تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     06-10-2019

بیٹے اور باپ کی کہانی

حضرت مولانا فضل الرحمن نے کہ حضرت مولانا مفتی محمود کے فرزندِ ارجمند اور سیاسی جانشین ہیں، وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ مولانا مفتی محمود مرحوم کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت کے خلاف تحریک کی قیادت کی تھی۔ پیپلز پارٹی اچھی بھلی حکومت کر رہی تھی کہ بھارت میں انتخابات کا اعلان ہو گیا۔ ایک خیال یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی ''عوامی حمیت‘‘ نے گوارا نہ کیا کہ ان کی حریفِ اول تازہ مینڈیٹ لے کر ان کے سامنے آن کھڑی ہو، اور وہ پرانے مینڈیٹ سے دِل بہلاتے ہوئے پائے جائیں، یعنی ان کے مقابلے میں ''رجعت پسند‘‘ قرار پائیں۔ اس لیے انہوں نے بھی انتخابات کا ڈول ڈال دیا۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں مؤثر افراد اپنے ''ہزاروں حامیوں‘‘ کے ساتھ دھڑا دھڑ پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے تھے (یا کرائے جا رہے تھے) اپوزیشن منتشر تھی، اور دو بڑے گروہوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک جانب ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال اور ان کے حامی مولانا نورانی میاں کی جمعیت العلمائے پاکستان تھی، جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ (پگارا) جماعت اسلامی، نیپ کی جگہ لینے والی این ڈی پی، جمعیت العلمائے اسلام اور کئی دوسری جماعتیں تھی۔ ان دونوں میں معانقہ یا مصافحہ تو کیا، اشاروں کنایوں میں رابطہ تک نہیں تھا۔ بظاہر یہ ایک دوسرے سے بیزار تھیں، اور لگتا تھا کہ انہیں آئندہ انتخابات کے دوران ہر حلقے سے موزوں امیدوار بھی نہیں مل سکیں گے کہ روایتی معتبرین جوق در جوق بھٹو صاحب کے ''دستِ اقتدار‘‘ پر بیعت کرتے چلے جا رہے تھے۔ اس لیے فخر ایشیا کی چھٹی، ساتویں اور آٹھویں حس کہ ان کی حسوںکا کوئی شمار نہیں تھا، حرکت میں آئی اور اپوزیشن کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کرنے کے لیے ایک سال پہلے ہی انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ دستور کے مطابق قومی اسمبلی کی مدت 1978ء میں پوری ہونی تھی، اور اسی کو انتخابی سال قرار دیا جا رہا تھا لیکن وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیارات سے فائدہ اٹھا کر بھٹو صاحب نے اسمبلیوں کی مدت ایک سال کم کر کے 1977ء ہی میں اکھاڑے میں اترنے کا فیصلہ کر لیا۔ چاروں صوبوں پر ان کا جھنڈا لہرا رہا تھا، اس لیے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کو روکنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ یوں تازہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے زعم میں مبتلا ''قائد عوام‘‘ نے آپ اپنے کو میدان میں لا اتارا۔ اِدھر یہ ہو رہا تھا، اُدھر یہ ہوا کہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں کرشماتی طور پر ایک ہو گئیں۔ اس اتحاد سے پہلے تحریک استقلال نے امیدواروں سے بذریعہ اخباری اشتہارات درخواستیں طلب کی تھیں، یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا واقعہ تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان اپنی نجی مجلس میں اس پر کبھی مسکرایا اور کبھی قہقہے لگایا کرتے تھے کہ ان کے حریفِ اول ایئر مارشل اصغر خان نے یہ ''بونگی‘‘ ماری تھی، جبکہ تحریک استقلال کے مداح اسے ایئر مارشل کی انفرادیت بتاتے تھے کہ یہاں ٹکٹیں روایتی امیدواروں کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ بہرحال انتخابی مشکلات کا ادراک ہوا تو اپوزیشن کی جماعتوں کو جان کے لالے پڑ گئے، انہیں یوں محسوس ہوا کہ بھٹو اقتدار پر پانچ سال کے لیے پھر مسلط ہو جائے گا اور اپوزیشن کو جو تھوڑی بہت آکسیجن مل رہی ہے، اس میں بھی خلل ڈال دے گا۔ 
پیپلز پارٹی 1970ء کے انتخابات کے بعد متحدہ پاکستان میں عوامی لیگ کے بعد دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری تھی، اسے شیخ مجیب الرحمن کو وزیر اعظم مان کر حزبِ اختلاف کی قیادت سنبھالنا پڑتی۔ پنجاب اور سندھ میں البتہ اس کی حکومتیں بن جاتیں۔ صوبہ سرحد (آج کا خیبر پختونخوا) میں نیپ بڑی جماعت تھی، اس کے ساتھ مسلم لیگ (قیوم خان) اور جمعیت العلمائے اسلام کا نام آتا تھا۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی دو جماعتیں مل کر صوبائی حکومت بنا سکتی تھیں، بلوچستان میں نیپ کے مقابلے میں کوئی طاقت کھڑی کرنا مشکل تھا، جمعیت العلمائے اسلام سے معاملہ ہو جاتا تو گیند اس کی کورٹ ہی میں نہیں جیب میں آ جاتی۔ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی میں دستور پر سمجھوتہ نہ ہو سکا، تو بھٹو صاحب نے جنرل یحییٰ کے پلڑے میں وزن ڈال دیا۔ فوجی کارروائی کے ذریعے ملک بچانے کا اعلان کر کے ملک ڈبونے کا سامان کر ڈالا۔ مشرقی پاکستان کو بھارت کی فوجی مداخلت نے بنگلہ دیش بنا دیا، تو بھٹو صاحب نئے پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر سامنے آئے، اور پاکستانی معیشت کے ساتھ وہ کچھ کر گزرے، جو پہلے سیاست سے کر چکے تھے۔ نئے پاکستان کا آئین البتہ اتفاق رائے سے بنا لیا گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ان کی اسمبلی اکثریت کو معاشرے میں ان کی افرادی اقلیت کا چیلنج درپیش تھا۔ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں کے ووٹ یک جا کیے جاتے تو وہ زیادہ بڑی طاقت بن جانے تھے۔ الگ الگ رہتے تو پیپلز پارٹی مقابلتاً بڑی جماعت بن پاتی۔
1977ء کے انتخاب میں اپوزیشن جماعتوں نے اس نکتے کو پا لیا اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ہر نشست پر مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کر گزریں۔ بھٹو صاحب بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے، انہوں نے حالات سے نبٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کر لی۔ سرکاری مشینری ان کے قبضے میں تھی، اور ان کی بلند و بالا شخصیت کے سامنے کسی کو در خور اعتنا سمجھنے پر تیار نہ تھی۔ افواجِ پاکستان بھی پشت پر تھیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق جیسا تابع فرمان آرمی چیف میسر آ چکا تھا، جو دل و جان سے ان پر فدا تھا، اور اپنی جان سے بڑھ کر ان کی جان کی بلائیں لینے اور سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ و تیار نظر آتا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کا نو رکنی اتحاد وجود میں آیا، تو ایئر مارشل اصغر خان کو اس کی قیادت نہ سونپی جا سکی۔ کہا جاتا ہے‘ خفیہ ہاتھوں نے مولانا مفتی محمود کے سر پر تاج رکھوا دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل مولانا مفتی ہوں گے تو عالمی اور مقامی روشن خیالی بھٹو صاحب کے پیچھے صف بستہ ہو جائے گی۔ عوام کی بھاری تعداد پاکستان کو ''مولوی‘‘ سے بچانے کے لیے متحرک کی جا سکے گی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ''ڈو مور‘‘ نے پانسہ پلٹ دیا۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے (پہلی اور آخری بار) انتخابی صندوقچوں سے پیپلز پارٹی کے56 فیصد ووٹ برآمد کر ڈالے، اپوزیشن بمشکل تین درجن نشستیں حاصل کر پائی، ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کے اس مظاہرے نے انتخابی عمل کو مصنوعی ثابت کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل ضیاء الحق کو بالآخر وزیر اعظم کو ''حفاظتی حصار‘‘ میں لینا پڑا۔ اس کے بعد 11 سال تک جرنیلی نقارہ بجتا رہا۔ پی این اے تتر بتر ہو گئی۔ ایئر مارشل اصغر خان ایک عرصہ نظر بند رہے۔ مولانا مفتی محمود اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پی این اے کے بچے کھچے رہنما ''عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا‘‘ کا راگ دھیمے سروں میں الاپتے رہے۔ بھٹو صاحب اِس دُنیا سے پہلے ہی روانہ کیے جا چکے تھے، پیپلز پارٹی پر جو گزری سو گزری، مخالف رہنمائوں کے خواب بھی ادھورے رہ گئے۔ بیٹے سے باپ تک کی کہانی ضروری نہیں کہ دہرائی جائے، نئے مناظر بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں، بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست میں بے نظیر بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے نعرے سنائی دینے لگے ؎
''خوف‘‘ سے کس کو رُستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
حروفِ تعزیت
چند روز پہلے پاکستان کے ممتاز بزنس گروپ ''حبیب رفیق اینڈ کمپنی‘‘ کے ڈائریکٹر خالد رفیق کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ مرحوم ایک خوش گفتار اور خوش کردار شخص تھے۔ ملنساری اور انکساری کا مرقع۔ ان کی وفات سے پاکستان اپنے ایک درد مند سپوت سے محروم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔
دو روز پہلے ممتاز عالمِ دین مولانا طاہر اشرفی کے سر سے ان کی والدہ ماجدہ کا سایہ اٹھ گیا۔ وہ آناً فاناً راہیٔ ملکِ عدم ہوئیں۔ مرحومہ کی خدمات کا دائرہ وسیع تھا۔ مغلپورہ کے عظیم الشان تبلیغی مرکز کی تعمیر و ترقی میں وہ ہمیشہ سرگرم رہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو روشن رکھے، اور اُن کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved