وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کی تعریف نہ کرنا‘ بد دیانتی ہو گی۔ اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ یہ ان کے سیاسی کیریئر کی بہترین پرفارمنس تھی۔ علاوہ ازیں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیا گیا انٹرویو بھی متاثر کن تھا۔ تحریک انصاف کے کارکنان کے لیے سیاسی مباحثہ میں یہ تقریر کب تک ڈھال بنتی ہے؟اس معاملے کو ابھی ایک طرف رکھ دیا جائے ‘ تب بھی وزیر اعظم عمران خان کی اس تقریر کا حوالہ عشروں تک دیا جاتا رہے گا۔
لیکن عملی دنیا ایک مختلف چیز ہے ‘اس کے ظالم مسائل کا حل تقریروں میں نہیں ملتا اور نہ ہی یہاں ہونے والے فیصلے اخلاقی یا اصولی بنیادوں پر کئے جاتے ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ کا بھارتی وزیر اعظم کیساتھ امریکی بھارتیوں سے خطاب ‘ ہمارے ساتھ بیٹھ کرالزام تراشی کرنا‘ دہشت گردی کا مرکز در اصل ایران کوبتانا۔'' ادھر بھی یارانے ‘ ادھر بھی دوستانہ ‘‘والی پالیسی کا سیدھا مطلب ہے کہ امریکہ صرف اپنے مفاد کے ساتھ کھڑا ہے ۔ تیزی سے بدلتے حالات میں وہ کوئی فیصلہ کن پوزیشن لینے سے قبل صرف اپنا سیاسی مفاد دیکھے گا۔حقیقت کی دنیا میں اپنا یہ حال ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو نیویارک لے جانے کے لیے قومی ائیر لائن کی کوئی پرواز سرے سے موجود ہی نہیں تھی ‘ کیونکہ اس سیکٹر کو مدت سے بند کر دیا گیا ہے۔ یہاں بحث چل رہی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد کے جہاز پر جانا چاہیے تھا کہ نہیں؟ یہ سوال اٹھا ہی نہیں کہ قومی ائیر لائن کی نیویارک اور امریکہ کے دوسرے شہروں میں فلائیٹس بحال کیوں نہیں ہو پائیں؟ حد تویہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ناقدین بھی بھارتی وزیر اعظم مودی اور عمران خان کی جہاز سے اترنے کی تصاویر کا تقابل کرتے ہوئے اسی بحث میں الجھے رہے کہ زمین پر بچھا قالین کس کا چھوٹا یا بڑا تھا؟ مگر دونوں جانب کے ناقدین میں سے کسی نے غور نہیں کیا کہ بھارتی وزیر اعظم ‘جس دیو ہیکل جہاز پر آیا تھا‘ اس پر اس کے ملک کا نام چمک رہا تھا‘وہ اس کی قومی ائیر لائن کا جہاز تھا اور ہمارا وزیر اعظم‘ سعودی ولی عہد کے طیارے سے اتر رہا تھا۔ ائیر انڈیا‘ ممبئی سے نیو یارک آپریٹ کرتی ہے ‘ہماری چلتی فلائیٹس بند ہو چکی ہیں۔ ممبئی سے نیو یارک کا کرایہ ائیر فرانس محض پینتیس ہزار بھارتی روپے ‘ جبکہ ائیر انڈیاکا اڑتالیس ہزار روپے ہے۔
بادل گہرے ہو تے جا رہے ہیں۔ بہت سے سوالات ہیں‘ جن کے جواب ابھی باقی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے ارادے کیا وہی ہیں؟جو وہ بتا رہے ہیں۔ بھارتی سول اور فوجی قیادت آزاد کشمیر کا نام لے کر حملے کی بات کیوں دُہرا رہی ہے؟ امریکی صدر ٹرمپ اور مودی کی پریس کانفرنس میں پاکستان اور دہشت گردی کا سوال کیوں اٹھایا گیا ؟ جس پر ٹرمپ کا جواب بھی معنی خیز تھا ‘جو یاد رکھا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس مسئلے کو مودی پر چھوڑتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ ہم اس وقت‘ جس گرداب میں پھنس چکے ہیں‘ اس کا فائدہ دشمن کیوں نہیں اٹھائے گا؟ اور وہ اٹھا بھی رہا ہے۔ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہم لڑنے کو تیار ہیں؟ اگر لڑنے کی استطاعت رکھتے ہیں ‘ تو کس سے اور کہاں تک ؟
فرض کیا جائے کہ بھارت آزاد کشمیر پر سرجیکل سٹرائیک کی حماقت کر بیٹھتا ہے ‘جس کے بعد ہماری فوج آزادکشمیر میں انگیج ہو جاتی ہے۔ اس امر کے لیے اگر سابقہ قبائلی علاقوں میں مسلح تحریک کھڑی کر دی جائے اور وہ ہمارا ساتھ بھی دیں ‘تو کیا ہم بیک وقت مغرب میں دہشت گردوں اور مشرق میں بھارت سے لڑنے کی تیاری کر کے بیٹھے ہیں یا نہیں؟بلوچستان‘ اپنے جغرافیے کی بدولت طویل عرصے سے امریکی دلچسپی کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ایران اور افغانستان دونوں کی سرحدیں بلوچستان سے ملتی ہیں۔ گوادر میں چینی سرمایہ کاری‘ جواب میں سعودی عرب کا سرمایہ کاری کا اعلان اور بلوچستان میں ہوئے چینی کارندوں پر حملے‘ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اپنی تیاری کم از کم سیاسی محاذ پر تو کچھ یوں ہے کہ پنجاب ہو‘ بلوچستان ہو‘ سابقہ قبائلی علاقے ہوں یا سندھ‘ ہر جگہ ایک سیاسی لڑائی شروع ہے۔ادھر خیبرپختونخوا میں بھی انتظامی معاملات کے حوالے سے ایک بھڑکتی بحث جاری ہے۔
مشرف دور میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد مشرقی سرحد گرم ہونے پر ہم نے امریکہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم مشرقی سرحد پر انگیج ہوئے تو آپ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو جائے گی‘یقینا اس کا اثر ہوا بھی‘لیکن آج ہماری تیاری کیا ہے؟ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ تقریباً اٹھارہ سال کے بعد بھارت اور امریکہ کے تعلقات کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ پہلے ہمارے ایٹم بم والی بات میں کچھ دم تھا‘ اب وہ بھی اس حد تک تو ختم ہو چکا کہ ہمارا وزیر اعظم‘ اقوام متحدہ میں ''ایٹم بم‘ ایٹم بم‘‘ کہہ رہا تھا اور کوئی سنتا تک نہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ہماری ایٹمی طاقت ہونا بھی کسی کو تشویش میں مبتلا نہیں کررہی۔ امریکہ کے پاس کون سی گارنٹی ہے کہ ہم ایٹم بم نہیں چلائیں گے؟ دوسری طرف غیر روایتی جنگ ‘ہم مشرق اور مغرب میں کس طرح اور کب تک لڑ پائیں گے؟ اس کی سیاسی اور قومی تیاری کیا ہے؟اس پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کی ثالثی کی ذمہ داری اٹھانے کی خواہش کا جب اظہار کیا تو میں سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ کیا خان صاحب کے پاس اپنے مسائل کی کچھ کمی رہ گئی تھی‘ جو ایک اور پیشکش کر بیٹھے ہیں۔ کیا اس وجہ سے کہ ہم امریکی کی دلچسپی خود میں قائم رکھنا چاہتے ہیں‘ یعنی یہ کہ ہم افغانستان میں بھی آپ کی ضرورت ہیں اور ایران میں بھی۔ ابھی ہم کام کے ہیں جنابِ ٹرمپ‘ صرف بھارتی مارکیٹ کو ہی نہ دیکھیں۔ اس پیشکش پر اتنا ہی کہا جا ئے کہ:
Be careful what you wish for.
(اپنی خواہشات کے بارے میں محتاط رہیے)۔یاد رہے میرا مقصد تنقید نہیں ‘بلکہ پاکستان کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔