قیام پاکستان سے پہلے لڑکیوں کا کالج لاہور میں اور اس کا ہوسٹل امرتسرمیں تعمیر کرنے کی کہانی محض ایک لطیفہ سمجھا جاتا تھا‘ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ یہ بات سردار صاحبان کی نہیں‘ بلکہ ہمارے صوبہ پنجاب کی بیو روکریسی کی ایجاد کردہ ہے‘ جس نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے گزشتہ حکومت سے وزراء کو باہر اور سیکرٹریوں سے لے کر ان کے محکمے کے تمام عملہ کو سیکرٹریٹ کے اندر بٹھانے کا نادر شاہی بندو بست کر رکھاہے۔ شاید ہماری'' بیورو کریسی‘‘ کی نظروں میں وزرا ء کرام تو صرف نمائشی ہوتے ہیں۔ کام تو سارا انہوں نے ہی کرنا ہوتا ہے یا ان وزرا ء کو اتنا منہ نہ لگانے کی سوچ کارفرماتھی ‘جس کا مظاہرہ گزشتہ مہینے دیکھنے کو ملا۔
میری کم علمی سمجھ لیجئے کہ صوبائی سیکرٹریٹ کبھی جانے کا سوچجھا ہی نہیں‘ لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے ایک صوبائی وزیر سے اپنے قصبے کے مسائل پر بات کرنے کیلئے پنجاب سیکرٹریٹ جانے کا اتفاق ہوا تو صدر دروازے پر ہی بتا دیا گیا کہ یہاں حاکم بیٹھتے ہیں اور عوا م کے نمائندے ‘جنہیں وزراء کہہ کر پکارا جاتا ہے‘ ان کے دفاتر اب‘ سیکرٹریٹ کی حدود سے باہر نکال کر انہیں پیپلز ہائوس کی پرانی بلڈنگ سے ملحقہ گرائونڈ میں بٹھا دیا گیا ہے۔ وجہ پوچھی تو متعلقہ وزیر مجھے ساتھ لیے ایک اور وزیر کے کمرے میں پہنچے اور وہ صوبائی وزیر تو گویا پہلے سے ہی آگ بگولہ ہوئے بیٹھے تھے۔ میرے اس سوال پر پھٹ پڑے کہ یہ تومیاں شہباز شریف نے اپنے دو رکے ہی نہیں‘ بلکہ ہر آنے والے وزیر کے ساتھ مذاق کیا ہے کہ ''سیکرٹری اندر اور وزیر باہر‘‘ یعنی وزیر با تدبیر کو کسی فائل کی ضرورت آ جائے‘ تو اس کیلئے اسے چل کرخود سیکرٹری صاحب کے پاس سیکرٹریٹ جانا پڑتا ہے‘ کیونکہ ہر فائل اور ریکارڈ انہی کے قبضے اور لاکر کے اندر ہوتا ہے اور یہ سن کر تو ہم ششدر رہ گئے کہ ان تمام وزراء کوکبھی کبھی تو سیکرٹری صاحب سے وقت لینا پڑتا ہے کہ کب ان کے پاس آ کر حاضری دیں۔
صوبائی وزیر کہہ رہے تھے کہ وہ کام جو اپنے سابقہ دفاتر میں بیٹھ کر شہباز دور سے پہلے والے وزراء چند منٹ میں مکمل کر لیا کرتے تھے‘ اب ا س کیلئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر آپ میڈیا والے ہمارے لتے لینا شروع ہو جاتے ہیں کہ وزیر صاحب فائل کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں۔کوئی کام ہی نہیں کرتے‘ کسی کا مسئلہ ہی حل نہیں کرتے‘ سائلوں کی سنتے ہی نہیں‘ وغیرہم ۔یوں وزیر اعظم عمران خان کے وژن کو بہت نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ان کے ووٹروں کو ان سے بد دل کیا جا رہا ہے۔ ان وزراء کی گفتگو کہہ لیں یا دُکھڑا سمجھ لیں‘ سنتے ہوئے اچانک خیال آ یا کہ آج کل خبریں گرم ہیں کہ پولیس کا تمام کنٹرول بھی اب اسی ''بیوروکریسی‘‘ کے سپرد کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ تو ایسے لگا کہ جیسے کسی نے بڑے ہی ماہرانہ طریقے سے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے بدلہ لینے کا پروگرام بنا لیا ہے‘ کیونکہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ دس برس سے رائے ونڈ کے تمام رتن ہی چاروں جانب چھائے ہوئے ہیں ‘جس اینٹ کو بھی اکھاڑیں‘ اس کے اندر سے فواد احمد ہی نکلتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی کو سیاسی خود کشی کاا تنا ہی شوق ہے‘ تو پولیس کو بھی بیوروکریسی کی ماتحتی میں دے دیجئے‘ لیکن یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی آنکھوں کے سرجن سے ہڈیوں کا علاج شروع کروا لیا جائے۔
یہ درست ہے کہ پولیس تھانوں میں زیر تفتیش ملزمان کی آئے دن ہلاکتوں نے پوری قوم کو خون کے آنسو رولادیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر کسی نے اس ظلم پر دکھ کا اظہار کیا‘ لیکن اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ محکمہ پولیس کو براہ راست انتظامیہ‘ یعنی بیوروکریسی کی ماتحتی میں دے دیا جائے۔ یہ تو ایسا ہی ہو گاکہ '' آسمان سے گرنے والوں کو کھجور پر اٹکانے کی تیاریاں ہورہی ہیں‘‘۔ ہمارے دوست رئوف کلاسرا بیوروکریسی کے ان شاہکاروں کو اپنے ٹی وی پروگراموں اور کالموں میں ہمیشہ '' زکوٹا جن‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں‘ تو کیا پورے پاکستان کے بعد پولیس بھی ان کے حوالے کرنے کی تیاریاں واقعی ہی سچ ہیں؟
وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ کیا محکمہ تعلیم کے زیر کنٹرول پرائمری سکول کے ا ستاد سے یونیورسٹی کے پروفیسر تک سب اپنے فرائض تن دہی اور بغیر کسی رشوت اور سفارش کے انجام دے رہے ہیں؟کیا ٹیکنیکل بورڈز سے کر تعلیمی بورڈ ز کے سربراہان سے ان کے ماتحت ایک عام اہلکار تک سب خوف خدا رکھتے ہوئے عوام کا خیال رکھ رہے ہیں؟ کیا محکمہ مال کا تمام گند صاف ہو چکا؟ پٹواری سے تحصیلدار اور رجسٹرار تک ہر ایک نے اپنا قبلہ سیدھا کرتے ہوئے ہر سائل کو فرد سے لے کر خریدو و فروخت کے مراحل بغیر کسی رشوت اور کمیشن کے انجام دینے شروع کر دیئے ہیں؟کیا زرعی ترقیاتی بینک سے قرضہ کے کاغذات کی تصدیق کردہ فائل مفت میں تیار کر کے کی جا رہی ہے؟ کیا زرعی بینک کے اہلکار اپنا کمیشن وصول کئے بغیر کسانوں کو بیج‘ کھاد اور ٹریکٹر کیلئے قرض دینے کی خدمت کر رہے ہیں؟کیا محکمہ انہار کا پٹواری اور اس کے افسران سمیت تمام عملہ خدمت خلق کو اپنا ایمان سمجھ رہا ہے؟کیا ان کے تمام ٹھیکے صاف اور شفاف ہو چکے ؟ سوشل سیکورٹی اور محکمہ لیبر ویلفیئر کسی بھی صنعت کار‘ فیکٹریوں‘ دکانوں اور ایک عام درجے کے درزی خانوں‘ گوداموں اور چھوٹے چھوٹے دفاتر تک سے ماہانہ رشوت لینا بند کر چکے ؟کیا وہ مزدوروں کیلئے اپنے دروازے بغیر کسی لالچ کے کھول چکے ہیں؟کیا وفاقی اور صوبائی تمام محکموں میں رشوت اور کمیشن ختم ہو چکی ہے ؟کیا بجلی پیدا کرنے والی اور اسے تقسیم کرنے والے تمام بورڈز اور کمپنیاں سدھر چکی ہیں؟ گیس سے لے کر بجلی کی فراہمی‘ ٹرانس فارمر کی تنصیب‘ نیا کنکشن‘ میٹروں اور ان کے بلوں کی ہیرا پھیری‘ کسٹم اور ایف بی آر کے دفاتر سے نکلنے والے ان کی بے مثال کار کردگی پر مسرت کے شادیانے بجا رہے ہیں؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چند روز قبل جوڈیشل افسران اور عدالتی عملہ سمیت پولیس اور انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ بد عنوانی کا راستہ چھوڑدیں۔ چیف جسٹس صاحب کے خیالات اور اب تک کی کوششیں خوش کن ہیں‘ لیکن اگر اُچٹتی سی نگاہ ڈالی جائے‘ تو حالات پہلے سے بھی بد تر ہیں‘ کہیں بھی بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ پولیس‘ انتظامیہ کو اور انتظامیہ ‘پولیس کو مورد ِالزام ٹھہرا کر اپنا اپنا دامن بچا نے میں لگی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کی بار بار اپیلوں کے باوجودماتحت عدلیہ سے بھی عوام کو شکایات میں کمی نہیں آ رہی۔سیا سی حکومتیں‘ پولیس کے معاملات میں مداخلت سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتیں اور اس سے نظام میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں‘ اس کا سارا الزام پولیس کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ ہماری پولیس یقینا نیک نام نہیں‘ مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ معاشرے میں جرائم پیشہ عنا صر سے نمٹنے اور معاشرتی امن قائم رکھنے کا سب سے اہم ادارہ یہی ہے۔ اس کی مسلسل مذمت سے قیامِ امن میں کوئی مدد نہیں مل سکتی‘ تاہم اسے تنقید سے مسلسل استثنیٰ بھی نہیں دیا جا سکتا ہے۔
میڈیا اور عدالتوں کو محض پولیس ہی نہیں ‘بلکہ قیام امن کی ذمہ داری میں شریک دوسرے اداروں کی خامیوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اکثر ہوتا یہ ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ جرائم کے ارتکاب میں ملوث ہونے کی شہرت پاکر دوسرے ایسے عنا صر کی پردہ پوشی کے لیے ڈھال بن جاتا ہے‘ جن کی جرائم کی دنیا سے وابستگی بھی کچھ کم نہیںہوتی۔ جرائم پر قابو پانے میں ناکامی کی ذمہ دار محض پولیس ہی نہیں‘ بلکہ عدلیہ‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور دوسرے تمام ادارے بھی ہیں۔