تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     10-05-2013

اُمید کا آخری پتہ

یہ ایک دلپذیر انگریزی کہانی ہے جو انسانوں کے درمیان احساس اور ایثار جیسے قیمتی جذبے کی بہت ہی خوبصورت انداز میں ترجمانی کرتی ہے۔ شاید یہ کہانی نصاب ہی کی کسی کتاب میں پڑھی تھی، آج بھی اس کی مبہم سی یاد میرے دل پر نقش ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک سرد ملک میں رہنے والی نوعمر لڑکی سارہ بیمار پڑ جاتی ہے۔ دن بدن اس کی بیماری بڑھتی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ بسترتک محدود ہوجاتی ہے۔ اس کے بستر کے دائیں جانب کی کھڑکی باہر کی طرف کھلتی ہے جہاں سے اسے عشق پیچاں کی خوبصورت بیل دکھائی دیتی ہے۔ موسمِ سرما کی سرد ہوائوں کے ساتھ ہی درختوں اور باغوں پر خزاں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ خزاں کے زرد موسم میں بیل کے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ سارہ کھڑکی سے جھڑتے ہوئے پتوں کو دیکھ کر ایک عجیب سا وہم دل میں پال لیتی ہے کہ جس روز اس بیل کا آخری زرد پتہ جھڑ جائے گا‘ اسی روز وہ بھی مرجائے گی۔ اس کی ایک قریبی دوست کو سارہ کے اس وہم اور مایوسی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ خزاں کی زرد ہوائیں چلتی ہیں اور بیل کے پتے ایک ایک کر کے جھڑنے لگتے ہیں۔ بالآخر بیل پر آخری پتہ رہ جاتا ہے۔ بستر سے لگی، مایوس، لاغر و بیمار لڑکی کا دل بھی زرد پتے کی طرح کانپنے لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہم سچ کا روپ دھارنے والا ہے۔ یہ پتہ بس سرد ہوائوں میں جھڑ جائے گا اور ساتھ ہی اس کے سانس کی ڈوری بھی ٹوٹ جائے گی۔ سارہ کی ہمدرد دوست اس کے وہم کو جانتے ہوئے اسی اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے ایک مصور سے رابطہ کرتی ہے اور اُسے سارہ کے وہم اور بیماری سے آگاہ کرتی ہے۔ ادھر سارہ اپنے وہم کا شکار، زرد پڑتی خود کو موت کے قریب جاتا محسوس کرتی ہے۔اس رات سرد طوفانی ہوائوں سے درخت تک جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں۔تمام رات تیز سرد ہوائیں چلتی ہیں۔ سارہ کا دل کانپتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔ وہ سہمے ہوئے دل کے ساتھ کھڑکی کھول کر بیل کو اس سوچ کے ساتھ دیکھتی ہے کہ اس کا آخری پتہ بھی آج ضرور گر چکا ہوگا مگر اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ بیل پر آخری پتہ موجود ہوتا ہے۔ سارہ اپنے وہم سے نکل آتی ہے اور اس کی صحت بہتر ہونے لگتی ہے۔ کچھ ہی دن کے بعد خبر ملتی ہے کہ ان اپارٹمنٹس میں رہنے والا مصور سردی لگنے کی وجہ سے نمونیہ کا شکار ہو کر دم توڑ گیا ہے۔ صرف سارہ کی سہیلی جانتی ہے کہ وہ ہمدرد دل مصور اس سرد رات کو بیل کے تنے پر عین اس جگہ ایک پتہ پینٹ کر دیتا ہے جہاں آخری پتہ سرد ہوائوں سے جھڑ جاتا ہے۔ سارہ اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ آخری پتہ تو کب کا جھڑ چکا لیکن وہ جس پتے کو دیکھ کر زندگی کی طرف واپس لوٹ آئی ہے وہ ایک حساس اور ہمدرد دل مصور کا بنایا ہوا ہے۔ زندگی سے دور جاتے ہوئے کسی انسان کے لیے امید کا پیغام بننا ہی اصل انسانیت ہے اور یہی اس کہانی کا خوب صورت سبق ہے۔ کہتے ہیں کہ پانی کے بغیر انسان تین دن تک زندہ رہ سکتا ہے مگر امید کے بغیر تین منٹ زندہ نہیں رہ سکتا۔ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور اپنے جیسے انسانوں کے دکھ درد میں امید ،آسانی اور خوشی لانے کی ہمہ وقت کوشش کرنی چاہیے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی سیاسی اور معاشی صورتحال انحطاط پذیر ہے۔ لوگوں کے لیے زندگی اجیرن ہوتی جارہی ہے مگر میں نے نوٹ کیا کہ اب بھی ہمارے سماج کے اسّی فیصد لوگ اعلیٰ انسانی خصوصیات اور اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ اتوار میں نے ایوری ڈے گریٹ بنیں کے موضوع پر کالم لکھا تو اس کے جواب میں قارئین نے بڑی تعداد میں ای میلز کیں۔ ایک نوجوان نے لکھا کہ سیاسی موضوعات سے ہٹ کر جب آپ انسانی اقدار کو کالم کا موضوع بناتی ہیں تو ہمارے اندر ایک مثبت جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اپنا ملک تمام تر خامیوں کے باوجود پیارا لگتا ہے۔ اپنے بہن، بھائی، دوست احباب، والدین اور اردگرد رہنے والے لوگوں کے لیے میرے دل میں ہمدردی اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یقین کریں کہ بطور لکھاری میں نے محسوس کیا کہ اگر ہمارے لکھے ہوئے سے کسی ایک بھی انسان میں مثبت تبدیلی اور بہتری پیدا ہوتی ہے تو پھر کالم لکھنے کا عمل صدابصحرا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مقدس اور خوبصورت عمل ہے۔ کالم نگاری ایک ایسا طرزِ اظہار ہے جسے صحافتی رپورٹنگ کی سیدھی سادی تحریر اور خالصتاً ادبی تحریر کے درمیان ہی کی کوئی صنف گردانا جاتا ہے۔ یعنی رپورٹنگ سے زیادہ اور ادبی تحریر سے کم معیار کا طرزِ اظہار۔ وہ کالم نگار جن کی عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری‘ کالم لکھنے کو روزانہ کنواں کھودنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ سالہا سال سے ملکی حالات پر لکھتے ہوئے‘ ان کا قلم کبھی مایوسی اور تھکن کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ کسی نے ایک بار اسی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ کالم لکھنا دیواروں سے اپنا دکھ درد کہنے کے مترادف ہے۔ جب لکھے ہوئے الفاظ کو حساس دل اور حساس سماعتیں نہ ملیں تو پھر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ مگر کچھ بھی ہو‘ امید ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم بکھرنے سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستان کے حقیقی مسائل سے گزرتا ہوا ایک عام پاکستانی بھی کہانی کی بیمار لڑکی سارہ کی طرح کبھی کبھی شدید مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس مایوسی سے اسے نکال کر عمل اور امید کا پیغام دینے کے لیے پینٹر جیسے حساس اور ہمدرد دل رہنمائوں کی ضرورت ہے۔ اس گھمبیر مایوسی سے نکلنے کا ایک اہم راستہ یہ بھی ہے کہ 11 مئی کو اپنے ووٹ کا استعمال اس نظریے اور امید کے حق میں کریں جو مسائل سمجھتا اور انہیں حل کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو قوم کو مایوسی سے نکالے اور ایک ایسا معاشرہ بنائے جہاں بیل پر امید کا آخری پتہ سدا سلامت رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved