حکومت سے نجات اور نواز شریف کی رہائی
کے لیے تحریک چلائی جائے گی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت سے نجات اور نواز شریف کی رہائی کے لیے تحریک چلائی جائے گی‘‘ کیونکہ پہلے تو ان ویڈیوز پر بھروسہ تھا ‘جن کے بارے میں مریم نواز نے کہا تھا کہ ان کے پاس ہیں‘ لیکن ایک ہی ویڈیو ‘جو انہوں نے دکھائی‘ خود ان کے گلے پڑ گئی ۔ اس لیے یا تو ویڈیوز ان سے کہیں غائب ہو گئی ہیں‘ ورنہ اب تک حکومت سے بھی نجات مل چکی ہوتی اور نواز شریف بھی رہا ہو چکے ہوتے‘ بیشک موصوفہ خود عمر بھر کے لیے سرکاری مہمان ہی رہتیں‘ نیز اس سے ہمارے درمیان سخت مایوسی پھیلی ہوئی ہے ‘کیونکہ حکومت تو اگلے الیکشن تک جانے کا نام ہی نہیں لے رہی اور نواز شریف کو بھی عدالتوں نے رہا کرنا ہے اور نا صرف یہ دونوں کام نہیں ہو رہے‘ بلکہ ہر روز ہمارے کسی نہ کسی لیڈر کو یا تو اندر کر دیا جاتا ہے یا اس کی تفتیش شروع کر دیتے ہیں۔آپ اگلے روز مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب کرر ہے تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کیا گیا تو ہم اس کا جواب دیں گے: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کیا گیا تو ہم اس کا جواب دیں گے‘‘ جبکہ والد صاحب‘ پھوپھی صاحبہ اور دیگر شرکاء کی گرفتاری پر جواب اس لیے نہیں دیا تھا کہ ہمارے پاس کوئی جواب تھا ہی نہیں‘ جبکہ اب ہمارا جواب یہ ہوگا کہ کیا مذکورہ زعماء کو گرفتار کر کے حکومت کو صبر نہیں آیا؟ آخر حکومت اتنی بے صبری کا مظاہرہ کب تک کرتی رہے گی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میری گرفتاری پر پارٹی میں کوئی جواب دینے والا ہی موجود نہ ہو‘ ماسوائے تایا جان (قائم علی شاہ )کے جو ویسے ہی ہر وقت خواب ِخرگوش میں مصروف رہتے ہیں؛ حالانکہ انہیں چاہیے کہ ایک آدھ خرگوش خود ہی پال لیں‘ تا کہ وہ اپنی نیند سوتا رہے اور تایا جان کو یہ کام نہ کرنا پڑے ‘جبکہ ان کیخلاف بھی ان کی نیندیں حرام کرنے کیلئے کارروائی کا آغاز ہونے ہی والا ہے اور جہاں تک پیسوں کی واپسی کا تعلق ہے ‘تووالد صاحب نے تو اپنے دوست کو بھی ادائیگی سے روکا تھا‘ لیکن اس نے نا صرف 5 ارب روپے ادا کر دیئے‘ بلکہ مزید 50 ارب کی یقین دہانی بھی کرا دی ہے۔ آپ اگلے روز والدسے ملاقات کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کشمیر کا مقدمہ ہار چکی ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت کشمیر کا مقدمہ ہار چکی ہے‘‘ کیونکہ تقریروں سے یہ مقدمہ نہیں جیتا جا سکتا اور اس کے لیے ٹھوس کارروائیوں کی ضرورت ہے‘ جیسا کہ ہم نے برسلز‘ پیرس اور واشنگٹن میں کشمیر سنٹر بند کر دیئے تھے ‘تا کہ پیار محبت سے یہ مسئلہ حل کیا جا سکے‘ اسی لیے بھائی صاحب نے مودی کو اپنے ہاں ایک شادی پر بھی مدعو کیا تھا اور تحفے تحائف کا بھی تبادلہ ہوا تھا ‘جبکہ مودی صاحب کی بیگم کے لیے ساڑھیوں کا تحفہ بھی ان کے ہاتھ بھجوایا تھا؛ اگرچہ ہمیں معلوم تھا کہ میاں بیوی کے درمیان ناچاکی پیدا ہو چکی ہے ؛چنانچہ مودی نے وعدہ کیا تھا کہ واپس جاتے ہی وہ یہ مسئلہ حل کر دیں گے‘ لیکن انہیں یاد ہی نہ رہا اور ہم نے بھی انہیں یاد کرواکر شرمندہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جب انہیں یاد آ جائے گا‘ وہ خود ہی اسے حل کر دیں گے۔ بقول شاعر: ع
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
رفاہی کاموں کا تسلسل
ایک خبر کے مطابق‘ سید خورشید علی شاہ نے جس پلاٹ پر 60 کروڑ سے اپنا گھر بنایا‘ وہ رفاہ کیلئے مخصوص تھا۔ ظاہر ہے کہ اس میں حیران یا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں‘ کیونکہ وہ اس گھر میں رہتے ہوئے رفاہی کام ہی کرتے رہے ہیں ‘بلکہ اگر سچ پوچھیں تو ساری پارٹی اپنے عہد میں رفاہی کاموں ہی میں مصروف رہی ہے اور جو پیسہ انہوں نے اکٹھا کیا‘ وہ بھی انہوں نے رفاہی کاموں ہی پر خرچ کرنا تھا‘ لیکن حکومت نے انہیں موقع ہی نہ دیا اور خواہ مخواہ پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور اب وہ یہ رقوم اور اثاثے خود ہڑپ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ---ع: تفو بر تو اے چرخ ِگرداں تفو !
درستی
ایک صاحب نے اپنے کالم میں فارسی کا یہ شعر اس طرح نقل کیا ہے ؎
پیمبرِ عربی کا آبروئے ہر دوسراست
کسے کہ خاکِ درش نیست خاک برسرِ اوست
اس کے پہلے مصرع میں (غالباً ٹائپ کی غلطی ہے) ''کا‘‘ کے بعد ''آ‘‘ زائد ہے‘ کیونکہ اصل میں یہ ''کہ آبرو‘‘ تھا ‘جسے ایک قاعدے کے مطابق ''کابرو‘‘ کر دیا گیا۔
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی نظم:
سکھ بھائیوں کے لیے ایک نظم
ستلج وہ پہلا پنجابی/ جب اپنی مستی میں ڈوبا/ طیش میں آیا‘ تھر تھر کانپا/ سو دھاروں میں بٹ کر بھی اسے چین نہ آیا/ سو سے دوبارہ اک میں آیا/ اب تک اک ہے/ پنج ند تک بھی اک ہے/ پانینی کے اٹک اٹک رکتے پانی سے/ گڑ گائوں (یعنی گرو کے گائوں) گڑ کے گائوں/ سے آگے تک/ جنم جنم جیتا مرتا پنجاب/ خود اپنی راکھ سے جی اٹھتا ہے/ یہ سیمرغ جو/--- پانی کی اک تھیلی اندر/ آنول نال سے جڑا ہوا ہے/ کیااک اور جنم کی خاطر جی اٹھے گا/ ازلی پیچ و تاب میں غلطاں/ یہ پنج بیٹے کہہ سکتے ہیں/ پانی خواہ دریا کا ہو یا آنکھوں کا/ یہ رشتہ داروں کی تکلیف پہ بہہ اٹھتا ہے/ قرنوں تک بہتا رہتا ہے/ پانی کی حرمت سے جڑا/ میرے ساتھ جنم لیتا‘ اور پلک پلک پر بہتا/ میرے سنگ جنم جنم تک مرتا/ اپنے انتم جنم کی خاطر جی اٹھے تو/ اک ریلے میں/ پورا خطۂ پاک و ہند ڈبو سکتا ہے----!!
آج کا مطلع
دُور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے
ہم کسی اور کے تھے اور تمہارے بھی ہوئے