وزیر اعظم عمران خان اپنے سیاسی کیریئر میں پہلی بار وہیں گیندیں کرا رہے ہیں‘ جہاں کرانی چاہئیں۔ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اُنہوں نے کشمیر کی صورتِ حال اجاگر کرتے ہوئے چند سوال بھی اٹھائے ‘جو دشمن کے دل میں تیر بن کر اترے ہیں۔ عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے پنپ رہے انسانی المیے کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ بھارت کے اٹھارہ‘ بیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات کا بھی ذکر کیا۔ جو سلوک کشمیری مسلمانوں سے روا رکھا جارہا ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کے دل و دماغ میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ وہ شدید ذہنی خلجان میں مبتلا ہیں۔ کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھتے ہوئے بھی وہ (بھارتی مسلمان) اُن کے لیے کچھ خاص کرنے سے قاصر ہیں۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرنے والے ہر بھارتی باشندے کو ہندو انتہا پسند غدار قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ارون دھتی رائے اور جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو جیسے باضمیر بھارتی کم کم ہیں‘ جو کسی بھی سطح پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اپنے آپ پر فرض سمجھتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے بیان کا حق ادا کردیا۔ اُن کی تقریر کے دوران مسلم ممالک کے سفارت کار روتے پائے گئے۔ جو کچھ اُن کے دل میں تھا‘ وہ بھی انہوں نے بیان کیا۔ وزیر اعظم کے خطاب کا بنیادی موضوع کشمیر تھا۔ کشمیر میں مودی سرکار نے جو قیامت ڈھا رکھی ہے ‘اُس کی طرف عالمی برادری کی بھرپور توجہ دلانا لازم تھا۔ انتہا پسند و بنیاد پرست ہندو تنظیموں (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ وشو ہندو پریشد‘ بجرنگ دل‘ شیو سینا وغیرہ) پر مشتمل ''سنگھ پریوار‘‘ کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا لازم تھا۔ ان تنظیموں نے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ خود نچلی ذات کے ہندو (دَلِت) بھی ان سے عاجز ہیں ‘کیونکہ اُن سے بھی یکسر غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔ خوشا کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے حوالے سے بلوچستان میں بھارت کی کارستانیوں کا بھی ذکر کردیا اور اِن کارستانیوں کے ماسٹر مائند‘ یعنی بھارتی جاسوس کُل بُھوشن یادو کا نام لیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اُنہوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا خاص ظور پر ذکر کیا‘ جو بھارتی مسلمانوں کو نشانے پر لیے ہوئے ہے۔ حقِ خود ارادیت کی خاطر کئی عشروں سے جدوجہد کرنے والے کشمیری حریت پسندوں کو انتہا پسند یا دہشت گرد قرار دے کر جان چھڑانے کی روش پر گامزن بھارت کو محض آئینہ دکھانا کافی نہیں ‘بلکہ اُسے عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرنا بھی لازم ہے‘ تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ وہ کون سے عوامل ہیں‘ جو مسلمانوں میں انتہا پسندی کو تیزی سے پنپنے کا موقع یا جواز فراہم کر رہے ہیں۔
مودی سرکار نے پہلے تو پورے ملک میں گائے کی حفاظت کے نام پر انتہائی بچگانہ انداز سے مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کی فضاء تیار کی اور ہجوم کے ہاتھوں متعدد مسلمانوں کے شہادت کے بعد کشمیریوں کو بھی نشانے پر لے لیا۔
مودی سرکار نے روزِ اوّل سے پاکستان اور مسلم مخالف فضاء پروان چڑھانے کی پالیسی اپنائی اور یوں بھارتی ہندوؤں کی غالب اکثریت کو ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار کیا کہ پاکستان سے بہتر تعلقات کسی طور قبول نہ کیے جائیں اور اپنے ہاں مسلمانوں کو بھی کُھلے دل سے نہ اپنایا جائے‘ جو کہ اس کی انتہا پسندی اور تنگ نظری ہے۔
دنیا حیران ہے کہ بھارت تعلیم اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے غیر معمولی پیش رفت کا حامل ہے۔ ملک بہت حد تک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایسے میں مسلم مخالف فضاء کو پروان چڑھانے کی منطق یا جواز کیا ہے؟ عمران خان نے بالکل درست نشاندہی کی کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اور بھارت کی بعض ریاستوں میں انتہا پسند ہندوؤں نے گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں سے جو سلوک روا رکھا ہے‘ اُس نے اگر عام بھارتی مسلمانوں کے جذبات بھڑکا دیئے تو کیا ہوگا؟ مودی سرکار اب تک جُھکنے کا نام نہیں لے رہی۔ سوال پاکستان کے آگے نہیں‘ بلکہ حالات کی صداقت کے آگے جھکنے کا ہے۔ خطے میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے‘ مگر مودی سرکار اب تک یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ بڑی مارکیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر معاملے کو لپیٹ کر رکھ دے گی۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ آخری سانس تک لڑنے کا عندیہ دے کر عمران خان نے بتادیا ہے کہ جب بات ''مارو یا مر جاؤ‘‘ کی منزل تک پہنچے گی تو جنگ کسی بھی طور روایتی نوعیت کی نہ رہے گی۔
کشمیریوں کو جس بہیمانہ انداز سے دبوچ کر اُن کے گھروں میں بند کردیا گیا ہے ‘اُسے دیکھتے ہوئے بھارت میں بہت سے اہلِ دانش نے اپنے ضمیر کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے مودی سرکار کو لتاڑا ہے اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان نے یہ کہہ کر کشمیریوں کی وکالت کا حق ادا کردیا کہ اگر وہ خود بھی کشمیر میں یوں محبوس ہوتے تو ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوتے۔ عمران خان نے بھارتی مسلمانوں کا ذکر کرکے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ پاکستان کسی بھی حال میں پورے خطے کے مسلمانوں سے کو الگ یا لاتعلق نہیں رکھ سکتا۔ جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم کے خطاب پر بھارتی میڈیا کو سیخ پا تو ہونا ہی تھا۔ انتہا پسند ہندوؤں کے لیے تو یہ خطاب ایسا تھا جیسے کسی نے دُم پر پاؤں رکھ دیا ہو!
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آخری لمحات میں بھی بھارت کشمیریوں اور اپنی حدود میں رہنے والے مسلمانوں کے معاملے میں ایسا رویہ رکھے ہوئے جیسے 1960ء کی دہائی چل رہی ہو۔ آج کوئی بھی بات دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ ایسے میں کسی کو زیادہ دن دباکر‘ کچل کر رکھا نہیں جاسکتا۔
شکر ہے کشمیر پر عالمی برف کچھ تو پگھلی ہے۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ کی لیبر پارٹی نے بھی مقبوضہ کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی‘ جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ کشمیریوں کو ڈھنگ سے جینے کا حق دیا جائے۔ برطانیہ میں مقیم بھارتی نژاد ہندو سابق حکمراں جماعت کی کانفرنس میں منظور کی جانے والی اس قرارداد سے سخت نالاں ہیں۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں لیبر پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ لیبر پارٹی نے کیا وہ بالکل درست تھا اور قرارداد کے ذریعے اُس نے نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والوں اور ان مظالم کی حمایت کرنے والوں کو آئینہ دکھادیا ہے۔ موقع اچھا ہے‘ لوہا گرم ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری کا ضمیر جگانے کے حوالے سے کوششیں تیز کردینی چاہئیں۔ وزیر اعظم نے اچھی ابتداء کی ہے۔ بھارت کے خلاف اُسی طور ڈٹ جانے کی ضرورت ہے ‘جس طور کشمیری نہتے ہونے کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے طے شدہ 15 منٹ کی بجائے کم و بیش 50 منٹ خطاب کرکے وہ سب کچھ بیان کردیا‘ جو پاکستانیوں‘ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں تھا۔ عرب دنیا اب تک تماشا دیکھ رہی ہے۔ لازم ہے کہ کشمیریوں کے حوالے سے عالمی رائے عامہ ہموار کرنے سے متعلق کوششوں میں عرب دنیا کو لو پروفائل میں نہ رکھا جائے۔ عرب دنیا سے بھارت کے غیر معمولی معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ لازم ہے کہ عرب دنیا میں رائے عامہ کو کشمیر کے حق میں استوار کرنے کی کوشش کے ذریعے بھارت پر اقتصادی تلوار چلائی جائے۔