تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     27-09-2019

ڈیل، دھرنا اور مولانا

امریکہ کا شہر نیویارک ان دنوں عالمی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عالمی راہنمائوں نے وہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جلوت اور خلوت میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دوستوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے دشمن ممالک بھی ایک ہی چھت تلے موجود ہیں۔ جارحیت پسند ممالک ندامت کے احساس سے عاری نظر آتے ہیں اور تنازعات ختم کرنے کی بجائے اپنے جارحانہ اقدامات کو درست قرار دلانے کیلئے جوڑتوڑ میں مصروف ہیں۔ امریکی صدر میڈیا کے سامنے کچھ جبکہ بند کمروں میں کچھ اور کہتے نظرآرہے ہیں۔ ایران کے سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ تنازعات اور چین امریکہ سرد جنگ موضوعاتِ سخن ہیں۔ چین کے وزیر خارجہ، ترک صدر طیب اردوان، ایرانی صدر، ملائیشیا کے سربراہ مہاتیر محمد، سعودی وزیر خارجہ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائن میٹنگز میں خاصے متحرک نظر آتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی ٹیم‘ سب مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے ہر وہ دروازہ کھٹکٹھا رہے ہیں‘ جہاں سے انہیں ذرہ برابر بھی امید ہے کہ توجہ دی جائے گی۔ دنیا بھر کی قیادتوں کو مقبوضہ کشمیر میں جاری نسل کشی، ظلم و ستم اور اسی لاکھ کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کرنے کے بارے میں نہ صرف آگاہ کر رہے ہیں بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے ان سے مداخلت کی بھیک بھی مانگ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ سمیت مسلم و غیر مسلم عالمی راہنمائوں سے ملاقاتوں کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے جو نچوڑ بیان کیا وہ کافی تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بڑی مایوسی ہوئی‘ سب راہنمائوں نے ان کی بات سنی اور مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی صورتحال سے اتفاق کیا‘ لیکن بد قسمتی سے کوئی بھی راہنما ان مظالم کے خلاف کھلے عام آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ عمران خان نے عالمی ضمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا اسّی لاکھ کشمیریوں کی جگہ، آٹھ لاکھ یورپی،آٹھ لاکھ یہودی یا صرف آٹھ امریکی ہی اس طرح اپنے گھروں میں قید ہوتے جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان ہیں؟ تو کیا عالمی طاقتوں کا یہی رویہ ہوتا؟ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ون آن ون ملاقات میں جو بھاشن عمران خان صاحب کو دیا گیا اس سے بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں حالیہ اقدامات میں امریکہ بھی آن بورڈ تھا کیونکہ پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی نے جو کرنا تھا کر دیا‘ اب آگے بڑھیں اور پاکستان یکطرفہ طور پر بھارت کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کرے‘ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ نریندر مودی کے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود پاکستان بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگے۔ ایسا کرنا یقیناً پاکستان کیلئے مشکل ہی نہیں‘ ناممکن بھی ہے اور ایسا کرنے والوں کی سیاسی موت پاکستانی عوام کے ہاتھوں ازخود ہو جائے گی‘ اس کیلئے اپوزیشن کو کچھ زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ عمران خان صاحب نے اس نوعیت کے دبائو کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ وطن واپس پہنچ کر کشمیر پالیسی کس طرح سے مرتب کرتے ہیں۔ اس ضمن میں عسکری قیادت کی سوچ انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور عالمی راہنمائوں سے وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے نتیجے میں فوری طور پر تو شاید مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو کوئی ریلیف نہ مل سکے‘ لیکن عالمی راہنمائوں سے ان کی یہ ملاقاتیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ عمران خان کو عالمی سیاست کے دائو پیچ سیکھنے اور سپر طاقتوں کی سوچ کو سمجھنے کا موقع ضرور ملا۔ ساتھ ہی ساتھ عمران خان کو یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ ریاستوں کے سربراہ معاملات کو اس طرح سے نہیں دیکھتے جیسا کہ وہ (عمران خان) سمجھتے ہیں۔ عالمی سیاست میں ریاستیں صرف اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور ان میں جذبات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترک صدر وہ واحد سربراہ تھے‘ جنہوں نے کشمیر کیلئے آواز بلند کی اور ببانگ دہل پاکستان کے موقف کی حمایت کی جبکہ ایران کے صدر نے تمام تنازعات کا ذکر کیا لیکن کشمیر کا معاملہ ان کی زبان پر نہ آ سکا۔
نیویارک کی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی بھی ان دنوں کافی متحرک ہیں۔ نیویارک میں ہونے والی سرگرمیاں‘ خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا حکومت سے باہر‘ نظر آرہی ہیں اور انہیں میڈیا رپورٹ بھی کر رہا ہے لیکن اسلام آباد‘ راولپنڈی اور لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے ان کا عشرِ عشیر بھی منظر عام پر نہیں آ رہا۔ کوٹ لکھپت جیل اور اڈیالہ جیل میں سیاسی مکینوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن دھرنے کے وقوع پذیر ہونے کی نوید سنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مولانا کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ مولانا، زرداری اور شریف فیملی الگ الگ مقتدر حلقوں سے رابطے میں ہیں لیکن تینوں ایک دوسرے کو ان رابطوں کی حقیقت اور نوعیت کے بارے میں بتانے کے لیے تیار نہیں۔ مولانا اکیلے آتے ہیں تو ان کا حشر طاہرالقادری والا ہو گا۔ مسلم لیگ نون‘ پیپلز پارٹی اور جماعت یکسو نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یقیناً وہ متوقع ڈیل ہے جس کے خدوخال ابھی واضح ہونا باقی ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ سیاست کے قرطاس ابیض پر اب کچھ تحریر کیا جا رہا ہے۔ اس تحریر کے مکمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ مولانا کو دھرنے کی بہت جلدی ہے لیکن ان کی اپنی جماعت خاص طور پر جے یو آئی بلوچستان مولانا کی سوچ سے کافی فاصلے پر نظر آتی ہے۔ مولانا کی جماعت کو بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی مخلوط حکومت میں شمولیت کی دعوت دے چکی ہے اور اس کے لیے بلوچستان جے یو آئی (ف) راضی بھی نظر آتی ہے لیکن مولانا کچھ ایسا چاہتے ہیں جس میں ذاتی طور پر ان کی شخصیت نمایاں نظر آئے۔ خواجہ محمد آصف، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی مذاکرات کاروں میں شامل ہیں جبکہ غیر سیاسی شخصیات بھی ڈیل کروانے کیلئے اکھاڑے میں اتر چکی ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والی خفیہ ملاقاتیں سی سی ٹی وی کے کیمروں میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے خوبصورت مناظر کے سائے میں ہونے والی ایک نشست میں اس بات پر خاص طور پر زور دیا گیا کہ پاکستان کے داخلی اور خارجی امور اور معیشت کی صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ملک میں اب سیاسی استحکام ہونا چاہیے‘ احتساب سمیت تمام امور متعلقہ اداروں پر چھوڑ دیئے جائیں اور ایسے اقدامات کیے جائیں‘ جن سے سیاسی ماحول میں پیدا ہو چکی تلخی کا خاتمہ ہو۔ شریف فیملی کی طرح زرداری فیملی بھی اپنے معاملات طے کرنے کی جانب آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ زرداری صاحب شریف فیملی کے برعکس اپنے اہداف کے سلسلے میں زیادہ کلیئر نظر آتے ہیں کیونکہ وہ اپنی سیاسی میراث بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ وہ وجوہ ہیں جن کے باعث تاحال دھرنے کی تاریخ کا تعین نہیں ہو پا رہا اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا رویہ بالکل اس نوعیت کا ہے کہ کسی خاندان کے پاس اپنی لڑکی یا لڑکے کے ایک سے زیادہ رشتے آ جائیں اور وہ کسی ایک رشتے کو فائنل کرنے کے بارے میں گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوں‘ اور کسی بھی خاندان کو منگنی کی حتمی تاریخ نہ دے رہے ہوں۔ بار بار رابطہ کرنے پر خاندان والے جواب دیں کہ ابھی ہم سوچ رہے ہیں‘ بس فلاں فلاں رشتے دار آ جائے۔ کبھی نانا نانی اور کبھی دادا دادی سے مشاورت کا بہانہ کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ خوب سے خوب تر کی تلاش و انتظار میں ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مولانا سے کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن دھرنے کو نومبر تک جبکہ پیپلز پارٹی دسمبر تک آگے لے جانا چاہتی ہے۔ اسلام آباد میں موسم کے اعتبار سے اکتوبر دھرنے کے لیے بہترین وقت ہے۔ نومبر اور دسمبر میں وفاقی دارالحکومت کی یخ بستہ ایک رات بھی کھلے آسمان تلے گزارنا محال ہی نہیں ناممکن ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دراصل ایک '''اچھے رشتے‘‘ کے انتظار میں ہیں‘ جس کے ہونے کی انہیں قوی امید ہے۔ جیسے ہی ''ہاں‘‘ ہو جائے گی‘ وہ مولانا کو ''ناں‘‘کر دیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved