گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے آشوب کے باعث خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کی قوت ِکار میں کمی آئی اور صاحب ِاختیار افسران نے قومی امانتوں کے تحفظ کی ذمہ داری کو پس ِپشت ڈال کے مصلحت اوربزدلی کو شعار بنا لیا‘جس کے نتیجہ میں اعلیٰ ترین لیول سے لیکر نچلی سطح کے سرکاری دفاتر کے مستقل اثاثے اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا رجحان بڑھتاگیا۔آج کل صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ذیشان سرکاری افسران مظلوموںکے دکھوں کے ازالہ اورشہریوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے وقت گزاری کو عقلمندی سمجھتے ہیں اور قیمتی وقت اوراپنی غیر معمولی صلاحیتوں کوفقط جائز و ناجائز مراعات کے حصول اوراختیارات میں اضافہ لینے تک کربیٹھے محدودہیں‘یعنی باڑکھیت کو کھانے لگی ہے‘اسی خطرناک رجحان نے ایک طرف گورنمنٹ دفاتر کی داخلی تنظیم کو پراگندہ کر کے جوابدہی کے میکانزم کو بیکار بنا دیا‘دوسری جانب سرکاری اداروں کے معاشی نظم و ضبط کو برباد کرکے ذہنی و مادی ترقی کے عمل کو بریک لگا دی ہے۔
کنفیوشس نے کہا تھا ''اگر ریاست بدنظمی کا شکار ہو‘تو موزوں کام اس کی اصلاح کرنے کی بجائے اپنی زندگی کو فرض کی باقاعدہ ادائیگی والا بنا لیجئے‘‘۔لیکن ہماری تقدیر کے مالک نیک نیتی اور دیانتداری سے اپنا فرض نبھانے کے برعکس ‘اس ہمہ گیر زوال کو روکنے کی آڑ میں اصلاحات کے نام پہ نت نئے قواعد وضوابط کی تشکیل و نفاذکے ذریعے فیصلہ سازی کے عمل کو زیادہ پیچیدہ بنا کر سروس ڈیلیوری کو بتدریج سست بناتے رہے‘جس سے ذہنی جمود بڑھا اور سرکاری وسائل کے زیاںکا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔بے عملی کے نحوست اور فیصلہ سازی کے اسی بحران کا سب زیادہ اثر سابق فاٹا کے علاقوں پہ پڑا‘ جہاں پچھلی دو دہائیوں میںانتظامی نوعیت کی شعوری غلطیوں اور بدعنوانی کی یبوست اربوں روپے کے وسائل نگل گئی۔
ایک معاصرانگریزی روزنامے نے خبر دی ہے کہ ''سابق فاٹا سیکریٹریٹ کے آرکائیو ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ جون 2002ء سے لیکرجون 2019 ء تک فاٹا میں صحت‘تعلیم اور بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر پہ سالانہ ترقیاتی فنڈ کی مد میں 222.528 ارب روپے خرچ کئے جانے کے باوجود قبائلی عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق‘ مالی سال 2002-3ء میں فاٹا کیلئے مختص اے ڈی پی کا حجم 3.14 بلین تھا‘جوبتدریج بڑھتے ہوئے مالی سال 2019-20ء تک 24 بلین روپے تک جا پہنچا ‘لیکن وہاں اب بھی بنیادی ڈھانچہ مخدوش اور صحت و تعلیم جیسی پرائمری سہولیات ناپید ہیں۔اے ڈی پی کے علاوہ وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی فنڈکے تحت اربوں روپے کے ترقیاتی پراجیکٹ متعارف کرائے ‘جو بدقسمتی سے آہنی الماریوں میں پڑی فائلوں میں گم ہو گئے۔2006ء میں فاٹا سیکریٹریٹ نے124 ارب روپے کی خطیر رقم سے تمام شعبہ ہائے زندگی کی پائیدار ترقی کا دس سالا منصوبہ شروع کیا‘پچھلے تیرہ سال میں 99 ارب روپے خرچ ہو جانے کے باوجود یہ عظیم پراجیکٹ فیل ہو گیا۔نائن الیون کے بعد فاٹا میں بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کیلئے غیر ملکی امدادی اداروں نے بڑے پیمانے کی فنڈنگ بھجوائی‘خاص طور پہ یوایس ایڈ‘ جرمن جی آئی زیڈ‘ نارویجین‘سعودی ترقیاتی فنڈ‘یو اے ای گورنمنٹ فنڈ‘جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی‘یواین اور اس کی شراکت دار ایجنسیوں نے فاٹا میں انفراسٹرکچر کی استواری‘ایجوکیشن‘ہیلتھ اور ایگریکلچرکے شعبوں میں بہتری لانے کی خاطر لامحدود فنڈ دیئے‘صرف یو ایس گورنمنٹ نے فاٹا میں بنیادی ڈھانچہ کی تعمیرکیلئے780 ملین ڈالرز فراہم کئے‘‘۔الغرض اتنے بڑے پیمانے پہ وسائل کی دستیابی کے باوجود ہماری حکمران اشرافیہ‘ سابق فاٹا میں بنیادی ڈھانچہ کھڑا کر سکی‘ نہ تعلیم اور صحت جیسی ابتدائی سہولیات کی فراہمی ممکن بنانے میں کامیاب ہوئی۔حیرت انگیز طور پہ دنیا بھر کے وسائل صرف کرنے کے الرغم آج بھی قبائلی سماج ہمیں پہلے سے بھی زیادہ مفلوک الحال دکھائی دیتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں بھی صورت حال مختلف نہیں ؛آٹھ ارب کے بی آر ٹی منصوبہ کا ٹھیکہ41 ارب میں ایوارڈ ہوا‘ لیکن بدانتظامی اور غیر معمولی تاخیر کی بدولت اس وقت اس کی مجموعی لاگت110 ارب تک جا پہنچی ‘تاہم آج بھی اس عظیم منصوبہ کی جلد تکمیل کے امکانات مفقود نظر آتے ہیں۔2014ء میں اقراء فروغ تعلیم سکیم کے تحت 41000غریب طلبہ کوپڑھنے کی ترغیب دینے کی خاطرگیارہ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کیا گیا‘اس مقصد کے حصول کی خاطرچھ ٹارگٹڈ اضلاع میں 90 سکول بنائے گئے‘ لیکن 2017ء میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو اپنی ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ IFTVS پراجیکٹ کے تحت چلنے والے 90 میں سے 70 سکول گھوسٹ اورکم وبیش اکیس ہزار طلبہ کی جعلی انرولمنٹ کی گئی ہے۔تحقیقات کے بعد نیب نے بدعنوانی کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف 214 ملین روپے کا ریفرنس دائر کیا۔ہماری ذہنی بدیانتی اور کم صلاحیتی کے باعث یہ بہترین منصوبہ بھی بیکار ہو گیا۔45 کروڑ کی لاگت سے آن لائن ایف آئی آر کے اندراج کے پراجیکٹ کی پورے جوش و خروش سے لانچنگ ہوئی‘ لیکن پولیس نے ببانگ دہل اس منصوبہ کومتروک بنا دیا۔
کرپشن کے خاتمہ کیلئے86 کروڑ کی لاگت سے بنائے گئے احتساب کمیشن کو دفن ہوئے مدت بیت گئی کوئی بھی اس پیش دستی کی ناکامی کے اسباب پہ غور کرنے کو تیار نہیں۔خیبر پختونخوا کی‘آئل اینڈ گیس لمیٹڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو لامحدود مراعات کے علاوہ قریباً 50 لاکھ ماہانہ تنخواہ وصول کررہے ہیں‘چار سال میں ان کا آفس کوئی پراگریس نہیں دے سکا۔35 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور6500 میگا وولٹ بجلی پیدا کرنے کی خاطر کروڑوں روپے کی لاگت سے بنایا جانے والا ادارہ'' پیڈو‘‘ وقت کی دھند میں گم ہوگیا۔2015ء میںصوبہ بھر کے ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کی بیوٹیفکیشن کیلئے دس ارب روپے کی لاگت سے اپ لفٹ منصوبہ بنایا گیا۔ابتدائی طور پہ اس منصوبہ کوشفاف بنانے کی خاطر پنجاب کی کنسلٹنٹ فرم کی خدمات حاصل کی گئیں‘جس نے اس پراجیکٹ کی فزیبلیٹی‘پی سی ون‘ڈرائنگ/ ڈیزائننگ تیار کی اور ٹیکنیکل نگرانی کی ذمہ داری لی‘ لیکن حکومت نے چند ماہ بعد ہی باوجوہ اس فرم کو فارغ کرکے دس ارب کا یہ منصوبہ انہی فرسودہ اہلکاروںکے حوالے کر دیا‘جن کی نااہلیت سے بچانے کیلئے پرائیویٹ فرم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
ابھی حال میں ڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی انتظامیہ نے سرکاری چھٹی کے ذریعے صوبائی حکومت سے استدعا کی ہے کہ بروقت فنڈ ریلیز نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں منصوبوں ادھورے پڑے ہیں‘ان میںچارسال قبل کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کی خوبصورتی اور اپ لفٹ منصوبہ کے تحت جاری کاموں کے علاوہ اندرون شہر کی سڑکوں وگلیوں کی تعمیر اور 418 سولر لائٹس کی تنصیب کا کام ٹھپ ہے۔فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث چار برسوں میں شمسی توانائی سے چلنے والی فقط 250 لائٹس کی تنصب ممکن ہو سکی۔علیٰ ہذالقیاس!
سرکاری اتھارٹی کے غلط استعمال اور معاشی بدنظمی کی سنگینی کا انتہا یہ ہے کہ اب صوبہ بھر کی ٹی ایم ایز‘چودہ اگست‘ 23 مارچ‘عیدین‘محرم الحرام اورکرسمس ڈے جیسے متعین قومی ایام پہ سکیورٹی انتظامات پہ اٹھنے والے غیرمحدوداخراجات کے علاوہ نذر ونیاز کی نجی تقریبات‘ میلوں ٹھیلوں‘پولیس کیلئے درجنوںمورچہ بندچیک پوسٹوں کی تعمیر اور ہنگامی جلسے جلوسوں پہ بغیر کسی پیشگی منظوری کے کروڑوں روپے لٹا دیتی ہیں۔