تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     03-10-2019

جنگ کی بازگشت

اگرچہ پاکستان اس وقت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی ریاست کے ظلم وجبر سے نجات دلانے کی خاطر تمام تر پُرامن اورسفارتی طور طریقوں کو بروکار لانے کی کوشش میں سرگرم ہے‘ لیکن تاحال اسے دنیائے انسانیت کے ضمیر کو جگانے اورمظلوم کشمیریوں کیلئے عالمی برادری کی اخلاقی حمایت حاصل کرنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ اگرصورت حال یہی رہی ‘تو نہ چاہتے ہوئے بھی حالات کا جبر ہماری ریاست کوکشمیری مسلمانوں کے انسانی وسیاسی حقوق کی بحالی کیلئے تصادم کی طرف دھکیل دے گا۔ہرچند کہ دنیائے مغرب کے اہل ِدانش اکیسویں صدی کو انسان کی صدی قرار دے کر اس کے سارے وسائل اوراجتماعی دانش کو انسانیت کی فلاح کیلئے وقف رکھنے کیلئے متفق ہیں‘ مگر افسوس کے بقائے باہمی کے اس ابدی اصول کو تسلیم کر لینے کے باوجود بھی کرۂ ارض پر انسان آج جس قدر دکھی دکھائی دیتا ہے‘ پہلے کبھی نہ تھا۔دنیا کی مہذب اقوام نے نیوملینیم کی ابتداء افغانستان پہ آتش و آہن کی بارش سے کی اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں دو مملکتوں؛افغانستان اور عراق کو بربادکرنے کی خاطر آٹھ کھرب ڈالرخرچ کر کے لاکھوں بے گناہ مردوں‘عورتوں اور بچوںکا خون بہایا۔دوسرے عشرہ میں مملکتِ شام کی اینٹ سے اینٹ بجا کے ہزاروں انسانوں کو خانہ جنگی کا ایندھن بنانے کے علاوہ لاکھوں عورتوں‘بچوںاور بوڑھوںکو نقل مکانی کی کلفتوں کے حوالے کردیا۔
گویا ‘ پوری دنیائے مغرب کے اجتماعی وسائل‘فلاح کی بجائے‘انسان کی تباہی و بربادی پہ صرف ہوئے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم اور دنیا کے اجتماعی وسائل کے غلط استعمال پہ بحث کیوں نہیں کرتیں؟ہرچند کہ جنگ‘جہاں‘جتنی اور جیسی بھی ہو‘ وہ اپنی فطرت میں انسانی معاشروں پہ حاوی بے حسی اوراستحصالی طبقات کی گرفت توڑنے کا وسیلہ بنی‘ لہٰذا شرف ِآدمیت کا تقاضا یہی رہا ہے کہ جب کسی گروہ انسانی کیلئے آئینی و قانونی طریقوں سے اپنے جائز حقوق کی بازیابی ممکن نہ رہے اور دنیا کے تمام نظام ہائے عدل‘ مظلوموں کوانصاف دلانے میں ناکام ہو جائیں تو مجبور لوگوںکیلئے ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا فرض بن جاتا ہے۔
کشمیر سمیت مسلم آبادیوں سے پھوٹنے والی مزاحمتی تحریکیں اپنوں کی مصلحت کوشی اورعالمی طاقتوں کی ناانصافیوں کا فطری ردعمل ہیں۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے‘جب کمزورگروہوں نے طاقتوروں کے ظلم کے خلاف مزاحمت کا علم اٹھایا اور لازوال قربانیوں کے ذریعے اپنے لیے عزت سے جینے کا حق حاصل کرلیا۔فی الوقت ہمارا مخمصہ بھی یہی ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کے علاوہ آزاد کشمیر میں بسنے والے کشمیری زیادہ دیر تک لائن آف کنٹرول کے اُس پار‘مقبوضہ کشمیر میں‘بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کے مصائب سے لاتعلق نہیں رہ سکیں گے۔اگر قوم پرست کشمیری جماعتوں کی انگیخت پر ہزاروں افراد نے لائن آف کنڑول کی جانب پیشقدمی کی تو یہاں ایسا ہولناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے‘جو دونوں مملکتوں کوجنگ کی دلدل میں دھکیل دے گا۔یہ امر نہایت واضح ہے کہ کسی کیلئے بھی غیر محدود وقت کیلئے صورت حال کو جوں کا توں رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔جبر کی یہ کیفیت‘ اگر جلد تحلیل نہ ہوئی تو دونوں ملکوںکے لیے مشکلات کی دیواریں مزید بلند ہو جائیں گی۔ہماری ریاست کو یہ حقیقت بھانپ لینی چاہیے کہ کشمیر کے ساتھ ہماری وفاداری ہر شک و شبہ سے بالاتر سہی ‘لیکن لمبی مدت کیلئے لوگ مصائب کی اس لہر کو برداشت نہیں کرپائیں گے۔انسانی دکھوں کی سنگینی بہت جلد ہمیں اُس حد تک جانے پہ مجبور کر دے گی‘جس سے بچنے کی خاطر ہمارے وزیراعظم عمران خان ‘ عالمی رہنماؤں اور ریاستوں سے کشمیر میں مداخلت کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ہماری ریاستی مشنری کی پہلی ترجیح سفارتی مساعی کے ذریعے کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا ہونی چاہیے‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وقت قیامت کی چال چل چکا۔ اب‘ کشمیر کے بارے میں ہمارے نیک ارادے وقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔ہمیں اس فیصلہ کن معرکہ کی تیاری کرنا ہو گی‘ جس کا سامنا کرنے کی آرزو ہم مدت سے پالتے رہے ۔مزید تاخیر کے نتائج مہیب اور زیادہ پُر خطر ہو سکتے ہیں۔آئی ٹی ٹیکنالوجی کے اس برق رفتار عہد میں ہر لحظہ جنوبی ایشیا کی بدلتی تزویرات اور تیزی سے تبدیل ہوتا دنیا کا نقطہ نظرہمیں لمبے عرصہ تک ان حالات میں رہنے کی مہلت نہیں دے سکتا۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان ہنگامی حالات میں انڈیا کا سفارتی اثر و رسوخ ہماری امن آفرین سوچوںکی راہ میں حائل رہے گا‘یعنی اس مرحلہ پر ہماری سفارتی کوششیں کشمیریوں کے دکھوں کا ازالہ نہیں کر پائیں گی۔ہرچند کہ مغربی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے دو ایٹمی طاقتوں میںجنگ کے امکانات کو مسترد کر دیا‘ لیکن انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ وہ ایک کروڑ کشمیری مسلمانوں کی خاطر ہر حد عبور کرنے کو تیارہیں‘ لیکن دنیا کی بے رحم خاموشی میں ہمارے لیے ایک پیغام پنہاں ‘ ہے ‘ جسے سمجھنا ہو گا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطبات سے قبل‘دیار ِغیر میں پاکستانی اور انڈین قیادت کے مابین ابھرنے والی سفارتی رسہ کشی نے ڈپلومیسی کی وہ نفیس حدیں عبور کر لیں‘جو‘اگر‘مگر اور چونکہ؛ چنانچہ کے ہر مرحلہ سے اپنے لیے واپس پلٹنے کی راہ بنا لیتی تھی۔یواین جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے خیالات سے ہویدا غیر معمولی اضطراب سے پتا چلتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک ملک جنگ کا تہیہ کئے بیٹھا ہے۔
اگر ہم پلٹ کے ماضی میں جھانکیں تودوسری جنگ عظیم سے قبل جرمن قیادت کے لب ولہجہ میں انتقام کی تلخی اور نسلی عصبیت کی ایسی ہی آتش فشانی چھلکتی نظر آتی تھی‘ جیسی اس وقت نریندرمودی کی سوچ اور گفتگوکا محور ہے۔1923ء میں ہٹلر جب جیل میں تھا تو اس نے اپنی جدوجہد اور سیاسی منشور پہ مشتمل کتاب'' My Struggle‘‘ لکھی‘ جس کی پہلی جلد 1924ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے فسٹ ورلڈ وار کے دوران جرمنی کی شکست کے اسباب پہ بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ ''دنیا بھر کی مقتدر ریاستیں اور مہذب حکمران‘ قومی مفاد کی آڑ لے کر جھوٹ بولتے ہیں‘وہ دنیائے انسانیت کے علاوہ خود اپنے عوام کو بھی دھوکہ دینے میں عار محسوس نہیں کرتے‘ لیکن ہم دنیا اور قوم کے ساتھ سچ بولیں گے‘‘۔ایڈوولف ہٹلر نے لکھا کہ '' یہودی اگر پیٹھ میں چھرا نہ گھونپتے تو جرمن یہ جنگ(پہلی جنگ عظیم)کبھی نہ ہارتے؛چنانچہ عظیم قوم بننے کی خاطر یہودیوں کو جرمنی سے نکال کے وطن کے غداروں کا قلع قمع کرنا ہو گا‘‘۔سیاست کا یہی نظریہ انہیں دوسری عالمی جنگ کی طرف لے گیا‘جس نے خود جرمنی اور اس کے اتحادیوں سمیت برطانیہ اور یورپ کو برباد کرڈالا۔ہٹلر کی مانند نریندر مودی بھی ہندوستانی تاریخ کی توضیح مسلمانوں کے ماضی‘حال و مستقبل کے حوالے سے کرتے ہیں‘وہ برصغیر کے مسلمان کو دشمن اور پاکستان کو اکھنڈ بھارت کے خواب کی تعبیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ اور مودی کی مسلم انتہا پسندی اوراسلامی دہشت گردی کے محور میں گھومتی یہی مشترکہ سوچ کسی بڑی جنگ کی غماض ہے ‘یعنی یہ دونوں مسلمانوں ہی کو اپنی نفرتوں کا ہدف بنانے پہ متفق ہیں۔امریکہ اور بھارت کی واضح پوزیشن کے باوجود بدقسمتی سے ہماری توقعات کا محور اب بھی امریکہ ہے‘ہم افغان تنازع کی اس دلدل سے ابھی نکل نہیں پائے‘ جس میں عظیم دوست امریکہ نے ہمیں پھنسایا‘ لیکن ہم ہیں کہ تنازع کشمیر پر ثالثی کی خاطرایک بار پھراسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved