عجیب شور ہے ‘جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بال سفید ہو گئے‘ یہ سنتے سنتے کہ پاکستانی لیڈر اقوام متحدہ کے فورم پر کشمیر جیت چکا۔ آج کل یہ کام وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں‘ مگر جوشیلے نوجوانوں کو یاد دلا دوں کہ وزیر اعظم عمران خان کے چاہنے والے ان کی انگلش پر قربان جائیں ‘ یہ ان کا حق ہے‘ مگر بے نظیر کی انگلش کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ زبان تو پرویز مشرف بھی خوب بولتے تھے ‘مگر کہا کیا جا رہا ہے‘ اس پر تو غور کر لیں۔ کشمیر میں بھارت کے مظالم بے نقاب ہو گئے؟ دنیا کو بتا دیا گیا کہ اسلام کے بارے میں ہم حساس ہیں؟ دنیا کو ہم با خبر کر دیں گے؟ دنیا بھارت پر دباؤ ڈال کر کشمیر کو آزاد کروا دے؟ یہ سب باتیں اپنی حقیقت میں کیا ہیں؟کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ دراصل ہم پچاس سال پرانی ایک ہی تقریر دہرائے چلے جا رہے ہیں‘ پڑھنے والا کوئی بھی ہو!!
اس کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں‘ یعنی جو جنگ ہم نہیں لڑ سکتے و‘ہ دنیا ہمارے لئے لڑے اور ملنے والا تحفہ ہمارے حوالے کر دے۔ بھارت ظلم کرتا ہے اور ہم بے بس ہیں ‘لہٰذا آپ اس کو روکیں‘ لطف یہ ہے کہ اس ظلم کی فریاد ہم امریکہ نامی مسیحا سے کرتے ہیں‘ جو نہ ظلم کرتا ہے ‘نہ ہونے دیتا ہے‘ کیا ایسا ہی ہے؟ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بھارت کے ظلم کو بے نقاب کر دیا‘ تو کیا آپ سنجیدگی سے سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا کیلئے نئی خبر ہے‘ جو وہ پہلے نہیں جانتی؟ جب ہم اپنے مذہبی حوالوں سے دنیا کو باخبر کرتے ہیں تو کیا سنجیدگی سے یہ ہی سمجھتے ہیں کہ اس سے قبل دنیا مذہب کی حساسیت سے بے خبر تھی یا اب ہے؟ یہ ملاقاتوں میں دنیا کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرتے ہوئے کیا ہم کوئی نئی بات بتاتے ہیں؟ کیا وہاں کوئی نہیں جانتا کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ اسی اقوام متحدہ میں کیا فلسطین‘ عراق‘ لیبیا‘ ایران کا کوئی نمائندہ کبھی نہیں رہا؟ کیا ان کی تقریر کا اس لئے کوئی فائدہ نہ ہوا کہ وہ انگلش برُی بولتے رہے؟ ہم دنیا کو آخر بتانا کیا چاہتے ہیں؟ ہم غریب ہیں ‘ہماری مدد کریں۔ یاد رہے آج کے زمانے میں غربت کا اعتراف در اصل جہالت کا اعتراف ہے۔ سو‘ ہماری مددکریں‘ مگر خبردار کہ ہم غیرت مند بھی بہت ہیں۔ ہم نیو کلیئر ریاست ہیں‘ کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا‘ مگر یہ کشمیر میں ذرا سی جنگ تو ہمارے لئے آپ لڑ لیں‘ اور پھر اسے ہمارے حوالے کر دیں‘ بس اتنا سا ہی تو خواب ہے‘ چھوٹی سی فرمائش‘ اگر دنیا وہ بھی پوری نہ کرے تو ظالم ہے ناں؟
یہ عالمی ضمیر نامی شئے آخر ہے کیا؟ محض خبر کو چسکا دینے کی ایک ترکیب اور بس۔ اس خبر کا اصل مطلب ہے کہ ہم سے کچھ نہیں ہوا۔ ہم باتیں کر آئے اور اب آئیں اور باتیں کریں۔ یہ فلک شگاف نعرے مطلب سڑکوں پر انسانی گلوں سے نکلی چیخوں سے آسمان میں سوراخ کردینے کو سچ ماننے والی ہماری قوم شکوہ کرتی ہے کہ دنیا اس کی عزت کیوں نہیں کرتی؟ ہم اسلامی دنیا کی سب سے طاقتور فوج رکھتے ہیں‘ مگر کیا کریں کہ قوم کسی قابل نہیں ‘لہٰذا دنیا بھارت کا ہاتھ روکے۔ مدد چاہتے ہیں‘ لیکن خبردار کہ ہماری غیرت پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ ہمارے کرپٹ لیڈر جیل میں ہیں اور ہم کیا کریں؟ آگے جو کرنا چاہیے‘ وہ دنیا کو کرنا چاہیے‘ جو وہ اگر نہیں کرتی تو ہمارے خلاف سازش کی مرتکب ہوتی ہے۔ یہ لب لباب ہے‘ ہمارے انداز ِفکر کا اور توقع ہے کہ دنیا میں ایک تن تنہا وزیر اعظم عمران خان ہماری عزت بحال کروا دے گا۔ ایسے ایک سو وزیر اعظم مل کر اگلے ہزار سال تک ہماری عزت نہیں کروا سکتے کہ یہ مانگنے سے‘ بھیک سے‘ دھمکی سے یا امداد میں نہیں ملا کرتی۔ اس کے لئے کام کرنا پڑتا ہے‘ پسینہ اور لہو بہانا پڑتا ہے۔ آزادیاں دینی ہوتی ہیں‘ انصاف کاماحول‘ قانون کی برابری سب کیلئے لانی ہوتی ہے‘ میرٹ کا نظام نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مقامی حکومتیں قائم کر کے انہیں اختیار دینا ہوتا ہے‘ اپنے لوگوں کو عزت دینا پڑتی ہے‘ قوم کے انتخاب کا احترام کرنا پڑتا ہے‘ احترام کا مطلب یہ کہ انہیں فیصلوں کی طاقت دینا ہوتی ہے۔
کوئی ایک ایسا قدم اٹھانے کو ہم تیار نہیں‘ مگر دنیا سے عزت مانگتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ میں کرایے کے گھر میں رہتا ہوں ‘اپنے بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ادھار تنخواہ پر ملازم رکھوں‘ اسے مہینوں تنخواہ نہ دوں اور توقع رکھوں کہ میرا ملازم میرے بچوں کا مجھ سے زیادہ خیال بھی رکھے۔ اور دوسری طرف مالک مکان کی کرایہ مانگنے کی جرأت بھی نہ ہو۔ ہم کس دنیا میں رہتے ہیں؟ بھیک یا امداد آپ دے بھی دیں تو کس کو؟ کسی مظلوم کو یا کسی شور مچاتے جوان شخص کو جو امداد مانگ کر گالی دیتا ہو اور وقت پڑنے پر گولی چلانے کی بجائے بندوق کی صفائی شروع کر دیتا ہو۔ یہ سادہ الفاظ میں جھوٹ ہے‘ لاہور کی زبان میں رنگ بازی ہے اور کچھ نہیں‘ اگر واقعی وزیر اعظم عمران خان لیڈر شپ دکھانا چاہتے ہیں‘ تو آگے بڑھیں‘ پچاس سال پرانی تقریر پھاڑ کر پھینک دیں اور نئی بات کریں۔ کچھ ایسا کہے‘ جو قابل عمل ہو اور کشمیری عوام کو ریلیف مل سکے۔ آگے جانے کا راستہ دکھانے والا لیڈر ہوتا ہے‘ موت کے کنوئیں میں گول دائرے میں موٹر سائیکل تو سب ہی شعبدہ باز چلا لیا کرتے ہیں۔