چند کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو سوچنے کے انداز کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ گاڈ فادر کے مصنف ماریو پزو نے لکھا تھا کہ اگر وہ روسی ادیب دوستووسکی کے عظیم ناول 'برادرز کرامازوف‘ کو نہ پڑھتے تو وہ ادیب نہ ہوتے۔ ہلری کلنٹن سے نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر نے پوچھا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ کوئی کتاب پڑھنی پڑے تو کون سی پڑھیں گی تو جواب تھا: دوستووسکی کا برادرز کرامازوف۔
مجھے خود بھی کچھ کتابوں کے تجربات ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جن کتابوں نے مجھ پر اثر کیا‘ ان میں سے ترک خاتون ناول نگار کا ناول Forty Rules of Love تھا‘ اور دوسری کتاب Strangers in India بھی ہے جو ایک انگریز افسر Penderel Moon نے تقسیم سے پہلے لکھی تھی۔ وہ لندن میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے انڈین سول سروس میں کام کیا۔ وہ بہاولپور میں بڑے عہدے پر فائز رہا۔
یہ دونوں کتابیں آپ کو مختلف انداز میں متاثر کرتی اور دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ مجھے اس ناول کا ایک سین نہی بھولتا جب شمس اپنے مرید رومی کے گھر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے تو اچانک گھر میں شور مچ جاتا ہے۔ شمس باہر نکلتا ہے اور پوچھتا ہے: کیا ماجرا ہے؟ جواب ملا: ایک طوائف آپ سے ملنے آئی ہے۔ ایک طوائف اور رومی جیسے نیک انسان کے گھر کی چھت تلے؟ شمس نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولے: رومی کی گھر کی چھت سے کیا فرق پڑتا ہے‘ پہلے بھی تو ہم سب ایک ہی آسمان کی چھت تلے رہ رہے ہیں۔ یہ ایک جملہ میرے سمجھنے اور سوچنے کے انداز کو ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔
ایک دن شمس‘ رومی کو کہتا ہے‘ میرے لیے جا کر شراب لے آئو۔ پورا شہر رومی کو شراب خانے کے باہر دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ رومی جیسا نیک انسان اور شراب خانے میں؟ شمس کا مقصد رومی کی انا توڑنا تھی کہ وہ خود کو دنیا کا نیک انسان نہ سمجھ بیٹھے۔ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان تھا۔
اسی طرح پی مون کی کتاب پڑھ کر میری ہندوستان یا آج کے پاکستان بارے میں سوچ بہت تبدیل ہوئی۔ یہ کتاب بنیادی طور پر دو گورے افسران کے درمیان 1934 میں ہونے والی طویل گفتگو اور بحث مباحثے پر مشتمل ہے۔ ایک نوجوان گورا افسر Greenlane ایک ایماندار اور آئیڈیلسٹ ہے اور ہندوستان میں ایک اصول، نظریے اور انصاف کے لیے لڑنا چاہتا ہے‘ لیکن ایک مرحلے پر وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سب کچھ بیکار ہے۔ اسے جن باتوں کو بنیاد بنا کر ہندوستان لایا گیا تھا‘ وہ سب جھوٹ تھا‘ فریب تھا۔ طاقتور اب بھی قانون کا بازو مروڑ کر اپنا کام نکال لیتے تھے۔ وہ گوروں کے ہندوستان میں متعارف کرائے گئے جدید قوانین کے خلاف ہے اور حیران ہوتا ہے کہ ہم ایسے قوانین ہندوستان کے معاشرے پر مسلط کرکے کیا حاصل کر لیں گے؟ وہ پی مون سے کہتا ہے: ہم نے جو کریمینل قوانین متعارف کرائے‘ وہ ہندوستان کے معاشرے کے لیے نہیں بنے‘ لہٰذا وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ وہ کہتا ہے: یہ سب قوانین دراصل یورپ اور انگریزوں کے معاشرے کو سامنے رکھ کر بنائے گئے تھے۔ وہ معاشرے مختلف ہیں‘ جہاں ایمانداری کو پسند اور جھوٹ سے نفرت کی جاتی ہے۔ وہاں یہ قوانین کامیاب ہیں‘ جہاں ہر کوئی اپنے آپ کو‘ ضمیر یا معاشرے کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے۔ وہاں لوگ جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں اور جھوٹی گواہی کا تو تصور ہی نہیں ہے لہٰذا یہ قوانین ان معاشروں کو بدلنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہندوستان میں یہ قوانین مسلط کیے بیٹھے ہیں‘ اور خود کو یہ یقین دلائے بیٹھے ہیں کہ وہی نتائج نکلیں گے اور ہندوستانی معاشرہ بھی یورپی معاشروں کی طرح انصاف اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کرے گا۔ اس نوجوان افسر کا کہنا تھا: یہاں ہندوستان میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا کلچر ہے۔ یہاں ہندوستان میں کسی کو کوئی شرمندگی نہیں کہ وہ قرآن، گیتا یا بائبل پر حلف دے کر جھوٹ بول رہا ہے۔ جج کو بھی پتہ ہوتا ہے‘ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ پولیس مقدمے میں جان ڈالنے کے لیے جھوٹے گواہ لے کر آتی ہے۔ مدعی سے لے کر پولیس، اور جج تک سب کو پتہ ہوتا ہے کہ گواہ جھوٹے ہیں لیکن پھر بھی قانون کے تحت جج مجبور ہے کہ وہ بے گناہ ملزم کو پھانسی کی سزا دے کیونکہ مغربی قانون یہی کہتا ہے۔ گورے افسر کا کہنا تھا: کبھی اس قانون کے ساتھ ہندوستانی معاشرہ نہیں بدلے گا کیونکہ یہ سب لوگ جھوٹے ہیں۔ بے گناہ لوگ مرتے رہیں گے، جھوٹے لوگ وکیلوں کو ساتھ ملا کر انصاف لیتے رہے ہیں اور جو جھوٹ کو نہیں خرید سکتے وہ سزائیں پائیں گے۔
آج دیکھ لیں وہی کچھ ہو رہا ہے۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی اور گواہوں کے حوالے سے اہم باتیں کیں کہ کئی مقدمات میں مجرموں کو بری کیا گیا‘ جنہیں ان کے بقول جھوٹی گواہیوں پر موت تک کی سزائیں دی گئی تھیں۔
آپ پوچھیں گے‘ اس انگریز افسر کی آج سے چھیاسی برس قبل ہندوستانی معاشرے پر کی گئی کمنٹری آج کیوں یاد آرہی ہے؟ اس کی وجہ پچھلے دنوں پاکستانی کاروباریوں اور بڑے بڑے سیاستدانوں کی گرفتاریاں اور اس کے بعد ان کے حق میں اٹھنے والی آوازیں ہیں۔ ابھی ان سب بڑے بڑے کاروباریوں نے حکومت سے بہت ساری رعایتیں لی ہیں۔ سب سے بڑی رعایت یہ دی گئی کہ نیب کا کام تقریباً اب ختم سمجھو۔ جو جس کا جی چاہے وہ لوٹ مار کر لے‘ کچھ نہیں کہا جائے گا۔
میں پاکستان میں کرپٹ سیاسی اور بیوروکریٹک ایلیٹ اور بڑے ڈاکوئوں کے حق میں ماتم سنتا ہوں تو مجھے وہ انگریز افسر یاد آتا ہے جو بار بار اپنے افسران سے لڑ رہا تھا کہ یہ تم جو یورپی قوانین یہاں ہندوستان میں مسلط کررہے ہو یہ سود مند نہیں۔ یہ منافق‘ جھوٹے اور احساس کمتری کے شکار لوگوں کا معاشرے ہے۔
یہ احتساب، صاف ستھری سیاسی قیادت، اچھے بیوروکریٹ بھی مغربی تصور ہے۔ یہ یورپ کا تصور ہے کہ سب لوگ برابر ہیں۔ سب کے لیے جرم کی سزا برابر ہے۔ جو جرم برطانوی وزیراعظم کرے گا اور سزا پائے گا تو وہی سزا عام برطانوی بھی پائے گا۔ وہاں یہ نہیں ہوگا کہ برطانوی وزیراعظم کو اس لیے کھلی چھٹی ہے کہ وہ ملک کا وزیراعظم ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کا بھلا ان چیزوں سے کب تعلق تھا؟ ہزاروں سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں کون سے انصاف اور برابری کے لیے ادارے بنے ہوئے تھے‘ جہاں بادشاہ اور عام ہندوستانی ایک ساتھ کٹہرے میں کھڑے ہو سکتے تھے؟ ایک دفعہ علائوالدین خلجی نے قاضی کی عدالت میں کیس کیا کہ ایک عالم دین انہیں ظالم اور خونی کہتے ہیں۔ قاضی نے عالم کو بلایا اور پوچھا‘ تو انہوں نے اقرار کیا اور کہا‘ واقعی بادشاہ سلامت خونی ہیں۔ غلطی کسی ایک انسان کی ہوتی ہے یہ سزا اس کے پورے خاندان کو دیتے ہیں۔ اگلے دن اس عالم دین کی کھال میں بھوسا بھر کر اسی قاضی کی عدالت کے باہر لٹکا دیا گیا تھا۔
ہندوستان تو ہمیشہ سے طاقتور کے سامنے جھک جانے والی سرزمین تھی۔ ہر حملہ آور نے اسے لوٹا۔ جو بھی ہاتھی یا گھوڑے پر سوار تلوار پکڑ کر آیا یہاں کے عوام اس کے سامنے جھک گئے۔ ہر طاقتور کو بھگوان کا درجہ ملا ہوا تھا۔ ہزاروں سال پرانی یہ نفسیات ہمارے ڈی این اے تک سرایت کر چکی ہے۔ یہ تو راجوں مہاراجوں، بادشاہوں، شہزادوں کی سرزمین تھی۔ یہاں بڑے آدمی کو قانون کے کٹہرے میں دیکھ کر رعایا رونے لگ جاتی ہے۔ (باقی صفحہ 11 پر)
اپنے جیسا عام انسان جیل میں ہوگا تو کبھی بھول کر نہیں پوچھیں گے‘ لیکن اگر انہی کی دولت کے کسی لٹیرے کو تھوڑی سی تکلیف ہو جائے آپ ان لوگوں کی آنسوئوں کی جھڑیاں دیکھیں۔
اس لیے پاکستانی کاروباری حضرات کو کلین چٹ دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے تو مجھے خوشی ہے کہ چلیں ہمیں یہ احساس ہو گیا کہ یہ احتساب، قانون اور سزائیں ہندوستان کے کلچر سے سوٹ نہیں کرتی تھیں۔ Greelane درست ثابت ہوا۔
یہاں جو طاقتور ہے اور اس کا جہاں دائو لگ گیا ہے وہی سکندر ہے۔ یہ پولیس تھانے‘ کچہریاں، احتساب کے ادارے طاقتوروں کے لیے نہیں بنے۔ وہی انگریز گورے افسر کی بات کہ یہ سب تصورات صرف مغربی معاشروں کے لیے بنے تھے‘ جو پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد عقل اور شعور کے اگلے لیول تک پہنچ چکے تھے۔
اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس لانے اور اس معاشرے پر اپنے معاشروں والے قانون لاگو کرنے والے انگریز یہ بات بھول گئے تھے کہ ہندوستان کا معاشرہ صدیوں تک غلام رہا ہے لہٰذا یہاں بادشاہ، اس کے وزیر اور طاقتور اپنی رعایا کے برابر نہیں ہو سکتے کیونکہ بادشاہ کبھی غلطی نہیں کر سکتے۔ جو کچھ غلط ہوتا ہے وہ سب عوام کرتے ہیں اور قوانین بھی عوام کے لیے ہوتے ہیں، سزا بھی عوام کے لیے، طاقتور طبقات تو صرف لوٹ مار کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
اب پی مون کہاں سے آئے جو ایک اور کتاب لکھے: Strangers in Pakistan جو ہمیں سمجھائے کہ یہ احتساب، سزائیں اور قانون کی بالادستی کے جدید تصورات مغربی معاشروں کے لیے بنائے گئے تھے‘ پاکستان کے لیے نہیں تھے۔