عوام نواز لیگ کی طرف دیکھ رہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام نواز لیگ کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ اور سخت غصے میں ہیں کہ اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے‘ خود تو جگہ بہ جگہ اثاثے بنا لیے ہیں اور ہماری حالت یہ کر دی ہے کہ دو وقت کی روٹی کا محتاج کر دیا ہے اور اب ایک بار پھر ہمارے سر پر سوار ہونے کی سوچ رہی ہے‘ کہیں نظر آ جائے تو کچا ہی چبا جائیں‘ لیکن ہمارے غصے کا نشانہ بننے سے اس لئے بچی ہوئی ہے کہ اس کے کرتا دھرتا یا تو جیل میں ہیں یاحکومتی تحویل میں ہیں‘ کیا حکومت ان سب کو ایک دن کے لئے رہا نہیں کر سکتی؟ تاکہ اس سے گن گن کر بدلے لے سکیں! اب‘ ان کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس تو ضبط ہو رہے ہیں‘ لیکن اس سے بھی ہمارا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ بس‘ ایک دن کے لیے انہیں ہمارے سپرد کر دیں‘ چھٹی کا دودھ نہ یاد دلا دیا تو ہمارا نام بھی عوام نہیں اور یہ دن کبھی نہ کبھی تو آنا ہی تھا‘ کیونکہ بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے ‘جبکہ اس کی قربانی بھی واجب ہو چکی ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
فیصلہ کُن مراحل آئیں گے تو سب ساتھ ہوں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''فیصلہ کن مراحل آئیں گے تو سب ساتھ ہوں گے‘‘ لیکن فیصلہ کن مراحل ہیں کہ آنے کا نام تک نہیں لے رہے۔لگتا ہے‘ انہیں کسی نے راستے میں ہی روکا ہوا ہے‘ اس لئے پہلے ان کا راستہ صاف کرنا ہوگا؛ اگرچہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پلّہ نہیں پکڑوا رہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ تماشہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ مارچ کے دوران حکومت میرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ حالانکہ اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا مقصد صرف اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہے‘ جو کسی اور طریقے سے نہیں ہو سکتا اور یہ جو پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں ‘یہ بھوک کی وجہ سے نہیں ‘بلکہ محض جذبات ہیں ‘جو پیٹ میں بل کھا رہے ہیں‘ اگرچہ جذبات کو کسی اور جگہ ہونا چاہیے‘ لیکن ملک عزیز میں پہلے ہی کوئی چیز اپنی جگہ پر موجود نہیں ۔ آپ اگلے ن لیگ کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
دھاندلی زدہ حکومت کو گھر جانا پڑے گا: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''دھاندلی زدہ حکومت کو گھر جانا پڑے گا‘‘ اگرچہ یہ ہمارے کہنے سے توگھر نہیں جائے گی‘ اسے خود ہی ہمارے جذبات کا کچھ خیال کرنا چاہیے ‘کیونکہ ہم تو صرف بد دُعائیں ہی دے سکتے ہیں ‘ورنہ مارچ وغیرہ میں شامل ہو کر‘ جو تھوڑا بہت بھرم باقی ہے‘ وہ بھی گنوا بیٹھیں گے‘ کیونکہ سندھ کی جو صورت حال ہے کہ اربوں روپوں کا پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں گئے؟ بلکہ ان کی واپسی کے تقاضے ہو رہے ہیں؛ حالانکہ گئے وقت کی طرح ‘گیا پیسہ بھی ہاتھ نہیں آتا‘ تاہم ہم نے یہ کہہ کر حکومت کو لاجواب کر دیا ہے کہ گرفتار ہو جانے کے بعد بھی مراد علی شاہ ہی وزیراعلیٰ رہیں گے‘ جس طرح ہمارے سپیکر صاحب گرفتار بھی ہیں اور سپیکری بھی کر رہے ہیں‘ اس طرح والد صاحب بھی جیل میں ہونے کے باوجود شریک چیئرمین ہیں اور میرے پکڑے جانے کے بعد بھی میری چیئرمینی کو کوئی خطرہ نہیں کہ جس کی قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے ‘کوئی اس سے چھین نہیں سکتا۔ آپ اگلے روز جاتلاں میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پورے ملک میں مایوسی کے سائے چھائے ہوئے ہیں: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''اس وقت پورے ملک میں مایوسی کے سائے چھائے ہوئے ہیں‘‘ اگرچہ موسم بدل رہا ہے‘ لیکن دھوپ بھی تک تیز ہے‘ اس لئے ان سایوں کو غنیمت سمجھنا چاہیے‘ تاہم ابھی یہ سائے مزید گہرے ہوں گے‘ کیونکہ تایا جان اپنی ضد چھوڑ ہی نہیں رہے؛ حالانکہ والد صاحب بھی اُنہیں سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پیسے اگر واپس کر بھی دیئے تو اس کا فائدہ اُن کی بجائے والد صاحب کو پہنچے گا اور ایسا لگتا ہے کہ جیل میں پرہیزی کھانا ‘یعنی آلو شورہ پی پی کر اُن کی عقل صحیح طور پر کام نہیں کر رہی‘ ورنہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیسوں کی واپسی کے بعد بھی نااہلی باقی رہے گی اور عمر کا باقی حصہ بھی وہی بسر کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر ؔطالب کی شاعری:
نہ کسی سے حساب کرتا ہوں
نہ سوال و جواب کرتا ہوں
اُس نے بھی خود کو روک رکھا ہے
میں بھی کچھ اجتناب کرتا ہوں
وصل کے کارِ خیر کا بھی اب
ہجر میں ارتکاب کرتا ہوں
سبھی کچھ آپ ہی نہیں کرتے
کچھ تو میں بھی جناب کرتا ہوں
اسے بھی وہ گناہ کہتے ہیں
میں جو کارِ ثواب کرتا ہوں
یہ کیسا خواب ہے جو ٹوٹتا نہیں ہے کبھی
یہ کیسی نیند ہے جس سے کوئی جگاتا نہیں
جنہیں اٹھانا تھا اُن کو گرایا جا رہا ہے
جنہیں گرانا تھا اُن کو بچایا جا رہا ہے
سبھی کو دعویٰ ہے لیکن خبر کسی کو نہیں
کہ اس نظام کو کیسے چلایا جا رہا ہے
عجیب لوگ ہیں جس کو ہُنر جو آتا نہیں
یہاں وہ کام اُسی سے کرایا جا رہا ہے
ضمیرؔ میں نے لگانا ہے اُس کو پیچھے کبھی
یہ راستہ جو ابھی آگے جایا جا رہا ہے
آج کا مطلع
اپنی محنت اپنے خون پسینے والی
کہاں گئی وہ صرف مرنڈا پینے والی