وزیراعظم عمران خان نے امریکہ سے واپسی پر پہلا کام یہ کیا کہ اپنی پارٹی کے ایم این اے نور عالم کو ڈانٹ پلائی۔ نور عالم نے قومی اسمبلی میں مہنگائی پر تقریر کی تھی‘ جس میں انہوں نے عوام کے رونے پیٹنے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ لگتا ہے ہم سب یہاں صرف ڈیسک بجانے کیلئے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم نے نور عالم کو ڈانٹ پلائی کہ جب پیپلز پارٹی میں تھے تو تب تمہیں مہنگائی نظر نہیں آئی۔
اتفاق سے آج کل بھارت کے پہلے وزیراعظم نہرو کی بہن لکشمی پنڈت کی آٹوبائیوگرافی پڑھ رہا ہوں ''The Scope of Happiness‘‘۔ بڑے عرصے بعد کوئی اچھی آپ بیتی پڑھ رہا ہوں۔ وہ اندرا گاندھی کی پھوپھی تھیں اور نہرو کی وفات کے بعد ان دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ لکشمی پنڈت اندر گاندھی کے طرز حکومت سے ناراض تھیں اور اس حد تک کہ جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا کر اپوزیشن لیڈروں کو جیل میں بند کر دیا ‘ میڈیا کے لوگ گرفتار ہوئے‘ عدالتوں اور صحافیوں کو بھی جکڑ دیا گیا تو نہرو کی اس بہن نے اپنی سگی بھتیجی (وزیراعظم) کے خلاف سٹینڈ لیا اور اپوزیشن کے جلسوں سے خطاب کرنا شروع کر دیا ۔ ہندوستان کے لوگوں کے لیے امید کی کرن ابھری کہ چلیں نہرو خاندان میں کوئی تو ہے جو مشکل دنوں میں کھڑا ہے۔ نہرو کی موت کے بعد شاستری وزیراعظم بنے تو اندرا وزیر بنیں اور شاستری کی موت کے بعد وزیراعظم بن گئیں۔ لکشمی پنڈت کو لگتا تھا کہ جب سے اندرا گاندھی وزیراعظم بنی ہیں‘ ان کے درمیان فاصلہ بڑھنا شروع ہوگیا ہے ۔ نہرو کی سیٹ پر ان کی بہن لکشمی پنڈت نے الیکشن لڑ کر جیتا اور لوک سبھا پہنچی تھیں۔ اندرا نے اپنی پھوپھی کو راضی کیا تھا کہ ان کے باپ کی جگہ الیکشن لڑیں‘ لیکن وہ وزیراعظم بنتے ہی بدلنا شروع ہوگئی تھیں۔ لکشمی نے محسوس کیا کہ اندرا اس سے دور رہنے لگی ہے۔ ملاقات کے لیے وقت مانگا تو اسے وقت نہ ملا۔ ایک دن اندرا سے ملاقات ہوئی تو لکشمی نے گلہ کیا کہ تم میری بھتیجی ہو اور یوں لگتا ہے مجھ سے بہت دور ہو۔ اندرا گاندھی کچھ دیر خاموش رہی‘ پھر بولی: دراصل میں آپ پر بھروسا نہیں کرتی۔ اس پر لکشمی پنڈت اپنی کرسی سے اٹھیں‘ اندرا کو گلے لگایا اور ماتھے پر چوم کر بولیں: چلیں اچھا ہوا اندو (نک نیم) تم نے سچ بول دیا ۔ اندرا گاندھی کی لکشمی پنڈت سے ناپسندیدگی اتنی بڑھتی گئی کہ لکشمی پنڈت نے لوک سبھا سے استعفیٰ دے دیا اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ لکشمی کو لگتا تھا کہ نہرو خاندان جن روایات کے لیے جانا جاتا تھا وہ اندرا کے دور میں ختم ہورہی تھیں۔ اندرا اب آمر بن رہی تھیں۔
لکشمی پنڈت حیران تھیں کہ ایسے کیوں ہو رہا ہے؟ وہ اندرا گاندھی جو اس کے ہاتھوں میں پیدا ہوئی تھی‘ اب اس کے اتنی خلاف ہوگئی تھی؟ کس نے بھتیجی کو اس کے خلاف بھر دیا تھا؟ لکشمی ایسے گھر میں پیدا ہوئی تھیں جس نے انگریزوں کے خلاف تحریک کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان کا بھائی نہرو جیل گیا‘ وہ خود بھی جیل میں رہیں۔ اب اس کی بھتیجی کہہ رہی تھی کہ وہ اس پر بھروسا نہیں کرتی۔ اگر اندرا گاندھی اپنے باپ کی بہن پر بھروسا نہیں کرتی تو پھر وہ کن لوگوں پر بھروسا کررہی تھی؟
لکشمی پنڈت نے اسمبلی میں ایک تقریر کی تھی ‘ جس میں کہا تھا کہ اندرا گاندھی کے دور میں بہت اہم فیصلے رک گئے ہیں۔ اس نے تقریر میں وزیروں کو Prisoners of indecision قرار دیا؛ تاہم خوشامدی لوگ اندرا گاندھی کو اس کی پھوپھی کے بارے غلط اطلاعات دینا شروع ہوگئے تھے۔ لکشمی نے کوشش کی کہ وہ اندرا سے مل کر غلط فہمیاں دور کریں ‘لیکن ہر دفعہ انہیں وزیراعظم کے دفتر سے کہا گیا کہ وزیراعظم مصروف ہیں۔ اسے لگا کہ اندرا اور ان کے درمیان فاصلے وہ لوگ پیدا کررہے ہیں جو وزیراعظم کو کہانیاں سنا کر اپنی وفاداری ثابت کر رہے تھے۔اندرا کی قربت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ تھا کہ اسکی تعریف اور خوشامد کی جائے۔ اندرا کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ خود پر تنقید پسند نہیں کرتی تھی اور انہیں جو بھی کوئی بات بتا دیتا‘ وہ اس پر یقین کر لیتی تھیں۔
پھوپھی اور بھتیجی کی ملاقات اگر ہوئی بھی تو دونوں کے درمیان برف نہ پگھل سکی کیونکہ اندرا پتھر کی طرح خاموش ہوتیں۔ ایسا وقت بھی آیا کہ لکشمی پنڈت کو کسی سرکاری اجلاس یا فنکشن میں نہ بلایا جاتا۔ مرار جی ڈیسائی بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ اندرا گاندھی ایسے لوگوں میں گھر گئی ہیں جو انہیں درست مشورے نہیں دے رہے۔ لکشمی نے کئی دفعہ مرارجی ڈیسائی کو کہا کہ ان حالات میں پارلیمنٹ کا ممبر رہنا بیکار ہے ‘ جبکہ ڈیسائی کا خیال تھا کہ وزیراعظم خوشامدیوں میں گھر چکی ہیں۔خوشامدیوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا کہ ایسی وزیراعظم ان کے ہاتھ لگی تھی جو ہر وقت تعریفیں سننا چاہتی تھی۔ ناقد اسے بہت برے لگتے۔
آخر لکشمی پنڈت نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ وہ اپنی بھتیجی کی حکومت ‘اپروچ اور پارٹی سے بہت دور جاچکی ہے۔ انہیں حکومتی پالیسوں پر شدید اعتراضات تھے۔ جس طرح لکشمی پنڈت کا استعفیٰ اس وقت فوراً قبول کر لیا گیا وہ اپنی جگہ حیران کن تھا۔ دل برداشتہ لکشمی پنڈت نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ۔ اس کا خیال تھا کہ اس نے اندرا گاندھی کے طرزِ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی اور اب اندرا کے اقتدارمیں جگہ نہیں رہی۔ پھر الیکشن ہونے لگے تو جیتنے کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کیے گئے۔ بڑے پیمانے پر کانگریس نے پیسہ الیکشن پر لگانا شروع کیا ۔ پورے ملک کو اندرا گاندھی کی تصویروں والے بڑے پوسٹرز سے بھر دیا گیا‘ جن پر لکھا ہوتا کہ وہ غریبوں کے حقوق کی بڑی آواز ہے۔ ان تصویروں میں اندرا گاندھی کا مسکراتا ہوا چہرہ یہ وعدہ کررہا تھا کہ کل ہی سنہری صبح نمودار ہوجائے گی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ الیکشن کے بعد یہ سب پوسٹرز غائب ہوجائیں گے‘ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ الیکشن کے بعد پوسٹرز اور بل بورڈز کی تعداد بڑھ گئی۔ ہر جگہ وزیراعظم کی تصویریں نظر آرہی تھیں۔ ان پر لکھے نعرے خوفناک تھے‘ جو تقریباً فاشزم کے قریب تھے۔ اب اندرا گاندھی کو نام سے نہ پکارا جاتا اور نہ ہی وزیراعظم کہتے بلکہ اب ''لیڈر‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ہر پوسٹر پر ''دی لیڈر‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ اب ایک ہی اصول سامنے آنا شروع ہوگیا تھا کہ سب فیصلوں کا اختیار فردِ واحد کو ہے جس کا نام اندرا گاندھی ہے۔ کابینہ کے وزیروں اور دیگر اہم پارٹی لوگوں کی رائے اب اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ تمام وزیروں سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ سب وزیراعظم کے ''ذاتی وفادار‘‘ رہیں گے‘ ان کے کسی فیصلے پر کوئی بات نہیں کرے گا نہ ہی تنقیدی رائے دے گا۔ ہر جگہ کہا جانے لگا کہ کانگریس پارٹی کے تمام لوگ اور وزیروں کی تمام کمٹمنٹ اپنے ''لیڈر‘‘ کے ساتھ ہے۔ ''لیڈر‘‘سے مراد اندرا گاندھی تھی۔ اب ہر کسی کو اس انداز سے جانچا جانے لگا ‘ چاہے وہ سول سرونٹس ہوں‘ وکیل‘ ڈاکٹر ‘ پروفیسرز‘ صحافی ۔وہ کچھ بھی کرتے تھے یا سوچتے تھے وہ سب لیڈر کی سوچ کے مطابق سوچتے اور کرتے ہوں۔ اگر وہ ایسا نہیں سوچ اور کررہے تھے تو بہت جلد وہ سسٹم سے باہر ہوں گے اور ممکن تھا کہ وہ اپنی نوکریوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اب گاندھی صاحبہ کے کابینہ وزیر بھی ڈمی بن کر رہ گئے تھے۔ سب کچھ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے حکم پر ہورہا تھا۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ سے ہی سب وزرا کو ہدایات دی جارہی تھیں۔ انہوں نے وہی کچھ کرنا تھا جو وزیراعظم دفتر بتا رہا تھا۔ جو کابینہ کے وزیر‘ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ہاتھوں میں ناچنے سے انکاری ہوتے‘ انہیں سیاسی طریقوں سے سائیڈ پر کر دیا جاتا تھا ۔ اس طرح ریاستوں میں جو وزیراعلیٰ ان کے حکم کے مطابق نہ چل رہے ہوتے ان کے خلاف بھی وزیراعظم آفس سے سازش کر کے ہٹا دیا جاتا تھا۔ اتنی تیزی سے وزیراعلیٰ تبدیل ہورہے تھے کہ ان کے نام تک یاد رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ صوبوں میں وزیراعلیٰ اور وزیر کام کرنے کی بجائے وفاقی حکومت کو خوش کرنے پر لگے رہتے۔ اندرا کے ایک سیاسی وزیراعظم سے ایک ڈکٹیٹر وزیراعظم بننے تک کی کہانی پھر کبھی سہی ۔
بس ایک ہی بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ یہ تھرڈ ورلڈ ممالک کے وزیراعظم دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں‘ وہ سب ایک مرحلے پرخوشامد پسند‘متکبر ‘ مغرور کیوں ہو جاتے ہیں‘ آمر کا روپ کیوں دھار لیتے ہیں؟ خرابی ان لوگوں میں ہوتی ہے جو وزیراعظم بن جاتے ہیں یا وزیراعظم کی کرسی ہی ایسی بلا ہے کہ اس پر جو بیٹھتا ہے اسے خوشامد اور خوشامدی ہی اچھے لگتے ہیں؟
کرسی میں خرابی ہے یا کرسی پر بیٹھنے والوں میں؟
فیصلہ نہیں ہوپار ہا مجھ سے۔ کچھ مدد آپ ہی کر دیں پلیز۔