تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     04-10-2019

دھرنے کی سیاست اور تاریخ

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی حکومتیں گرانے کیلئے ہڑتال‘ لانگ مارچ‘ پہیہ جام ‘ شٹرڈاؤن ‘یہ سب طریقے اور حربے چلے آرہے ہیں اورپاکستان میں احتجاجی تحریکوں اور لانگ مارچ کے ذریعے حکومتیں گرانے کا تناسب تقریباً سو فیصد رہاہے۔اگر کسی وجہ سے احتجاج کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کا فوری مثبت نتیجہ نہ بھی آئے‘ تو اس کی بنیاد ضرور رکھی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ حکومت کمزور سے کمزور ہوتی جاتی ہے‘ امور مملکت پر اس کی رِٹ ڈھیلی پڑتی چلی جاتی ہے اور نتیجتاًجلد یا بدیر حکمرانوں کو گھر جانا پڑتا ہے۔تاہم جاری عشرے میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکومت گرانے کیلئے جدید سہولتوں سے آراستہ آرام دہ کنٹینر میں بیٹھ اور لیٹ کر آنے اورمحض دھرنا دینے کا نیا تصور پیش کیا‘ جسے بعد میں موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھی اختیار کیا۔ 
پاکستان کی مختصر سیاسی تاریخ میں حکومت گرانے‘ حکمرانوں کو گھر بھیجنے یا پھر انہیں کمزور کرنے کی بنیاد رکھنے کے تمام ماڈلز آزمائے جاچکے ہیں اور نتائج بھی مثبت رہے ہیں۔حکومتیں گرانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے یہ کام مقتدر حلقوں کی مدد سے بھی کئے ہیں اور اپنی مدد آپ اور محض عوامی قوت کے بل بوتے پر بھی۔تاہم مقتدر حلقوں کی مدد کے بغیر کامیابی کے نتائج کا تناسب انتہائی کم رہا ہے اور یہ ماضی بعید کے واقعات ہیں۔اَسی کی دہائی کے بعد پاور پلیئرز کی منشا و مدد کے بغیر ایسی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکی۔ بعض اوقات ایسا بھی نہیں ہوتا کہ تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں پھل بھی انہیں ملیں جنہوں نے بیج بویا ہو۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ تیار فصل کوئی اور لے اْڑتا ہے اور عوام کو متحرک کرنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کو ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا‘ لیکن جاتے جاتے وہ اقتدار جنرل یحییٰ خان کو دے گئے اور پھر جو ہوا وہ ایک الگ داستان ہے۔مذہبی بنیادوں پر 1953ء کی ناکام اور 1974ء کی کامیاب تحریک ختم نبوت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک بھی دینی و سیاسی جماعتوں کے اتحاد'' پاکستان قومی اتحاد ‘‘نے چلائی تھی‘ لیکن ساری کی ساری تیار فصل جنرل محمد ضیا الحق لے اُڑے اور پی این اے کے نو ستارے‘ مرحومین مولانا مفتی محمود‘ مولانا شاہ احمد نورانی ‘ائیر ماشل اصغر خان اور دیگر دیکھتے رہ گئے ‘ اقتدار کا رسیلہ پھل چکھنا انہیں نصیب نہ ہوا۔تاہم 1989ء سے 1993ء تک کے دوران میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے باری باری پاور پلیئرز سے مل کر ہڑتالوں‘ شٹر ڈاؤن اور لانگ مارچ کے ذریعے ایک دوسرے کی حکومتیں گرائیں اور معاہدے کے تحت اورپاور شیئر نگ کے تحت اقتدار حاصل کیا۔جنرل پرویز مشرف نے جب سرخ لائنیں عبور کیں توان کے اقتدار کو گْل کرنے کیلئے ایک اچھوتا تصور‘ چیف جسٹس افتخار چوہدری ماڈل تیار کیا گیا‘جو قدرے طویل مدت تک پھیل گیااور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل اور آصف زرداری کے آنے سے کئی بار نشیب و فراز کا شکار ہوا۔ اقتدار تو پیپلز پارٹی کو مل گیا‘ لیکن زرداری صاحب افتخار چوہدری کو بحال کرنے سے مسلسل انکاری رہے اور معاملات سکرپٹ رائٹرز کے ہاتھوں سے متعدد بار نکلتے ہوئے نظر آئے۔ بالآخر میاں نواز شریف کی خدمات حاصل کی گئیںاور جنرل کیانی کی مضبوط اور پختہ یقین دہانی کے بعد افتخار چوہدری بحالی تحریک کیلئے لانگ مارچ لاہور سے نکلااورقافلے کو گوجرانوالہ میں پڑاؤ ڈالنے کا کہا گیا۔میاں نواز شریف نتائج کے بارے میں اتنے پُر یقین تھے کہ وہ خرم دستگیر کے گھر پر گوجرانوالہ کے کھابوں کے مزے لوٹ رہے تھے‘ جبکہ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی حکومت کے خاتمے کے اعلان کا انتظار کیا جارہا تھا۔سول انٹیلی جنس ادارے آئی بی کے اُس وقت کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل وزیراعظم ہاؤس جاتے ہیں اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ہنگامی ملاقات کرتے ہیں‘انہیں معلومات کی روشنی میں مشورہ دیتے ہیں کہ افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے‘ ضد اور اَنا پی پی پی کے اقتدار کو لے ڈوبے گی‘ اس لئے لانگ مارچ کے اسلام آباد آنے سے پہلے پہلے ججوں کو بحال کردیا جائے۔دوسری جانب آصف زرداری جسٹس سردار رضا کے ساتھ انہیں چیف جسٹس بنانے کا وعدہ کر چکے تھے۔ 
وزیرعظم گیلانی نے ڈاکٹر شعیب سڈل کی رائے سے اتفاق کیا اور بتایا کہ وہ بھی ججوں کو بحال کرنے کے حق میں ہیںاور ایسا نہ کرنے کے نتائج سے بخوبی آگا ہ ہیں‘ لیکن صدر زرداری اَڑے ہوئے ہیں۔وزیراعظم گیلانی نے بتایا کہ زرداری کو منانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ‘ وہ افتخار چوہدری کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ڈاکٹر شعیب سڈل نے وزیراعظم گیلانی کو تجویز دی کہ وہ ایک اور کوشش کرکے دیکھیں۔گیلانی نے زرداری سے رابطہ کرنے سے انکار کردیا اور مشورہ دیا کہ وہ براہ راست زرداری سے رابطہ کرکے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کریں۔ڈاکٹر شعیب سڈل وزیراعظم ہاؤس سے ہی ایوان صدر فون کرتے ہیں اور صدر زرداری سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ دیر بعد ایوان صدر سے مثبت جواب آتا ہے اورڈاکٹر شعیب سڈل وہاں پہنچتے ہیں۔ ایوان صدر میں مکمل سناٹا ہے۔ راہداریوں میں بھی کم بتیاں روشن ہیں۔ وہ صدر زرداری کے بیڈروم میں پہنچتے ہیں۔ کمرے کے اندر کا ماحول بھی سخت ڈپریشن کا ہے۔صدر اکیلے بیٹھے ہیں۔ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سڈل انہیں معاملے کی سنگینی سے قدرے نرم لہجے میں آگاہ کرتے ہیں اور افتخار چوہدری کو بحال نہ کرنے کی صورت میں اقتدار سے محرومی کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔صدر زرداری ڈاکٹر سڈل سے سوال جواب کرتے ہیں اور صورت حال سے آگاہی کیلئے ڈاکٹر سڈل کو اچھی طرح کھنگالتے ہیں۔پھرکمرے میں ایک لمبی خاموشی‘ مکمل سناٹا ‘ہْو کا عالم۔آئی بی چیف کبھی صدر زرداری کو دیکھتے ہیں‘ کبھی اپنے آپ کو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سڈل کے چہرے پر مایوسی نمایاں ہے۔اچانک صدر زرداری لب کشائی کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہوہ اگر ججوں کو بحال کر دیتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ لانگ مارچ اسلام آباد نہیں آئے گا۔''وہ‘‘ کیا کہتے ہیں؟ڈاکٹر سڈل کی جان میں جان آتی ہے اور گفتگو کا سلسلہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر سڈل مزید کہتے ہیں : شہباز حکومت کی بحالی اور گورنر راج کے خاتمے کا اعلان بھی کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر سڈل وزیرعظم گیلانی کو اچھی خبر دیتے ہیں اور ججوں کی بحالی کی صورت میں صدر زرداری کی طرف سے گارنٹی حاصل کرنے کی خواہش بیان کرتے ہیں۔وزیراعظم گیلانی لمحہ ضائع کئے بغیر جنرل کیا نی سے فون پر بات کرتے ہیں اور حکومت کی طرف سے ججوں کو بحال کرنے کے مشروط فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں‘ ساتھ ہی گارنٹی مانگتے ہیں۔ جنرل کیانی انہیں کہتے ہیں کہ حکومت فیصلہ کرے‘ باقی کی فکر نہ کرے۔ گویا ضمانت دی جارہی تھی۔جنرل کیانی دوسرے فون سے گوجرانوالہ میں چوہدری اعتزاز احسن سے رابطہ کرتے ہیں اور اچھی خبر دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف سے بھی جنرل کیانی بات کرتے ہیں۔ 
ڈاکٹر سڈل وزیرعظم ہاؤس آتے ہیں اور وزیرعظم علی الصبح ججوں کی بحالی کا باقاعدہ اعلان کردیتے ہیں۔گوجرانوالہ اور چیف جسٹس ہاؤس میں جشن فتح منایا جاتا ہے اور لانگ مارچ کا مقصد پورا ہونے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ جنرل مشرف کو ہٹانے سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اہم کردار افتخار چوہدری کو ان کا حصہ ملنے پر اختتام پذیر ہوا‘اور اگر اب تک کسی کو کچھ نہیں ملا تو وہ ایک ممتاز قانون ہیں ۔
آخری دھرنا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کا تھا۔ڈاکٹر قادری ماڈل ٹاؤن کے سانحہ کے متاثرین کیلئے انصاف لینے اور عمران خان انتخابات میں دھاندلی کا حساب کرنے آئے تھے۔پاور پلیئرز نظارہ کررہے تھے۔ (باقی صفحہ 11 پر)
عمران خان نواز شریف سے اور علامہ طاہرالقادری شہباز شریف سے استعفیٰ مانگ رہے تھے۔پارلیمان کی تمام جماعتیں بشمول اپوزیشن کی جماعتیں دھرنے کے مقابلے میں متحد ہوگئیں۔لاٹھی چارج ہوا‘ گولی چلی ‘لاشیں بھی گریں‘پارلیمنٹ اور پی ٹی وی میں توڑ پھوڑ بھی ہوئی‘ لیکن منجھے ہوئے سیاسی پنڈت ڈٹ گئے۔ جنرل راحیل شریف کو براہ راست آنا پڑا۔ علامہ اور عمران کی ملاقات ہوتی ہے‘ جنرل راحیل شریف کو علامہ قادری اقتدار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں‘ جنرل راحیل انکار کرتے ہیںاور ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے اور شہباز شریف کے استعفیٰ کی پیشکش کرتے ہیں‘لیکن بات نہیں بنتی‘ مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں اور علامہ صاحب کو کچھ دنوں کے بعد دھرنا سمیٹنا پڑتا ہے۔ 
عمران خان اور جنرل راحیل شریف کے مذاکرات بھی ناکام ہوتے ہیں اور عمران خان دھرنا جاری رکھتے ہیںاور پھر سانحہ اے پی ایس کے بعد دھرنا ختم کردیتے ہیں۔دونوں جماعتوں کو فوری طور پر کچھ نہیں ملتا‘ تاہم حکومت کی بنیادیں ضرور ہل جاتی ہیں۔ پاور پلیئرز کی منقسم سوچ نے وقتی طور پر نواز حکومت کو بچا لیا‘ لیکن دھرنا اپنے دور رس اثرات ضرور چھوڑ گیا‘ جس کے آفٹر شاکس تاحال آرہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے بھی اب دھرنے کا اعلان کردیا ہے اور مسلم لیگ (ن )اور پیپلزپارٹی کی تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے 27اکتوبر کی تاریخ دے دی ہے۔مسلم لیگ( ن) اور پی پی پی نومبر تک مؤخر کرنے پر مُصر ہیں‘شاید ان کے پاس ایسی کوئی اطلاع ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے سے پہلے کوئی ایک پلیئر غیر معمولی فیصلہ کرسکتا ہے۔اس اہم فیصلے اور اس اہم وقت کا انتظار کرنا چاہیے ‘لیکن مولانا کچھ سننے کو تیار نہیں ۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بہت سے فارمولے گردش کررہے ہیں‘لیکن کوئی بھی حتمی شکل اختیار نہیں کر پارہا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خان صاحب کے تاریخی خطاب نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے اور افغان طالبان اور زخمی خلیل زاد بھی اسلام آباد میں موجود ہیں۔خطے میں اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں‘اس لئے کوئی حتمی تحریر معرض وجود میں نہیں آرہیاور اْلجھی لَٹ سْلجھ نہیں رہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved