مخلوق کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے اور یہ اعزاز قدرت ہر کسی کو عطا نہیں کرتی۔ ربِّ کائنات یہ اعزاز انہیں بندوں کو عطا کرتا ہے جنہیں وہ اس کام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ گورننس جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے‘ وہاں اتنا ہی بڑا امتحان بھی ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کو بھی قدرت نے گورننس کے یکے بعد دیگرے کئی مواقع عطا کیے۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں ہوتی اور خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دینے پر آمادہ ہے‘ اور اس مہلت کو غنیمت اور نعمتِ خداوندی سمجھ کر اپنے طرزِ حکمرانی اور معاملات پر نظرِ ثانی کرتے رہنا چاہیے۔ کہیں کوئی بھول چوک یا خطا سرزَد تو نہیں ہو گئی؟ جس مقصد کے لیے انہیں قدرت نے منتخب کیا ہے‘ وہ مقصد کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب رہے؟
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی اُس نے اس عطا کو اپنی استادی، مہارت اور اہلیت سے ہی منسوب کر ڈالا‘ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی اَدا کا ''چمتکار‘‘ ہے‘ حالانکہ گورننس کی عطا نہ تو کسی کی مہارت ہے اور نہ ہی کسی کی اہلیت۔ یہ تو بس قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ وہ جس کو بھی عطا کرے۔ خطا دَر خطا کے باوجود مہلت کا میسر رہنا یقینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ ہمارے سبھی حکمرانوں کو یہ عطا اور مسلسل مہلت کثرت سے میسر آتی رہی ہے۔ جوں جوں یہ معجزے اور مواقع انہیں میسر آتے رہے‘ توں توں یہ سارے بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ کبھی جُھرلو تو کبھی دھاندلی۔ کبھی ڈنڈی تو کبھی ڈنڈا۔ کبھی صفائی تو کبھی صفایا‘ حتیٰ کہ بیلٹ کو بُلٹ سے منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ حصولِ اقتدار سے لے کر طرزِ حکمرانی تک‘ یہ سبھی نظارے چشمِ فلک نے کثرت سے دیکھے ہیں۔
کیا اِن حکمرانوں سے یہ پوچھا جانا عین منطقی نہیں کہ جس کام کی تکمیل کے لیے یہ حکمرانی تمہیں عطا کی جب وہ ہی نہ ہو سکا تو یہ ساری مراعات، عزت افزائی، شکم سامانیاں، کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک، تام جھام اور آنیاں جانیاں کس کھاتے میں ہیں؟ ان سب کو کس طرح ''حلال‘‘ قرار دو گے؟ اِن سے یہ پوچھنے میں بھی حرج نہیں کہ جس انتظامی قابلیت کا ڈھول بجاتے رہے ہو وہ کہاں رہ گئی؟ وہ علمی اور تکنیکی مہارت کیا ہوئی، جس کا ڈنکا صبح شام بجایا جاتا تھا۔ وہ اُمیدیں جو عوام لگائے بیٹھے تھے کیوں پوری نہ ہو سکیں؟ وہ خواب عوام کو کیوں دِکھائے گئے‘ جن کی تعبیر کی راہ تکتے تکتے اُن کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ کیا یہی ہے تمہاری گورننس؟ کیا اسی لیے قدرت نے تمہیں عوام پر مسلط کیا ہے؟ وہ نتائج برآمد کیوں نہ ہو سکے؟ جس کی آس عوام لگائے بیٹھے ہیں۔
سچ کو جاننے، ماننے اور تسلیم کیے بغیر اَب کام نہیں چلے گا۔ سچ کیا ہے؟ وہ سچ یہی ہے کہ آدمی‘ آدمی کو کیا دے گا؟ جو بھی دے گا‘ وہی خدا دے گا۔ اِن زمینی خداؤں نے عوام کو کیا دینا ہے اور یہ دے بھی کیا سکتے ہیں؟ بوئے سلطانی کے مارے یہ حکمران کنبہ پروری اور بندہ پروری کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اِن کی اپنی پوری نہیں پڑ پا رہی۔ ایسے میں یہ عوام کو کیا دے سکتے ہیں؟ گورننس اور میرٹ سے مشروط اداروں میں جب حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین کا دور دورہ ہو تو کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟
صورتحال یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی سے نالاں ارکانِ اسمبلی بھی اپنی ہی انصاف سرکار کے خلاف پھٹ پڑے ہیں۔ جبکہ ایک رُکن اسمبلی تو اپنی حکومت کی گورننس کا رونا روتے روتے خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رو ہی پڑا۔ جب حکومتی ارکانِ اسمبلی مایوس ہوکر خود رو پڑیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بے کس اور لاچار عوام کی حالتِ زار کیا ہوگی۔ اس عوام کے شب و روز کیسے گزرتے ہوں گے؟ اس رُکنِ اسمبلی کو حلقے میں کس عوامی ردِّعمل اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا جو عوام کی حالتِ زار اور جوابدہی کے خوف سے ہی رو پڑا۔ اکثر ارکانِ اسمبلی تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ اس انصاف سرکارنے تو ہماری سیاست کا جنازہ ہی نکال دیا۔ اس طرزِ حکمرانی نے تو ہمیں اس قابلِ ہی نہیں چھوڑا کہ عوام کا سامنا کر سکیں اور آئندہ کسی الیکشن میں ووٹ مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آسمان کو چھوتی قیمتوںکی وجہ سے عوام کی پہنچ سے باہر نکلتی اشیائے ضروریہ، گرانی، بچوں کی گمشدگی اور ان سے درندگی کے واقعات کے علاوہ ڈینگی سے متاثرہ مریضوں سے بھرے ہسپتال اور ہلاکتوں سمیت دیگر بدانتظامیوں پر پھٹ پڑنے والے حکومتی ارکانِ اسمبلی اور بعض وزرا کی مایوسی دیکھ کر صاف لگتا ہے‘ یہ حکومت گورننس کی اہلیت اور استطاعت سے محروم ہے۔ عوام کی آس اور اُمید کا قتل کرنے والے نہ تو کوئی فیصلہ عوام کے حق میں کر سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی فلاح کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اب جو کرنا ہے اس قدرت ہی کو کرنا ہے جس نے ان حکمرانوں کو گورننس عطا تو کی، لیکن وہ اس عطا کو اپنی ہی کوئی اَدا سمجھ بیٹھے ہیں اور مسلسل خطا در خطا کیے چلے جارہے ہیں اور صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ: ؎
آدمی، آدمی کو کیا دے گا
جو بھی دے گا وہی خدا دے گا
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
کیا میرے حق میں فیصلہ دے گا
جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریر کا ''ہینگ اوور‘‘ جاری ہے۔ یہ ہینگ اوور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی باڈی لینگوئج میں بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ وزیروں اور مشیروں کی کارکردگی کو لے کر ''فری ہینڈ‘‘ کے طلب گار ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ جو کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا۔ کام نہ کرنے والے کو گھر ضرور جانا چاہیے بلکہ اسے اَب تک گھر بھیج دینا چاہیے تھا۔ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ وزرا کی کارکردگی مانیٹر کرنے والے وزیر اعلیٰ کی خود اپنی کارکردگی اور ویژن تاحال نامعلوم ہے اور رہا سوال گورننس کا تو یہ اُن کے بس کی بات معلوم ہی نہیں ہوتی۔
بزدار سرکار کی گورننس اور میرٹ کا تازہ ترین نمونہ ملتان کے چلڈرن ہسپتال میں دیکھنے کو ملا۔ مبینہ طورپر بزدار سرکار کی ایم پی اے سبین گل کی شکایت پر ڈی ایم ایس کو معطل کر دیا گیا ہے۔ گردش کرتی جو خبریں سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق حکومتی ایم پی اے محض اس لیے سیخ پا ہو گئیں کہ ان کی بیٹی کو چیک کرنے والی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ نے ایم پی اے سے یہ سوال کیوں پوچھا کہ آپ کی بیٹی کی کیس ہسٹری کیا ہے؟ ایم پی اے کا مؤقف تھا کہ تمہارے ایم ایس نے تمہیں پہلے سے کیوں نہیں بتایا کہ میری بیٹی کا مرض اور مسئلہ کیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اور ایم پی اے کے درمیان یہ گفتگو سُن کر پروٹوکول پر موجود ڈی ایم ایس نے مداخلت کی اور ایم پی اے صاحبہ کو بتایا کہ یہ ذمہ داری آپ کی ہے کہ اپنی بیٹی کی تکلیف اور کیس ہسٹری بتائیں‘ یہ ہمارا یا ایم ایس کا کام نہیں کہ آپ سے معلوم کرکے پھر ڈاکٹر کو مطلع کریں۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر مذکورہ ایم پی اے برہم ہو گئیں جس کے نتیجے میں بزدار سرکار حرکت میں آگئی اور یوں ڈی ایم ایس معطل ہو گئے جبکہ لیڈی ڈاکٹر کو شوکاز نوٹس جاری ہو گیا۔ادھر ایم پی اے صاحبہ میڈیا کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ رابطہ کرنے پر ان کا موبائل فون بند ملا۔
ایک ایم پی اے کی شکایت پر ڈی ایم ایس کو معطل کرنے والی بزدار سرکار سے عرض ہے کہ جس توجہ اور جلال کا مظاہرہ انہوں نے اپنی ایم پی اے صاحبہ کی شکایت پر کیا‘ اگر اس کا چند فیصد مظاہرہ غریب اور لاچار عوام کے لیے بھی کر ڈالیں تو ہسپتالوں میں ذلت، دھتکار، پھٹکار اور بے بسی کے مناظر شاید کچھ کم ہو سکیں۔ بہرحال شدید عوامی ردِّ عمل اور مزاحمت کے بعد سپیشل بابوؤں کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹس لے لیا گیا ہے۔ بزدار سرکار نے صوبائی اسمبلی سے مشاورت کیے بغیر مخصوص گروپ کے 1700 افسران کو ان کی بنیادی جاری تنخواہ میں 150 فیصد اضافے کی منظوری دی تھی۔ اینٹی کرپشن قوانین میں مخصوص بابوؤں کو مقدس گائے قرار دینے سے لے کر ارکانِ اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے فیصلے سمیت ایسے ہی کئی فیصلے حکومت شدید عوامی ردِّعمل اور مزاحمت کے بعد کرکے واپس لے چکی ہے۔ گویا انصاف سرکارکی سُبکی اور پسپائی کا سفر جاری ہے۔