193رکن ممالک کے ساتھ اقوامِ متحدہ کو عالمی تنازعات سلجھانے کا بہترین پلیٹ فارم ہونا چاہیے۔عرب بہار کے نتیجے میں شام میں اٹھنے والی بغاوت کے بعد چھ سال سے ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے ۔ یہی نہیں ‘ مختلف ممالک باغیوں اور القاعدہ سمیت مختلف متحارب گروہوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ روس سے لے کر امریکہ تک‘ ہر طاقتور عالمی طاقت اپنے مخالفین پر بمباری کررہی ہے اور تو اور شام میں بمباری کے لیے جانے والے ایک طیارے کو ترکی نے تباہ کر دیا تھا ‘اسی طرح اقوامِ متحدہ نے عراق میں امریکی حملے کی مخالفت کی تو اُس کی چیخ و پکار کو ذرہ برابر اہمیت بھی امریکہ اور اس کے حلیفوں نے نہیں دی ۔ ان سب چیزوں میں آپ اقوامِ متحدہ کا کردار دیکھیں تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ جو جتنا طاقتور ہے ‘ اتنی ہی اس کی بات اقوام ِ متحدہ میں سنی جاتی ہے ۔ اتنی ہی اس کی شنوائی ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ عالمی طاقتوں کے تابع ہے ‘ ان کے اہداف حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔
آج کی اس ''مہذب‘‘ دنیا میں معیشت‘ ٹیکنالوجی اور دفاعی میدان میں بالادست اقوام کی طرف سے کمزوروں کا استحصال عجیب لگتا ہے ‘لیکن زمانہ ایک ہی کہانی دہراتا چلا جا رہا ہے ۔ طاقتور قبائل حملہ آور ہوتے ‘ مال اسباب لوٹتے اور انسان غلام بنالیے جاتے ۔ قرآنِ کریم یہودیوں کو یاد دلا تاہے ''اور جب ہم نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دی ۔وہ تمہیں عذاب دیتے ‘ بدترین عذاب ۔ تمہاری اولاد کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے ۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی سخت آزمائش تھی ‘‘۔ غلبے کی اسی وحشت نے ذہنی طور پر ایک شاندار انسانی نسل ناپید کر ڈالی کہ وہ آدم خور تھی۔ ایک قبیلہ دوسرے پر غلبہ پاتا تو اس کی تکّہ بوٹی کر ڈالتا۔ شاید وہ23ہزار سال قبل تک یورپ میں آباد نینڈرتھل (Neanderthal) آدمی تھا۔ ہم سے قبل تاریخ کا سب سے کامیاب انسان ! اس کے فاسلز‘ اس کی باقیات ‘ اس کے اوزار ‘ سبھی کچھ مکمل صحت کے ساتھ موجود ہے۔اس کا ڈی این اے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف ایوولوشنری اینتھروپالوجی نے ڈی کوڈ کیا ہے ۔ اس میں یہ انکشاف بھی ہوتاہے کہ ہومو سیپینز اور نی اینڈرتھل کا آمنا سامنا ہوتا رہا ہے ۔
نی اینڈر تھل مین ہومو سیپینز کی نسبت کافی سخت جان تھا۔ وہ شدید سردی میںزندگی گزار سکتا تھا ۔ یہ تھیوری بھی پیش کی جاتی ہے کہ شاید کرّہ ٔ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ ٔ حرارت نے اسے ختم کر ڈالا ۔ وہ انسانون کی نسبت زیادہ چوڑا تھا‘ قد چھوٹا‘ سر ہم سے بڑا ۔ میرے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر یہ کہتے ہیں کہ وہ آدم خور تھا۔ اس کے مختلف قبائل جب ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے تو آدم خوری کا ارتکاب کرتے‘ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ مکمل طور پر نیست و نابود ہو گئے۔ ان کی آبادیوں کے قریب سے جو کنویں ملے ہیں ‘ وہ انسانی ہڈیوں سے بھرے ہوئے تھے ۔ یہ بھی سوچا جاتاہے کہ شاید ماڈرن انسانوں سے آمنا سامنا ہونے کے نتیجے میں ان کی بربادی کا آغاز ہوا۔ ہم قدرے نازک مزاج تھے‘ لیکن ان کی نسبت کہیں زیادہ ذہین ۔ آلات بنانے سمیت مختلف میدانوں میں وہ ہمارا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے ۔
سچ تو یہ ہے کہ ہومو سیپین پرُ امن بقائے باہمی کی اہمیت سمجھ نہ سکے ؛حتیٰ کہ دو عظیم جنگوں میں آٹھ کروڑ آدمی قتل ہوئے ۔ پہلی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز قائم ہوئی تو 15ریاستیں ویٹو کا حق رکھتی تھیں اور ہر ا قدام روک دیا جاتا۔ نومبر 1939ء میں سوویت یونین نے فن لینڈپر حملہ کیا تو اسے لیگ سے نکال دیا گیا‘لیکن سبق یہ تھا کہ ہر طاقتور کھلاڑی کولازماً شریک رکھنا ہوگا۔
اقوامِ متحدہ قائم کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہی سے بچانے کے الفاظ کھوکھلے تھے ۔ جنگ ِ عظیم کی فاتح (اور اقوامِ متحدہ کی بانی) اقوام ‘ روس‘ امریکہ ‘ برطانیہ ‘ چین اور فرانس ایک بار پھر خود کو ویٹو کا اختیار عطا کرتے ہوئے عملاً اس عظیم مقصد سے منحرف تھیں ۔ سلامتی کونسل عالمی امن کی ذمے دار تھی اور ان پانچ مستقل ممبران میں سے کوئی بھی جارح ملک کے خلاف کارروائی کے خلاف ڈٹ جاتا۔ امن کی عالمی خواہش ایک طرف اور پانچ طاقتور ریاستوں کے مفادات دوسری طرف۔وہ سب اپنے زمانے کی عظیم سلطنتیں (Empires) تھیں۔شکست خوردہ ہونے کی وجہ سے جرمنی ا ن میں شمولیت نہ پا سکا ۔گزشتہ دو عشروں سے جاپان ‘ جرمنی‘ برازیل اور انڈیا کا اتحاد سر پٹخ رہا ہے کہ سلامتی کونسل کی مستقل نشستیں ہتھیا سکے اور یہ ان کے حریفوں (بشمول پاکستان ) کے لیے خطرے کی ایک اور گھنٹی ہے ۔
شکست و ریخت کے بعد روس نے پانچ اور چین نے اپنی پوری تاریخ میں چھ مرتبہ ویٹو کیا ؛ البتہ حالیہ برسوں میں دونوں نے شام کے خلاف کارروائی روکنے کے لیے یہ حربہ برتا ہے ۔پچھلی نصف صدی میں 155 میں سے 133مرتبہ کونسل کے تین نیٹو ممبران‘ یعنی امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ حالیہ عشروں میں امریکہ بے دریغ ویٹو کی یہ صلاحیت استعمال کرتا رہا ہے اور بیشتر اسرائیل کی کھال بچانے کے لیے۔یہاں یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے کہ طاقتور یہودی لابی عالمی طاقت کے فیصلوں اور ترجیحات پہ بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ویٹو کی عدم موجودگی (اور کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلہ سازی) سے عالمی امن کی حالت شایداس قدر ابتر نہ ہوتی ۔ حسین اتفاق یہ ہے کہ ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک ہی ایٹمی ریاستیں ہیں۔ کرّہ ٔ ارض پہ بسنے والی چند اقوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اجاڑ نے والی مکروہ چیزیں نصب کریں ۔ کمزور اقوام ایسی کوشش کی صورت میں بدترین معاشی اور دفاعی پابندیوں کا سامنا کریں گی ۔ ایران ایک روشن مثال ہے ‘لیکن نتیجہ انڈیا اور پاکستان کی صور ت میں بھی تو نکل سکتا ہے اور شمالی کوریا جیسا بھی ۔ مارچ 2013ء میں جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے دوران امریکی جنگی طیارے شمالی کوریا میں جا گھسے ۔ جواباً ایٹمی حملے کی دھمکیوں پر بالآخر امریکا کو اس محاذ پر پسپاہوناپڑا۔ ویٹو کا غیر منصفانہ اختیار اور ایٹمی ہتھیار تلف نہ کیے گئے تو عالمی امن کی رتّی برابر ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی اور اس کے لیے اقوامِ متحدہ میں موجود کیڑوں مکوڑوں کو متحد ہو نا ہوگا۔
کشمیر اور فلسطین اقوامِ متحدہ کی بڑی ناکامیاں ہیں ۔ اس کا موقف یہ تھا کہ کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کافیصلہ خود کریں گے ‘لیکن اگلے سو برسوں میں بھی وہ دنیا کی سب سے ڈھیٹ قوم (بھارت )سے اس پر عمل نہ کرا سکے گی ۔ جب ہم اس قابل ہوئے ‘تو آزاد کشمیر کی طرح بزورِ بازو ہی یہ علاقہ آزاد ہوگا۔ تیسری عالمی جنگ ٹالنا ‘اقوامِ متحدہ کی سب سے بڑی کامیابی گنی جاتی ہے اور یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ عالمی لاشعور پر پہلی جنگوں کے زخم اور ایک دوسرے کی بغل میں دبے ایٹمی ہتھیاروںنے سب کو خوفزدہ نہ کر ڈالا ہوتا تو نتیجہ ہم دیکھ لیتے۔ اب بھی خطرہ اسی طرح موجود ہے ۔ اب کی بار جو جنگ ہوگی ‘ وہ آنے والی سب جنگوں کا خاتمہ کر دے گی ۔