تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     29-09-2019

جب ذاتی دُکھ، اجتماعی دُکھ بن جاتا ہے!

آپ بھرا پُرا، سجا سجایا گھر چھوڑ کر جائیں اور واپس آئیں تو تالے ٹوٹے ہوئے ہوں، الماریاں اور دروازے کھلے ہوئے ہوں، ہر طرف چیزیں بکھری ہوئی ہوں، تو پہلا تاثر حیرت اور صدمے کا ہوتا ہے۔ اس اتھل پتھل کا جائزہ لیتے ہوئے جب یہ بات معلوم ہو کہ سبھی قیمتی چیزیں (جو بآسانی اٹھائی جا سکتی تھیں) غائب ہیں، تو صدمے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ 6 سال پہلے میں ایک ماہ میں دو بار اس صدمے سے دوچار ہوا تھا، جب اہلیہ ہسپتال میں تھیں اور ہم (بچوں کے ساتھ) رات کو دیر سے گھر لوٹتے اور اس دوران گھر خالی رہتا۔ وہ جو کہتے ہیں، بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے، تو بڑا غم، چھوٹے غموں پر غالب آ جاتا ہے۔ اہلیہ کے انتقال کے بڑے صدمے نے، ان چھوٹے صدموں کو بھلا دیا تھا۔
لیکن ابھی تین دن پہلے میں جس ''تجربے‘‘ سے گزرا، اس کی نوعیت مختلف تھی، اس میں حیرت اور صدمے کے ساتھ خوف اور دہشت بھی شامل تھے۔
سونے سے پہلے رات بارہ بجے کی ہیڈ لائنز سننا میرا دیرینہ معمول ہے۔ ہیڈ لائنز غیر معمولی ہوں، تو ان کی تفصیل جاننے کے لیے نیند خود ہی اُڑ جاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی امریکہ میں مصروفیات کے علاوہ اس سہ پہر آزاد کشمیر میں زلزلہ، بڑی خبریں تھیں۔ میں سوتے جاگتے لمحات میں تھا کہ یوں لگا، نقاب پوش مسلح افراد میرے بیڈ کا گھیرائو کیے ہوئے ہیں۔ ایک لمحے کو یہ خواب سا محسوس ہوا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے ہوش ٹھکانے آئے تو میں نے دیکھا، یہ سات افراد تھے، چار کے پاس پستول تھے، دو کے پاس آئرن راڈ اور ایک کے پاس لاٹھی تھی۔ میں نے ذرا سختی سے باز پرس کرنے کی کوشش کی تو ایک نے پستول تان لیا اور دوسرے نے آئرن راڈ اٹھاتے ہوئے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ تب ایک نے میرے ہاتھ (کمر کے پیچھے) باندھ دیئے، دوسرے نے ٹانگیں باندھ دیں اور اکڑوں بٹھا کر چادر ڈال دی۔ اور کمرے کی ایک ایک چیز الٹنے پلٹنے لگے۔ الماریاں اور درازیں ٹٹولنے لگے۔ موبائل فون آتے ہی قابو کر لیا تھا۔ پرس میں جو رقم تھی وہ بھی نکال لی اور پوچھتے رہے: باقی پیسے کہاں ہیں؟ زیور کہاں ہے؟ ایک نے کہا، تم اتنا عرصہ باہر رہ کر آئے ہو، اتنا اچھا گھر بنایا ہے، تمہارے پاس تو بہت پیسے ہوں گے۔ میں نے سہمے ہوئے لہجے میں بتایا کہ مجھے تو واپس آئے، دس سال ہو گئے ہیں۔
اگلے لمحات قیامت کے تھے، جب ان میں سے ایک میرے سر پر موجود رہا اور چھ نے اوپری منزل کا رخ کیا، جہاں میرے بچے تھے۔ دو نے کاشف کی مُشکیں کس دیں، ایک نے آصف کو خوف زدہ کرنے کے لیے پستول تان لیا، تو میمونہ یہ کہتے ہوئے آصف اور کاشف کے ساتھ لپٹ گئی کہ میرے بھائیوں کو مت مارو، اس پر ان میں سے ایک نے کہا: ہم ڈاکو ہیں، بے غیرت نہیں۔ تم ہماری بھی بہن ہو۔ بس آپ لوگ ہمارے ساتھ تعاون کرو، اور پیسے اور رقم وغیرہ جہاں چھپائے ہیں، ہمارے حوالے کر دو۔ انہوں نے یہاں بھی ایک ایک چیز الٹ پلٹ دی، وہ بار بار ایک ہی بات کہہ رہے تھے: خفیہ خانہ کہاں ہے؟ بچے بار بار ایک ہی سوال کر رہے تھے کہ ہمارے ابو کہاں ہیں؟ اور کس حال میں ہیں؟
ادھر نیچے اپنے کمرے میں میری جان پر بنی ہوئی تھی۔ میں بچوں کے لیے خیریت کی دعائوں کے ساتھ، دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھ رہا تھا اور پھر قدرے سکون ہوا جب وہ بچوں کو لے کر میرے کمرے میں چلے آئے اور میرے ساتھ بٹھا دیا۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا۔
شاید اس ذاتی المیہ کی تفصیل بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ مختصر یہ کہ وہ تقریباً دو گھنٹے گھر میں دندناتے رہے، چاروں کمروں کی تلاشی لی اور جاتے ہوئے نقدی اور زیورات کے ساتھ ایل ای ڈی سمیت الیکٹرونکس کے وہ چیزیں بھی لے گئے جو آسانی سے اٹھائی جا سکتی تھیں۔ مالِ مسروقہ میں گھڑیاں، ان سلے کپڑے، پرفیومز یہاں تک کہ انٹر کام ‘ موبائل فون کے چارجر اور گھریلو استعمال کی دوسری عام سی چیزیں بھی تھیں۔
آخری لمحات میں وہ کچھ ریلیکس ہو گئے تھے۔ میں نے بیڈ روم سے باہر نظر کی تو ان میں سے دو، ڈائیننگ ٹیبل کے پاس بیٹھے گنتی کر رہے تھے جیسے آج کی واردات کے حاصل وصول کا حساب کر رہے ہوں۔ پھر ان دونوں نے باقی پانچوں کی تلاشی لی کہ کسی نے کوئی قیمتی چیز الگ سے تو نہیں چھپا لی۔
ہم واپڈا ٹائون میں پہلے والا گھر بیچ کر اس بستی میں منتقل ہوئے تو اکثر دوستوں کا سوال ہوتا: بھابی مرحومہ نے اتنا اچھا گھر بنایا تھا، سامنے پارک تھا، چوڑی گلیاں اور کھلی سڑکیں تھیں۔ ایک اچھی آبادی کی تمام سہولتیں موجود تھیں، پھر شہر سے دور، رائے ونڈ کے قریب کیوں جا بسے؟ ہمارا ایک ہی جواب ہوتا کہ اس بستی میں سکیورٹی کمال کی ہے... اور پھر یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا۔
اپنی چھت اور چار دیواری انسان کو سکون اور تحفظ کا احساس دیتی ہے۔ یہی لٹ جائے تو انسان بد ترین صدمے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں اس کی پریشانی بجا اور فطرتی ہے۔ اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد پولیس بھی فوراً حرکت میں آئی، سوسائٹی کی انتظامیہ اور سکیورٹی سٹاف بھی متحرک ہوا لیکن ایک سنگین واقعہ تو ہو چکا تھا۔
یہاں کچھ اور حقائق کی یاد دہانی بھی ہوئی۔ ہمیں یہاں منتقل ہوئے کوئی ڈیڑھ سال ہونے کو ہے، لیکن اڑوس، پڑوس والوں کے ساتھ بس رسمی سی دعا سلام تھی، وہ بھی رستے میں آتے جاتے۔ لیکن ہمارے ساتھ اس المیے نے ہمدردی کی لہر دوڑا دی، جیسے میرا ذاتی دُکھ سب کا اجتماعی دُ کھ بن گیا ہو۔ جس نے بھی سنا، چلا آیا۔ اڑوس پڑوس کی خواتین، بیٹی کی دل جوئی کے لیے آتی جاتی رہیں۔ دو تین گھروں سے، صبح کا ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا آ گیا۔ ایک اور چیز مشترکہ خطرے کا احساس تھا، جس نے یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کر دی تھی۔ ''آج یہ لٹے ہیں، کل ہم بھی لٹ سکتے ہیں‘‘۔ اس کے لیے مشترکہ کاوش کی ضرورت محسوس ہوئی اور طے پایا کہ نماز جمعہ کے بعد، ایک نمائندہ وفد سوسائٹی کی انتظامیہ سے ملے گا۔ یہ ملاقات بہت مفید رہی۔ احساس ہوا کہ وہ ہم سے بھی زیادہ پریشان ہیں۔ سکیورٹی سسٹم موثر تر بنانے کے لیے بعض فیصلے ہو چکے تھے۔ اب ان پر تیز تر عمل درآمد کا مرحلہ تھا۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا، پولیس والے بھی متحرک ہوئے۔ انویسٹی گیشن والے بھی اور دوسرے بھی۔ وہ ہمیں بھی، اور حکام بالا کو بھی انویسٹی گیشن میں پیش رفت سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے ہمارے سامنے یہ سوال بھی رکھا کہ اگر ان سات ملزموں میں سے، وہ ایک، دو کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو گینگ کے دوسرے افراد اور مالِ مسروقہ کی بازیابی کے لیے معلومات بھی ان ہی سے حاصل ہوں گی‘ لیکن پولیس کے خلاف حالیہ مہم کے بعد، وہ کسی ملزم کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ میڈیا پر حالیہ مہم نے پولیس کے ہاتھ باندھ دیئے ہیں۔ ادھر کسی ملزم کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، ادھر ایک وردی اتر گئی۔ ان میں سے ایک کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا، ''سر! آپ ہی بتائیں، آپ کے ملزم اگر ہاتھ لگ جائیں، تو ہم ان سے آپ کے مالِ مسروقہ کی برآمدگی اور دیگر وارداتوں کی معلومات کے لیے کیا کریں؟ تفتیش کے دوران بے جا تشدد کا سد باب ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن میڈیا پر حالیہ مہم اور اس سے پیدا ہونے والے دبائو کے نتیجے میں، تفتیشی افسران و اہل کار ان کے خلاف (ضروری تحقیقات کے بغیر) فوری کارروائیاں، محکمے کو ڈی مورالائیز کرنے کا باعث بن رہی ہیں، اس سے جرائم میں کمی نہیں، اضافہ ہو گا۔ بلا شبہ پولیس کو اپنے طرزِ عمل پر غور کی ضرورت ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پولیس والوں کو کچھ مارجن بھی ملنا چاہیے کہ فرائض پورے کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved