قیامت ٹل گئی۔عمران خان کو اللہ نے تھام لیا۔ سکون کا ایک طویل سانس کہ یہ انتخابی مہم کسی قومی سانحے پر اختتام پذیر نہیں ہوئی ۔ بائیں بازو کی جماعتیں ، خاص طو رپر اے این پی دہشت گردی کا نشانہ رہی مگر خم ٹھونک کروہ کھڑی ہے۔ شدت پسند پختون خوا کو انتخابی عمل سے الگ نہ کر سکے ۔سیاسی محا ذ پر وہ شکست سے دوچارہیں ۔ کیا پیپلز پارٹی کھیل سے باہر ہو چکی ؟ بعض تجزیہ نگارابھی تک انکار کر رہے ہیں ۔ کچھ اس کی ممکنہ شکست کے باوجود پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی طرف اشارہ کرر ہے ہیں ۔ سندھ اور جنوبی پنجاب پیپلز پارٹی کی قوت کے مراکز ہیں ۔ جیسا کہ گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا، پہلی بار لاڑکانہ میں کئی امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ ٹھکرا دیا۔ نواب شاہ میں سخت احتجاج ہوااور قیادت کو فرار ہونا پڑا۔ پھر دس جماعتی اتحاد ہے۔دس جماعتی اتحاد کی خاطر خواہ کامیابی پرصوبائی حکومت کی تشکیل میں ایم کیو ایم کا کردار فیصلہ کن ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم اس صورت میں کیا کرے گی ؟یاد رکھیے کہ نظریے نہیں ، یہ مفاد کا کھیل ہے ۔ایم کیو ایم پر سب سے زیادہ احسانات شاید پرویز مشرف نے کیے تھے ۔ اس دورمیں وہ ایک \"لبرل\"اور \"روشن خیال \"جماعت بنی اور شہر پر اپنی گرفت اور مضبوط کر پائی لیکن سابق صدر مصیبت کا شکارہوئے تو وہ انجان ہے ۔ پچھلی ہر حکومت میں وہ شامل ہوتی رہی لیکن بڑی کاریگری کے ساتھ ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سے وہ بار بار الگ ہوتی رہی کہ اب ایم کیو ایم کے آدمی بھی مرنے لگے ۔قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو ایسی برتری حاصل نہ تھی کہ اس علیحدگی کی وہ متحمل ہوتی ۔ تنگ آکر صدر زرداری نے ، جنہیں اپنے حریفوں کو پچھاڑدینے پر داد کا مستحق قرار دیا جاتاہے ، قاف لیگ سے ہاتھ ملالیا۔اب ایم کیو ایم کو اپنے لچھن بدلنا پڑے ؛حتیٰ کہ حکومت کی مدّت تما م ہونے کو آئی ۔ تب دوبارہ اس نے اپوزیشن کا رُخ کیا کہ نگران چُننے میں دونوں کو آسانی ہو۔ برسبیلِ تذکرہ صدر زرداری کو سیاسی مدبّر قرار دینے والے کبھی یہ انکشاف بھی فرمائیں کہ پیپلز پارٹی کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے ؟چالاکی قابلِ فخر اور فتح دلانے والی خاصیت تو نہیں ۔ بہرحال اس مرتبہ پیپلز پارٹی کے بغیر بھی سندھ حکومت بننے کا امکان موجود ہے۔ ایم کیو ایم وہی کرے گی ، جو وہ کرتی آئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کس لیے اس کی رفیق بنے ؟ جہاں تک یہ سوال ہے کہ خود ایم کیو ایم ہر حکومت میں شریک ہوتی ہے ، تو وہ کہہ سکتی ہے کہ مرکزی حکومت میں فیصلے کرنے کا اختیار اس کے پاس تو نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی کا دوسرا قلعہ جنوبی پنجاب ہے ۔ جیسا کہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے سینئر تجزیہ نگار بتا رہے ہیں کہ عمران خان نے وہاں بے نظیر بھٹو کے آخری جلسوں سے بڑے اجتماع منعقد کیے ۔ جاوید ہاشمی ، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی سمیت کئی رہنما وہاں سے تعلق رکھتے ہیں ۔پیپلز پارٹی اس مرتبہ قومی اسمبلی کی بہت زیادہ نشستیں نہ لے پائے گی ۔جہاں تک اس کے سینیٹرزاور مستقبل کی قانون سازی کا تعلق ہے ، 2008ء کی سینیٹ میں قاف لیگ غالب تھی ۔پھر کیا ہوا؟ یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی قاف لیگ بن جائے گی لیکن ابتلا میں بہرحال کمزور لوگ فرار ہوتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی باقی رہے گی اور شاید پھر کبھی اُبھر آئے لیکن اس قیادت کے ساتھ بہرحال نہیں ۔ پارٹی کی تباہی میں وہ سب شریک ہیں ، پچھلے پانچ برس جو خاموش رہے ۔ تحریکِ انصاف جہاں بھی کامیابی سمیٹے گی ، دوسرے نقصان اٹھائیں گے ۔ وسطی پنجاب میں نون لیگ ، جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی اور سرحد میں جمعیت علمائِ اسلام ، جماعتِ اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی اور نو ن لیگ۔ پنجاب میں شریف برادران سے زیادہ نقصان شاید پختون خو اکی مذہبی جماعتوں کو ہو ۔ تحریکِ انصاف سرحد میں حکومت بنا پائے اور شاندار کارکردگی دکھا سکے تو ہمیشہ کے لیے یہ صوبہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔یہ واویلا چنانچہ بے کار ہے کہ عمران خان شریف برادران کی جڑیں کاٹنے کے لیے میدان میں اُترے ہیں ۔ یہ دہائی بھی بے بنیاد کہ عمران خان کا ہر ووٹ پیپلز پارٹی کا راستہ ہموار کردے گا۔ یہ البتہ سو فیـصد درست ہے کہ نون لیگ اور اقتدار کے درمیان صرف عمران خان حائل ہیں اور کیوں نہ ہوں ؟ یہ ان کا حق ہے ۔ سترہ برس انہوں نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ مشقت کی ہے ، ناکامیاں برداشت کی ہیں ۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف اگر ایک جتنی نشستیں حاصل کرتی ہیں تو عمران خان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی ۔ فرض کیجئے، دونوں 70، 70سیٹیں لیتی ہیں،پیپلز پارٹی 40، ایم کیو ایم 20، قاف لیگ 10، اے این پی ، جے یو آئی اور جماعتِ اسلامی 5,4 ۔بڑی تعداد میں آزاد امیدوار ۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کے ساتھ وہ ہاتھ نہ ملائیں گے ۔ صرف جماعتِ اسلامی ہی بچتی ہے اور آزاد امیدوار۔کم از کم پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور جے یو آئی کے ساتھ تو تعلق جوڑا جا ہی نہیں سکتا۔ دوسری جانب شریف برادران کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں ۔ جہاں تک آزاد امیدواروں کا تعلق ہے ، ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی ہی کی طرح نون لیگ بھی خزانے لٹا سکتی ہے۔ عمران خان اس راستے سے گزرنے کے نہیں۔ یہ البتہ ہو سکتاہے کہ تحریکِ انصاف اتنی سیٹیں لے جائے کہ جیتنے والے خود اس کا رُخ کریں ۔ لاہور کے قلعے میں نقب لگ چکی ہے اور کچھ بھی ممکن ہے ۔صرف گیارہ مئی ہی فیصلے کا دن نہیں ۔ کچھ معرکے اس کے بعد بھی برپا ہوں گے ۔ ابھی سے کمر کس لیجئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved