میسر تھی اور اس میں دس بستروںکا ایک وارڈ اور دو پرائیویٹ کمرے ہوا کرتے تھے ‘لیکن اب وہ ہسپتال تو بہت دور کی بات ہے‘ اس کی کوئی ایک اینٹ تک وہاں پڑی دکھائی نہیں دیتی۔ نہ جانے کدھر گیا وہ ہسپتال اور اس کی اینٹیں اور ملبہ وغیرہ۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان اور سردار عثمان بزدار سے گزارش ہے کہ قصور سے بیس کلو میٹر فاصلے پر واقع اس قصبے کی ٹوٹی پھوٹی گلیاں اور سڑکیں ‘ بجلی کی زیادہ نہیں‘ تو منا سب فراہمی اور سابقہ سول ہسپتال کی جگہ پر کم ازکم پانچ منزلہ100 بستروں کا مکمل ہسپتال ‘جس میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کی ایک مکمل ٹیم مہیا کر دیجئے‘ جس سے کھڈیاں خاص سے ملحق اس وقت کم ازکم تین سو سے زائد دیہات اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ تیس کروڑ سے زائد مالیت کی یہ زمین گزشتہ چالیس برسوں سے ضائع ہو رہی ہے ۔
جب نیت نیک ہو‘ ارادے پختہ ہوں‘ کسی بھی ادارے یا حکومت کے دل میں خدمت ِخلق کا جذبہ ہو تو یقین کیجیے کہ اﷲ بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ اس لئے حکومت پنجاب اور لیسکو چیف سمیت وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب سے گزارش ہے کہ بنی نوع انسان کی بھلائی اور آرام کیلئے بجلی کی بہترین فراہمی‘ ٹوٹی پھوٹی گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر سمیت ہسپتال کی صورت میں پیش کی گئی‘ ان گزارشات پر ہمدر دانہ غور کریں‘ کیونکہ یہ آپ پر اس لئے بھی فرض ہو چکا کہ فیصلوں کا اختیار‘ اﷲ نے آپ کو اقتدار کی کرسی کی صورت میں سونپ دیا ہے ‘جسے اس کی امانت کے طور پر آپ استعمال کر رہے ہیں۔