تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-05-2013

الیکشن‘ امکان اور اندیشے

انتخابی مہم100 انسانی جانوں کی قربانی دے کر اختتام کو پہنچ گئی۔ شروع میں تین جماعتیں ‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی ‘ دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔ آخری چند روز میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ صرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی انتخابی مہم کسی نقصان کے بغیر مکمل ہوئی۔ اختتامی یوم سے ایک دن پہلے‘ عمران خان بھی ایک حادثے کا شکار ہوئے۔ ہرچندوہ بڑے نقصان سے محفوظ رہے لیکن ان کی گردن اور کمر کی ہڈیوں کو جھٹکوں نے کتنا متاثر کیا ہے؟ اس کے بارے میں کچھ دنوں کے بعد صورتحال واضح ہو گی۔ آج اور کل کے دن بہت نازک اور پرخطر ہیں۔ وائس آف امریکہ کے مطابق حکیم اللہ محسود کا ایک خفیہ خط برآمد کیا گیا ہے‘ جو اس نے یکم مئی کو پاکستان میں پھیلے ہوئے ‘اپنے فیلڈ کمانڈروں کو بھیجا تھا۔ اس میں ہدایت کی گئی تھی کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں منظم خودکش حملے کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ پولنگ کا عمل پورے ملک میں بخیروعافیت پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ حکیم اللہ محسود نے واضح کیا ہے کہ وہ جمہوریت کو تسلیم نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ کفار کا بنایا ہوا نظام ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز اور سیاسی کارکنوں کو‘ آج اور کل کے دن انتہائی محتاط اور ہمہ وقت چوکنا رہ کر گزارنا ہوں گے۔ ہماری سابق اور موجودہ نگران حکومتوں نے ‘ دہشت گردی اور انتخابی عمل کو علیحدہ علیحدہ کر کے نہیں رکھا۔ یعنی دہشت گردی کی جنگ اپنی جگہ جاری رکھی جائے تاکہ دہشت گردوں پر دبائو برقرار رہے اور انہیں پہل اور حملہ کرنے کے زیادہ مواقع دستیاب نہ ہو سکیں اور انتخابی عمل اپنے طور پر آگے بڑھتا رہے۔ دہشت گرد ‘ فوجی کارروائیوں میں پھنسے ہونے کی وجہ سے یکسوئی کے ساتھ جارحانہ اقدامات نہ کر سکیں۔ ایران ‘ عراق کے ساتھ جنگ میںاس تجربے سے گزر چکا ہے۔ اس نے محاذوں پر اپنے رضاکاروں اور افواج کے ذریعے جنگ بھی جاری رکھی اور اندرون ملک انتخابات بھی ہوتے رہے۔ ہمارے ہاں دونوں محاذوں پر پوری یکسوئی اور تیاریوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جا رہا۔ پاک فوج قبائلی علاقوں میں بھاری قربانیاں دیتے ہوئے‘ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے۔ لیکن فوج کی اس کارروائی کی بھرپور حمایت کے لئے عوام کو منظم نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ میڈیا میں بھی ان لڑائیوں کا ذکر نہیں آ رہا‘ جو خیبرایجنسی‘ کرم ایجنسی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور دیگر ایجنسیوں میں ہو رہی ہیں۔ یہ بڑی بدنصیبی ہوتی ہے‘ جب فوج دشمن کے ساتھ برسرپیکار ہو اور ملک کے اندر تمام سیاسی جماعتیں‘ عوام اور میڈیا صرف الیکشن پر توجہ دے رہا ہو اور ملک اور عوام کے دفاع کے لئے لڑی جانے والی جنگ توجہ سے محروم رہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ سیاستدانوں اور عوام کی دلچسپی ایک طرف ہے اور فوج ایک محاذ پر مغرب میں لڑ رہی ہے اور دوسری طرف وہ پورے ملک میں دہشت گردی کو روکنے کے لئے چوکس کھڑی ہے۔ آج یعنی 10 مئی کو دوپہر کے وقت جبکہ پورے ملک میں پولنگ سٹیشن مکمل کئے جا رہے ہیں اور ہمارے جوان‘ کرم ایجنسی میںدہشت گردوں کے حملے روکتے ہوئے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور اسلام آباد میں ایک ایسی حکومت بیٹھی ہے‘ جسے نہ کسی مسئلے کا علم ہے اور نہ ہی اس کے پاس کچھ جاننے کا وقت۔ قوموں کو امتحانوں سے گزرنا پڑے‘ تو وہ اس طرح بکھری ہوئی نہیں ہوتیں۔ بلوچستان کو شاید ہم بھول جانا چاہتے ہیں‘ یا بھول گئے ہیں؟وہاں قوم پرستی کی تحریک سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے گروپ نے انتہاپسندی کا راستہ چھوڑ کر جمہوری عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتہاپسندوں نے اخترمینگل پر دبائو ڈالا کہ وہ اسلام آباد سے کوئی امید نہ رکھیں اور مزاحمتی جدوجہد پر یقین رکھنے والوں کا ساتھ دیں۔ لیکن اختر مینگل نے یہ کہہ کر کہ ’’ اپنے سے زیادہ طاقتور قوتوں پر تھوڑے اسلحے اور وسائل کے ساتھ غلبہ نہیں پایا جا سکتا۔ بہتر ہے کہ اپنی جدوجہد کو جمہوری طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔‘‘ مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے انصاف مانگا۔ 6نکات پر مشتمل مطالبات کئے۔ ان کی کسی بھی طرف سے حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ وہ پھر بھی مایوس نہ ہوئے اور انتہاپسندوں کی شدید مخالفت کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا اور جو کچھ انہیں حاصل ہوا وہ اس شکایت کی صورت میں سامنے آیا کہ ’’مجھ پر انتہاپسندوں کا بھی دبائو ہے اور وہ میرے ساتھیوں پر بھی حملے کر رہے ہیں اور ایجنسیاں بھی ہماری انتخابی سرگرمیوں میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں۔‘‘ پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور عسکری تجزیہ نگار شجاع نواز نے اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ ’’پاکستان میں قوم پرستانہ تخریب کاری اور فرقہ ورانہ نسلی جنگوں کی وجہ سے بلوچستان ایک اور بنگلہ دیش بنتا جا رہا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ لکھنا مناسب نہیں۔ انتخابات بخیروعافیت ہو بھی گئے‘ تو پاکستان کے حالات میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ جس باعزم سیاستدان سے لوگوں نے امیدیں لگا رکھی ہیں‘ وہ چند زخموں کے نتیجے میں پوری طرح بدلا ہوا نظر آیا۔ ہسپتال سے عمران خان نے جو پہلا انٹرویو دیا‘ اس میں صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ سیاسی جدوجہد کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ’’ 17سال میں جو کچھ مجھ سے ہو سکا میں نے کیا۔ اب عوام کی ذمہ داری ہے‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ بھرپور انتخابی مہم کی تھکن کے زیراثر‘ انہیں اپنی سخت محنت کا وہ نتیجہ نکلتا ہوا نظر نہیں آ رہا‘ جس کی وہ امیدیں لگا رہے تھے۔ خود ان کے حامی بھی ‘ ان کی بڑی سے بڑی کامیابی میں قومی اسمبلی کی 100 کے لگ بھگ نشستیں دیکھ رہے تھے‘ جو حکومت سازی کے لئے کافی نہیں۔ کولیشن بنانے کی صورت میں وہ یکطرفہ طور پر اپنا ایجنڈا بروئے عمل نہیں لا پائیں گے۔ ایل ڈی اے کی عمارت میں آگ لگنا بھی اچھا شگون نہیں۔ لاہور کے معروف آرکیٹیکٹ خالد رحمن نے الزام بھی لگا دیا ہے کہ یہ آگ میٹرو کا ریکارڈ جلانے کا باعث بنی۔ سیاسی مبصرین نے اس بیان سے نتیجہ اخذ کیا کہ شریف برادران اپنی فیصلہ کن جیت کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں رہے۔ پیپلزپارٹی نے خود ہی اپنی انتخابی مہم کو بلند آہنگ نہیں رکھا۔ بلاول عملی طور پر انتخابی مہم میں اپنی پارٹی کی قیادت نہیں کر سکے اور ان کی زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے‘ یہ احتیاط ضروری ہو گئی تھی۔ میں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا‘ جو کل کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو مایوس کن نتائج کی خبریں سنا رہے ہیں۔ اس جماعت کی جڑیں معاشرے کے اندر بہت گہری ہیں۔ سیاست اور میڈیا میں اسے کبھی بھی لائق اعتنا نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی 1970ء کے بعد اسے غیرجانبدارانہ انتخابات میسر آئے۔ 1977ء میں اس نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی تو نہ صرف سازش کے ذریعے حکومت کو ختم کر دیا گیا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی لگا دی گئی۔ اب ایسے انتظامات پختہ ہو چکے ہیں‘ جن کے اندر پیپلزپارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔ اس پر موجودہ قیادت سمجھوتہ کر چکی ہے اور اس نے مخلوط حکومتیں چلانے کا تجربہ حاصل کر لیا ہے۔ آج اگر پاکستان کے اندر کوئی کولیشن بنانے اور اسے چلانے میں کسی کو قابل اعتماد گنا جاتا ہے‘ تو وہ آصف زرداری ہیں۔ طاقت کے بیشتر مراکز میں زرداری کے لئے زیادہ پسندیدگی نہیں پائی جاتی۔ نوازشریف نے حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کے جو خدوخال بیان کئے ہیں اور برصغیر میں امن اور خوشحالی کے لئے جو تجاویز وہ سامنے لائے ہیں‘ ان کی وجہ سے انہیں بھی طاقت کے مراکز‘ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ جمہوریت کے پچھلے 5سالوں کی کہانی منیرنیازی کے ایک مصرعے میں بیان کی جا سکتی ہے۔ ’’کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن‘ کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔ ‘‘ پیپلزپارٹی کے دونوں وزرائے اعظم‘کرپشن کے الزامات اور بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث رہے۔ ایک سزایافتہ ہو چکے ہیں اور دونوں ہی مقدمے بھگت رہے ہیں۔مجموعی طور پر سیاستدان ‘ عوام کی نظروں میں عزت ووقار سے محروم ہو چکے ہیں۔ اول تو انتخابی نتائج ہی متنازعہ ہونے کا اندیشہ ہے اور کوئی تنازعہ پیدا نہ بھی ہوا‘ تو جو لوگ بھی حکومت بنائیں گے‘ ان کے پاس پہلے دن سے ہی اچھی ساکھ نہیں ہو گی۔ پاکستان جیسے معاشروں میں‘ ایسی حکومتوں کے ذریعے جمہوریت کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved