تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-10-2019

نبض شناس…( 2)

انسان اکثر اپنی جہالت کی وجہ سے دوسروں کے ہاتھوں بے وقوف بنتا ہے ۔ نبض شناس حضرات اس کی ایک عمدہ مثال ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں ‘ جو آپ کی نبض محسوس کر کے آپ کو لاحق تمام بیماریوں کے بارے میں قطعیت کے ساتھ بتا سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عقل اور منطق کسی طرح بھی ان کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتی کہ دل کی دھڑکن کی آواز جو کہ کلائی میں آکر نبض بن جاتی ہے ‘ اس میں مختلف بیماریوں کے بارے میں کوئی ایسے اشارے موجود ہوں ۔ جاپانیوں سمیت‘ جن قوموں کی عمریں میڈیکل سائنس کی وجہ سے 90 برس کو چھونے لگیں ‘ وہاں بھی آپ کو نبض میں سے یہ قیمتی اشارے ڈھونڈنے والے نہیں ملیں گے ۔ نبض دل کی دھڑکن ہے ۔اس میں ایسی کوئی انفارمیشن ہرگز موجود نہیں ہوتی ‘ جس کی مدد سے کینسر اور شوگر جیسی بیماریوں کی تشخیص ہو سکے ۔ نبض محسوس کر کے بیماری کی تشخیص کرنا‘ اگر ممکن ہوتا تو دنیا بھر میں بڑی بڑی لیبارٹریز کی جگہ ایک ایک نباض بیٹھا بیماریوں کی تشخیص کر رہا ہوتا۔انتہائی sophisticatedمشینیں ایجاد کی جاتیں اور نہ مریض ان میں سے گزارے جاتے ۔
جتنے بھی علوم مفید ہوتے ہیں ‘ ہمیشہ وہ باقی رہتے اور آگے بڑھتے ہیں ۔ انہیں سائنٹیفک بنیادوں پر بار بار ثابت کیاجا سکتاہے ‘ جب کہ جو علوم غلطیوں سے بھرپور ہوتے ہیں ‘ جنہیں سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا‘ وہ بالآخر متروک ہو جاتے ہیں ۔ نبض شناسی انہی میں شمار ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ میں نبض شناسی کی بات کر رہا ہوں ‘ حکمت کی نہیں ! 
لوگ نبض شناسی کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ جو کہ ایک مضحکہ خیز بات ہے ۔ چلئے ‘ آئیے مذہب کی روشنی میں بات کر لیتے ہیں ۔ رسالت مآبؐ نے گھوڑے پر بیٹھ کر تلوار سے جنگ کی۔ آج دنیا کے کس اسلامی ملک کی فوج گھوڑے اور تلوار استعمال کر رہی ہے ؟ نئی ٹیکنالوجی آنے کے بعد اگر آپ کی فوج گھوڑوں اورتلواروں کی مدد سے لڑے گی تو دشمن کا ایک ہی سپاہی آپ کے ہزاروں جوانوں کو بھون کے رکھ دے گا۔ اسی طرح رسالت مآبؐ نے گھوڑے پر طویل سفر طے فرمائے۔ آج کتنے لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر؛ حتیٰ کہ مکہ سے مدینہ کا سفر گھوڑے پرطے کرتے ہیں ؟ الٹرا سائونڈ‘ ایکو‘ ایکسرے ‘ اینڈو سکوپی‘ اور مختلف لہروں کی مدد سے جب آپ اپنے جسم کے اندر جھانک سکتے ہیں تو کیوں نہ جھانکیں ‘ بجائے اپنے آپ کو ایک میٹرک فیل کے سپرد کر دینے کے ؟اسی طرح جب سے جراثیم کش ادویات ایجاد ہوئی ہیں ‘ جراثیم میں ان کے خلاف خاصی قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے ۔ اب ‘یہ جراثیم آپ کو نسبتاً آسانی سے مار سکتے ہیں۔ ادھر آپ ہیں کہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔ 
کچھ نبض شناسوں کا چیلنج ہے کہ میں ان سے اپنی نبض چیک کروائوں ۔ میں یہ چیلنج قبول کرتا ہوں ‘لیکن گول مول تجزیے کی بجائے اعداد و شمار درکار ہوں گے۔ میری نبض محسوس کر کے اگر کوئی میرے خون میں شوگر‘ سیرم کیلشیم اور سیرم فاسفورس کی مقدار بتا دے تومیں پچاس ہزار روپے اسے انعام دوں گا۔ اب بات ‘چونکہ فگر کی آگئی ہے ‘ اس لیے کوئی بھی یہ چیلنج قبول نہیں کرے گا۔ وہ کہیں گے کہ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ شوگر ہے یا نہیں ۔ یہ نہیں بتا سکتے کہ خون میں اس وقت شوگر کی مقدار کتنی ہے ۔ تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر آپ مقدار نہیں بتا سکتے تو پھر آپ کے اس علم کا فائدہ کیا ؟ یوں بھی پچاس فیصد امکان یہ ہے کہ ایک بندے کو ذیابیطس ہے اور پچاس فیصد نہیں ۔ اب آپ کو جو شخص فربہ اندام نظر آئے اور اس کی عمر چالیس برس سے زیادہ ہواور وہ جسمانی مشقت بھی نہ کرتا ہو‘ تونوے فیصد امکان تو یہی ہے کہ اسے یہ بیماری لاحق ہوگی ۔
نبض دیکھ کر بیماری بتانا ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک شخص کپڑوں کا رنگ دیکھ کر آپ کے بچوں کی تعداد بتا دے ۔ ظاہر ہے کہ کسی اور ذریعے سے اس تک یہ اطلاع پہنچائی گئی ہے ۔عوام سے بھی اپیل یہ ہے کہ جو شخص نبض شناسی کا دعویٰ کرے‘ اسے کہیں کہ شوگر کی مقدار بتا ئیے‘ بجائے گول مول باتوں کے ۔ ہاں ‘ البتہ ایک صورت ہو سکتی ہے کہ ایک شخص پر اللہ نے کشف کا دروازہ کھول رکھا ہے تو وہ پوشیدہ چیزوں کو بغیر آلات کے جان سکتاہے‘ لیکن ایسا شخص کبھی بھی مطب کھول کر نہیں بیٹھے گا ۔ نہ ہی وہ لوگوں کو غیر ضروری طور پر یہ بتائے گا کہ میرے پاس پوشیدہ چیزوں کا علم ہے ۔صاحب ِ کشف لاکھوں میں ایک ہی ہو سکتاہے ۔ یہاں تو ہر گلی میں دو نباض گھسے ہوئے ہیں ۔ 
انسانی ذہن ہمیشہ ایسے لوگوں کے سامنے خوف کا شکار رہتاہے ‘ جن کے بارے میں اسے ذرا سا بھی شبہ ہو کہ وہ راز کی باتیں جانتے ہیں ۔ ٹی وی میں کام کرنے والی ایک محترمہ یاد آتی ہیں ۔ایک روز اچانک انہوں نے اعلان کیا کہ میں نے علم نجوم کا کاروبار بھی شروع کر لیا ہے ۔ ایک روز وہ لوگوں کو ستاروں کی روشنی میں ان کی شخصیت کے بارے میں بتا رہی تھیں ۔یہ گول مول سی باتیں تھیں ‘ جو کہ آبزرویشن اور اندازوں پر مشتمل تھیں ۔ ایک ایکٹر کو انہوں نے بتایا کہ آپ دوستوں کو تحائف بہت دیتے ہیں ۔ اب‘ وہ لوگوں کے سامنے کیا کہے کہ میں تحائف نہیں دیتا؟ ایک خاتون سے انہوں نے کہا کہ آپ چلتے چلتے اکثر slipہو جاتی ہیں ۔ یہ بھی آبزرویشن تھی ۔ کوئی شخص بھی ان محترمہ سے یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ کل تک آپ ہمارے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھایا کرتی تھیں ۔ اب یکایک یہ علمِ نجوم کہاں سے آپ پر نازل ہو گیا۔ وجہ ؟ انسان کے اندرگہرائی تک اترا ہوا‘ پراسرار باتوں کا خوف۔ 
ایک قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک حکیم صاحب نے ان کی اور ان کے دوست کی نبض محسوس کی۔ بتایا کہ آپ کے muscles کمزور ہیں اور آپ کے دوست کے جگر میں گرمی ہے۔ بعد ازاں یہ دعوے میڈیکل سائنس کی روشنی میں درست ثابت ہوئے ۔ وہ اس طرح کہ کرکٹ کھیلتے ہوئے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔کسی ڈاکٹر نے کہا کہ پٹھے (Muscles)کمزور نہ ہوتے تو ہڈی نہ ٹوٹتی ۔ پہلی با ت تو یہ ہے کہ جس چوٹ کو ہڈی برداشت نہیں کر پائی ‘ اسے مسلز نے کیا برداشت کرنا تھا۔مسلز صرف سپورٹ کر سکتے ہیں ۔ ایک خاص اینگل سے جب چوٹ ہڈی پہ پڑتی ہے تو انسان کا اپنا وزن ہی اس کی ہڈی توڑ نے کے لیے کافی ہوتاہے ۔ میرا ایک دوست پھسل کر گرا تو اس کے اپنے ہی وزن سے اس کا بازو ٹوٹ گیا تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جگر کی گرمی اور پٹھوں یا muscles کی کمزوری ‘ یہ مبہم statementsہیں اور آدھی سے زیادہ آبادی پر لاگو ہو سکتے ہیں ۔ میں اگر ایک شخص سے کہوں کہ اس کے مسلز کمزور ہیں تو وہ کیسے ثابت کرے کہ ایسا نہیں ہے ۔ اوپر سے اگر اس کے ذہن میں یہ خوف ہو کہ مجھے پوشیدہ چیزوں کا علم ہے ۔
یہ بے کار باتیں ہیں ۔ جس دن نباض آپ کی نبض محسوس کر کے آپ کے خون میںشوگراور کیلشیم وغیرہ کی مقدار بتانے کے قابل ہو گئے ‘ اس دن دنیا انہیں سنجیدہ لے گی لیکن وہ دن آ کبھی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ ان کے علم کی بنیاد پختہ سائنٹفک اصولوں کی بجائے اٹکل پچو کی ہوا میں معلق ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved