ہم لاعلاج امراض کا ذکر سنتے ہیں اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی جو پکی عادتیں ہوتی ہیں وہ کسی قسم کے علاج سے بھی نہیں بدلتیں‘ اسی طرح کچھ کیفیات بھی ہوتی ہیں جن میں اگر انسان مبتلا ہوجائے تو پھر علاج ندارد۔ جیسے کہ شک۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے کہ اگر یہ کسی ذہن میں گھر کر جائے تو پھر زندگی کے ساتھ ہی نبھتا ہے۔ لاہور میں قائم ذہنی طور پر پسماندہ افراد کی فلاح و بہبود کے ادارے فائونٹین ہائوس کے بانی ڈاکٹر رشید چودھری کے صاحبزادے ڈاکٹر ہارون الرشید اپنے والد کی طرح دماغی امراض کے ماہر تھے۔ کوئی بیس برس پہلے وہ ریڈیو پاکستان لاہور کے ذہنی صحت کے حوالے سے ایک پروگرام میں سامعین کے سوالوں کے جواب دیا کرتے تھے۔ میں لاہور سٹیشن پر پروگرام منیجر تھا لہٰذا جب ڈاکٹر ہارون تشریف لاتے تو ان سے ملاقات ہوتی جس میں بنیادی طور پر سامعین کے وہ خطوط ان کے حوالے کیے جاتے تھے جن میں سوالات ہوتے تھے۔ سامعین کے سوالوں کی روشنی میں ایک روز ڈاکٹر ہارون نے بتایا کہ شک کی ایک معمولی سی شکل تو اکثر عورتوں میں میاں بیوی کے تعلق میںدکھائی دے جاتی ہے مگر ان کے بقول یہ ایک جبلّی جذبے کے تحت ہوتی ہے لہٰذا اس کو بیماری خیال نہیں کیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل شک‘ جو ایک بیماری کی شکل میں موجود ہوتا ہے اس کو پیرانویا(Paranoea) کہا جاتا ہے اور مردوں کی نسبت خواتین زیادہ اس بیماری کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ بیماری خانگی زندگی برباد کر دیتی ہے اور اکثر عورتوں میں میاں بیوی کی علیحدگی پر منتج ہوتی ہے کیونکہ عورت کو ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ اس کا میاں جب بھی اس کی نظروں سے دور ہوتا ہے ،ضرور اس سے بے وفائی کا مرتکب ہورہا ہوتا ہے۔ مرد قسمیں کھا لے۔ قرآن اٹھائے مگر عورت مانتی نہیں۔ ڈاکٹر ہارون کے بقول بعض صورتوں میں عورت کی اپنی ماں اور بہنیں تک اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اس کا شوہر ایسا نہیں ہے مگر وہ عورت اپنی سگی ماں بہنوں کو بھی اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا کوئی دوائی موجود ہے اس بیماری کی‘ ڈاکٹر ہارون کا کہنا تھا کہ دوادویات موجود تو ہیں جس سے اس بیماری کا کسی حد تک علاج ممکن ہے مگر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پیرانویا کا مریض یا مریضہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو مریض سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان ادویات کا کورس کروانا لگ بھگ نہ ممکن ہوتا ہے۔ یہ تو ایک ماہر ڈاکٹر کی رائے تھی لیکن عام زندگی میںآپ کو بھی لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے اور آپ کو یقیناً اچھی طرح معلوم ہوگا کہ شکی طبیعت آدمی کا شک رفع کرنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ شک جیسی ایک اور کیفیت ہوتی ہے جسے خوش فہمی کہتے ہیں۔ اس کی بھی شک کی طرح دو واضح شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک تو عام سی خوش فہمی ہوتی ہے جس میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص گانا گاتا ہے اور اگرچہ سر اور تال سے مکمل طور پر بے نیاز گاتا ہے، مگر سمجھتا ہے کہ پیشہ ور سنگرز کے مقابلے کا گاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی ریکارڈنگ کرکے ان کا گایا ہوا گانا اگر انہی کو سنوایا جائے تو ان کی یہ خوش فہمی کافی حد تک رفع بھی ہوجاتی ہے۔ دوسری شکل خوش فہمی کی بالکل اسی طرح ہوتی ہے جس طرح پیرانویا کی بیماری۔ انسان کو اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی ہوجاتی ہے اور پھر جو کوئی اس کو حقیقت پسندانہ بات سمجھائے اور اس کی خوش فہمی کو رفع کرنے کی کشش کرے اسے اپنا دشمن سمجھتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ حاسد ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ اس کے کسی دشمن نے اس کو اس مشن پر بھیجا ہے۔ اس خوش فہمی کی تازہ مثال ہمارے سابق صدر پرویز مشرف ہیں۔ موصوف کو اپنی مقبولیت کے حوالے سے ایسی خوش فہمی ہے کہ اپنے آپ کو تماشا بنا لیا مگر آج بھی دل چیر کے دیکھیں تو وہی فیس بک اور ٹوئٹر کے پیغامات نکلیں گے جن میں مشرف کو پاکستان کا نجات دہندہ بیان کیا گیا ہوگا۔ یہ لوگ‘ جب محترم مشرف صاحب کراچی پہنچے ،تو کہیں موجود نہ تھے لیکن اب بھی سابق صدر کے دل میں رہتے ہیں۔ کوئی بے روزگار نوجوان جو محض آوارہ پھرتا ہو وہ اگر شادی کرلے تو اردو محاورے میں کہتے ہیں ’’میاں ہاتھ پائوں پر شادی کرلی‘‘ اس صورتحال میں سابق صدر مشرف کو یہ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ’’میاں ہاتھ پائوں پر سیاست کرلی۔‘‘ اب آگے بڑ ھتے ہیں اور اس ضمن میں اب ایک خوش فہمی کا ذکر کرنے لگا ہوں جس سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ خوش فہمی ہمارے مقبول سیاستدان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستانی صرف ان پر اعتماد کرتے ہیں اوراس اعتماد کی بدولت وہ ایک سال میں اتنا پیسہ اکٹھا کرلیں گے کہ قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی اور اسی تناظر میں ان کا یہ بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ ’’مر جائوں گا، امریکہ یا کسی اور ملک سے بھیک نہیں مانگوںگا۔‘‘ یعنی امداد وغیرہ نہیں لیں گے۔ انتخابی مہم تو عمران خان کی زوروں پر چل رہی ہے۔ نتیجہ کسی کو معلوم نہیں لیکن اگر کوئی لہر عمران کے حق میں چلی گئی اور وہ ان انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم بن گئے تو سب سے بڑا چیلنج ہماری معاشی صورتحال ہوگی۔ اس صورتحال کا جو حل ہمیں عمران خان کی تقریروں سے ملتا ہے وہ تو یہی ہے کہ وہ پاکستانیوں سے کہیں گے کہ وہ اس مشکل وقت میں ملک کی مدد کریں۔ بظاہر ان کا زیادہ انحصار بیرونِ ملک پاکستانیوں پر ہے۔ جن سے وہ اپنی ذاتی ساکھ کے بل پر اربوں ڈالر پاکستان لانے کی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی یقیناً کثیر سرمایہ پاکستان بھیجتے ہیں مگر اس کے بارے میں یہ باور کرنا کہ وہ کسی حب الوطنی کے جذبے سے بھیجتے ہیں کوئی حقیقت پسندانہ رائے نہیں ہے۔ یہ تو ان لوگوں کی مجبوری ہے کہ اپنے عزیز رشتے داروں کو یہاں رقم بھجوانی ہوتی ہے۔ اس میں حب الوطنی کہاں سے آگئی۔ بلکہ یہ لوگ سرکاری چینلز سے اگر اربوں ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں تو اب بھی اربوںڈالر ہی ہنڈی وغیرہ کے ذریعے پاکستان بھجواتے ہیں۔ لہٰذا یہ باور کرنا کہ یہ لوگ ڈالروں کے یہاں ڈھیر لگا دیں گے محض ایک خوش فہمی ہے اور اس خوش فہمی سے ہم ملک کو جو اقتصادی چیلنجز درپیش ہیں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ زرمبادلہ کے ہمارے ذخائر انتہائی کم ہوچکے ہیں۔ درآمدات کا بل چالیس سے پینتالیس ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔ ان حالات میں جو وزیراعظم آئے گا اس کے لیے ملک کی حیثیت کو سہارا دینے کی خاطر بہت کم متبادل راستے ہوں گے جن میں کسی طور بھی یہ راستہ شامل نہیں ہوگا کہ اس پر چل کر قرض اتارو ملک سنوارو جیسی مرحوم سکیم کی یاد تازہ ہوجائے۔ ملک میںا گلا وزیراعظم کون ہوگا ،اس ضمن میں پہلا نام میاں نوازشریف کا آرہا ہے۔ موصوف بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں جو بار بار یہ بیان دیتے ہیں کہ کشکول لے کر کسی کے پاس نہیں جائیں گے۔ پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے۔ پائوں پر کھڑا کرنے کی خواہش تو بجا لیکن میاں صاحب کس طرح پاکستان کو اپنے پائوں پرکھڑا کریں گے جبکہ شروع میں کشکول کے بغیر گزارہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دل ڈرتا ہے کہ اس معاملے میں بھی ہمیں میاں صاحب کی کسی خوش فہمی کا سامنا نہ ہوجائے اور خوش فہمیاں مروا دیتی ہیں۔ تازہ مثال پرویز مشرف کی سامنے ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved