تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-10-2019

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

برسوں پرانی بات ہے‘ میں اپنے ایک دوست کے پاس اس کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ میرا یہ دوست تب لاہور کا ڈپٹی کمشنر تھا اور یہ دفتر لوئر مال پر واقع ہے۔ باتوں ہی باتوں میں لاہور کے سنٹرل ماڈل سکول کا ذکر چل نکلا۔ کیا شاندار سکول تھا؟ کیسی درخشاں روایات تھیں اور کیسا سنہرا منظر نامہ‘ جب لوگ باگ اس سکول میں اپنے بچے کے داخلے کو باقاعدہ ''تحفہ‘‘ سمجھتے تھے۔ تب کوئی بچہ سنٹرل ماڈل سکول میں داخل ہو جاتا تھا تو اس کے ماں باپ بالکل ویسی ہی خوشی محسوس کرتے تھے جیسی آج کل ماں باپ اپنے بچے کو کسی اعلیٰ رینک کی امریکی، آسٹریلین یا برطانوی یونیورسٹی میں داخلہ ملنے پر محسوس کرتے ہیں۔ سنٹرل ماڈل سکول میں داخلے سے محروم رہ جانے والوں کی حسرت قابل دید ہوتی تھی اور پھر داخلے کے لیے ''براستہ بٹھنڈہ‘‘ والی کاوشیں قابل دید ہوتی تھیں۔ ڈی پی آئی، ڈائریکٹر سکولز اور سیکرٹری تعلیم وغیرہ کی سفارش ڈھونڈی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ لوگ ڈپٹی کمشنر وغیرہ سے بھی کہلواتے تھے؛ تاہم اس قسم کے داخلوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہوتی تھی۔ تبھی اس سکول کا نام بھی روشن تھا اور کام بھی اونچا تھا۔ پھر اس سکول کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہماری سوسائٹی میں سب اداروں کے ساتھ ہوا۔ سفارش، آرام طلبی، سرکاری سکولوں کی سرپرستی سے محرومی، چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی بربادی اور سرکار سے کام نہ کرنے کے عوض تنخواہ لینے کے کلچر نے سارے سرکاری سکولوں کا بیڑہ غرق کر دیا۔ سنٹرل ماڈل سکول کون سا مریخ پر واقع تھا۔ اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو سب کے ساتھ ہوا؛ تاہم ایک روشن ستارے کا ماند پڑ جانا زیادہ دکھ کا باعث بنتا ہے‘ سو یہ روشن ستارہ بھی بجھ گیا۔
ڈپٹی کمشنر صاحب نے اپنے دفتر کی پچھلی جانب والی کھڑکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس کھڑکی کے پیچھے عدالتیں ہیں اور ان کے پیچھے سنٹرل ماڈل سکول ہے‘ لاہور کا سب سے روشن روایات کا حامل سکول۔ اس سکول کے طلبہ میں کیا کیا نام تھے‘ ملک معراج خالد، جسٹس (ر) خلیل الرحمان رمدے، جسٹس (ر) جاوید اقبال، جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ، ایئر چیف مارشل (ر) سہیل امان، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، مولانا طارق جمیل، رمیز حسن راجہ، خالد عباس ڈار اور بہت سے اور لوگ جن کے بارے میں مجھے معلوم نہیں‘ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد درجنوں یا سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں میں ہے۔ 1883ء میں مڈل سکول کے طور پر قائم ہونے والا یہ سکول 1888ء میں ہائی سکول کے درجے تک اپ گریڈکر دیا گیا۔ بچوں کی تعداد زیادہ ہونے پر 1891ء میں اسے پرانی بلڈنگ سے‘ جو سنٹرل ٹریننگ کالج میں تھی‘ نئی عمارت میں شفٹ کر دیا گیا۔ تب سے یہ سکول اسی عمارت میں ہے۔ اسے قائم ہوئے قریب 136 سال ہو گئے ہیں۔ ملتان کا پائیلٹ سیکنڈری سکول اس سے تقریباً تین سال بعد قائم ہوا۔ آج پائیلٹ سیکنڈری سکول ملتان کو قائم ہوئے 133 سال ہو چکے ہیں۔ ابا جی مرحوم نے میٹرک پائیلٹ سیکنڈری سکول ملتان سے کیا تھا۔
ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس سکول کا المیہ بیان کرنا شروع کر دیا اور سارا ملبہ سکول انتظامیہ پر، اساتذہ پر، سفارش کے کلچر پر اور حادثاتی طور پر استاد بننے والی ٹیچرز کمیونٹی پر ڈال دیا۔ میں سنتا رہا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: برادر عزیز! یہ بتائو تمہارے بچے کس سکول میں پڑھتے ہیں؟ اس نے ایک مشہور انگلش میڈیم سکولوں کی چین کا نام لیا۔ میں زور سے ہنس پڑا۔ اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگا: بھلا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ میں نے کہا: ہنسنے کی واقعی کوئی بات نہیں، دراصل یہ رونے کی بات ہے جس پر میں غلطی سے ہنس پڑا ہوں۔ وہ پھر پوچھنے لگا: چلو ہنسنے کی بات چھوڑو، یہ بتائو یہ رونے والی بات کہاں سے آ گئی؟ میں نے کہا: دراصل اس سکول کے تعلیمی انحطاط کے، اس سکول کی بربادی کے اور اس نامور سکول کے تحت الثریٰ میں گرنے کی وجہ آپ لوگ ہو اور اس کا سارا ملبہ حسب معمول دوسروں پر ڈال رہے ہو۔ پاکستان میں یہ رواج عام ہے کہ اپنی خرابیوں، کوتاہیوں اور نالائقیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال دو۔ کیا سیاستدان، کیا بیوروکریسی اور کیا دوسرے ادارے۔ سب کا یہی کام ہے کہ اپنی غلطی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالو اور اپنی جان چھڑوا لو۔ اگر آپ کا بچہ آج اس سکول میں پڑھ رہا ہوتا تو اس کا معیار بھی وہی ہوتا جو اس سکول کا ہے، جہاں آج آپ کا بچہ زیر تعلیم ہے۔ جب تک آپ لوگوں کے بچے ان سرکاری سکولوں میں پڑھتے رہے‘ آپ لوگ ان سکولوں کی سرپرستی کرتے رہے۔ ان سکولوں کو مانیٹر کرتے رہے۔ ان سکولوں کے تعلیمی معیار کے بارے میں فکر مند بھی رہے اور ان کی بہتری کے لیے کوشاں بھی رہے۔ آخر آپ کے بچوں کے طفیل آپ کی اگلی نسل کا مستقبل ان سکولوں سے وابستہ تھا۔ جیسے ہی آپ لوگوں نے اپنے بچوں کو ان سکولوں سے نکالا اور ''لش پش‘‘ والے انگریزی میڈیم سکولوں میں داخل کروانا شروع کیا‘ سرکاری سکولوں کے بارے میں آپ کا سارا کنسرن ہی ختم ہو گیا۔ ملنا جلنا ختم ہو تو رشتہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ ادارے کیا چیز ہیں؟ آپ کی سرپرستی ختم ہوئی، آپ کی فکر مندی رخصت ہوئی، آپ کی ان سکولوں سے اپنائیت اختتام کو پہنچی، آپ کا ان سکولوں سے رشتہ منقطع ہوا‘ یہ سکول لاوارث اور یتیم ہو گئے۔ حال خراب ہو گیا‘ تعلیمی معیار برباد ہو گیا، عمارتیں تباہ ہو گئیں، میرٹ ختم ہو گیا، اچھے طالبعلم آنا بند ہو گئے۔ آج آپ اپنے دفتر کے عقب میں واقع اس تاریخی اور نابغہ سکول سے مکمل لا تعلق ہیں۔ آپ کا اس سکول سے کوئی رشتہ نہیں، کوئی واسطہ نہیں، کوئی قلبی تعلق نہیں۔ آپ صرف مگر مچھ والے آنسو بہا رہے ہو۔ اس دکھ سے آپ کا کوئی ذاتی واسطہ یا لینا دینا نہیں ہے۔ محض قوم کا درد محسوس کرنے کا ڈرامہ کر رہے ہو۔ اگر درد ہوتا، ہمدردی ہوتی، کوئی تعلق ہوتا تو یہ سکول اس طرح تباہ نہ ہو گئے ہوتے۔ آج سرکار یہ حکم جاری کر دے کہ کسی سرکاری افسر‘ خواہ وہ کمشنر ہو یا ڈپٹی کمشنر، چیف سیکرٹری ہو یا ڈائریکٹر سکولز‘ کے بچے سرکاری سکول کے علاوہ کہیں اور داخلہ نہیں لے سکتے تو تم دیکھو گے کہ انہی سکولوں کا معیار پھر سے کس طرح بلند ہوتا ہے۔ ان میں داخلے کے لیے دوبارہ سے کیسی دوڑ لگتی ہے اور یہ سکول کس طرح سے اپنی ماضی کی روایات کو زندہ کرتے ہیں۔ میرا دوست ادھر اُدھر کی مارنے لگ گیا۔ اس کے پاس میرے سوال کا کوئی منطقی جواب نہیں تھا۔
گزشتہ دنوں مجھے ایک میل آئی۔ یہ کسی پروفیسر کی تھی۔ ملتان کے گورنمنٹ کالج آف سائنس کے کسی استاد نے درد دل کا حال بیان کیا تھا۔ ملتان کا یہ تعلیمی ادارہ بڑے شاندار ماضی کا حامل ہے۔ جب میں گورنمنٹ ایمرسن کالج میں پڑھتا تھا تب یہ کالج صرف اور صرف سائنس کی تعلیم کے لیے مختص تھا۔ ایف ایس سی اور بی ایس سی کی کلاسز اس کالج میں لگتی تھیں۔ آرٹس کے طلبہ کی تعلیم کا کم از کم اس وقت اس کالج میں کوئی بندوبست نہیں تھا۔ تب خواجہ اظہر صاحب جو نہایت ہی شاندار استاد، منتظم اور ماہر تعلیم تھے اس ادارے کے پرنسپل تھے۔ ایسے پروفیسر بھی اب عنقا ہو گئے ہیں۔ کالج میں جائیں تو ایسی خاموشی اور ویرانی سی کہ لگتا تھا کہ کالج میں چھٹی ہے۔ صرف پیریڈ کے تبدیل ہونے پر چہل پہل مچتی تھی وگرنہ سو فیصد لڑکے کلاسوں میں ہوتے تھے۔ میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں اس کالج کے بہت سے لڑکے داخلہ حاصل کرتے تھے۔ آج یہ عالم ہے کہ کوئی اچھے نمبروں والا طالب علم اس ادارے میں داخلہ لینے نہیں آتا۔ اس کالج کے ایک پروفیسر نے اس المیے پر میل بھیجی ہے کہ آج وہ بطور پروفیسر شرمندہ ہے۔ (باقی صفحہ 11 پر)
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: آج میں بطور پروفیسر شرمندہ ہوں۔ گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان، ملتان شہر کا تدریس، روایات، تقریبات اور نظم و ضبط کے اعتبار سے اعلیٰ معیار کا حامل سرکاری ادارہ ہے۔ ملتان شہر میں بوائز اور گرلز کالج کی تعداد پندرہ سے زائد ہے۔ کالج پروفیسرز کی تعداد پندرہ سو سے زائد ہے۔ بہت سے پروفیسرز کے بیٹوں نے اس سال میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے۔ لیکن ایک پروفیسر کے بیٹے نے میرے کالج میں داخلہ فارم جمع نہیں کروایا۔ میں نے خود تمام داخلہ فارمز کو چیک کیا۔ عجیب منافقت ہے نوکری سرکاری کالج کی سب سے اچھی لیکن اپنے بچوں کے لیے سرکاری کالج ناپسند۔ ہم سب پروفیسرز نے انہی کالجز میں تعلیم حاصل کی۔ چار ہزار روپے سالانہ فیس کی جگہ ایک لاکھ سالانہ فیس بھرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر پرائیویٹ کالجز میں تدریس بہتر ہے تو کیا ہم بد دیانت ہیں؟ اگر وہاں ٹیسٹ سسٹم اور نظم و ضبط بہتر ہے تو کیا ہم مجرمانہ غفلت اور خیانت کر رہے ہیں؟ پرائیویٹ کالجز میں داخلہ سٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے۔ سرکاری کالجز کے پروفیسرز کا اپنے ادارے پر عدم اعتماد اپنے کولیگز کی قابلیت اور دیانت پر زناٹے کا طمانچہ ہے۔ مجھے دکھ ہے میں معاشرے کا اعتماد پہلے ہی کھو چکا ہوں، اب میں اپنے ساتھی پروفیسرز کا اعتماد بھی کھو چکا ہوں۔ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف...
میرا خیال ہے اس مختصر سی میل نے ہمارے سارے سرکاری تعلیمی نظام کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا ہے اور ظاہر ہے پوسٹ مارٹم مردے کا کیا جاتا ہے زندہ کا نہیں۔
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: آج میں بطور پروفیسر شرمندہ ہوں۔ گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان، ملتان شہر کا تدریس، روایات، تقریبات اور نظم و ضبط کے اعتبار سے اعلیٰ معیار کا حامل سرکاری ادارہ ہے۔ ملتان شہر میں بوائز اور گرلز کالج کی تعداد پندرہ سے زائد ہے۔ کالج پروفیسرز کی تعداد پندرہ سو سے زائد ہے۔ بہت سے پروفیسرز کے بیٹوں نے اس سال میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے۔ لیکن ایک پروفیسر کے بیٹے نے میرے کالج میں داخلہ فارم جمع نہیں کروایا۔ میں نے خود تمام داخلہ فارمز کو چیک کیا۔ عجیب منافقت ہے نوکری سرکاری کالج کی سب سے اچھی لیکن اپنے بچوں کے لیے سرکاری کالج ناپسند۔ ہم سب پروفیسرز نے انہی کالجز میں تعلیم حاصل کی۔ چار ہزار روپے سالانہ فیس کی جگہ ایک لاکھ سالانہ فیس بھرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر پرائیویٹ کالجز میں تدریس بہتر ہے تو کیا ہم بد دیانت ہیں؟ اگر وہاں ٹیسٹ سسٹم اور نظم و ضبط بہتر ہے تو کیا ہم مجرمانہ غفلت اور خیانت کر رہے ہیں؟ پرائیویٹ کالجز میں داخلہ سٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے۔ سرکاری کالجز کے پروفیسرز کا اپنے ادارے پر عدم اعتماد اپنے کولیگز کی قابلیت اور دیانت پر زناٹے کا طمانچہ ہے۔ مجھے دکھ ہے میں معاشرے کا اعتماد پہلے ہی کھو چکا ہوں، اب میں اپنے ساتھی پروفیسرز کا اعتماد بھی کھو چکا ہوں۔ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف...میرا خیال ہے اس مختصر سی میل نے ہمارے سارے سرکاری تعلیمی نظام کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا ہے اور ظاہر ہے پوسٹ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش پر شمالی اور جنوبی کوریا، یا پاکستان اور ہندوستان کو غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کمیٹی پر غور کرنا چاہیے جو ہر سال کسی نامور شخصیت کو امن کا نوبیل انعام دیتی ہے۔ اس لیے کہ امریکہ کے کئی صدر ایسے ہی اعلان پر نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔
مارٹم مردے کا کیا جاتا ہے زندہ کا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved