تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     06-10-2019

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

میں اس کا اصل نام نہیں بتائوں گا۔ ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے۔ فرض کریں اس کا نام کاشف تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ گندمی تھا، سر پر سیاہ گھنے بال تھے، ہونٹوں پر ہر وقت ایک مسکراہٹ کھیلتی رہتی اور آنکھوں میں ایک غیر معمولی چمک تھی جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ میں جس تعلیمی ادارے میں کام کرتا تھا وہ اسی ادارے کے ایک شعبے میںکلرک کے طور پر کام کر رہا تھا۔ سچ پوچھیں تو اس کے سربراہ کے وارے نیارے تھے۔ کلرک تو وہ تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ نائب قاصد کے فرائض انجام دیتا اور بوقت ضرورت سویپر بھی بن جاتا۔ ہر ڈیپارٹمنٹ چاہتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کام کرے کیونکہ وہ کام سے نہ گھبراتا تھا‘ نہ تھکتا تھا۔ جو بھی اسائنمنٹ دی جاتی اپنی روایتی مسکراہٹ سے اسے قبول کرتا اور اس کی بجا آوری کے لیے دن رات ایک کر دیتا۔ پھر مجھے وہ ادارہ چھوڑ کر ایک طویل عرصے کے لیے تلاشِ روزگار میں کراچی اور پھر لاہور جانا پڑا۔ کئی سال بیت گئے، تقریباً 26 سال۔ اس دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں بہت سی تبدیلیاں آ گئیں۔ 26 سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ بچے بڑے اور نوجوان ادھیڑ عمری میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب میں اتنے سالوں بعد اسلام آباد آیا تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ ایک عجیب سا احساس تھا۔ میں اپنے ہی شہر میں اجنبی تھا۔ 
مجھے اسلام آباد میں ایک جگہ نوکری مل گئی تھی اور میں مناسب کرائے پر کسی گھر کی تلاش میں تھا۔ اسلام آباد کے مہنگے سیکٹرز میں کرائے بہت زیادہ تھے‘ اس لیے میں نسبتاً کم کرائے والی جگہوں کی تلاش میں تھا۔ وہ اتوار کا دن تھا اور میں کرائے کے لیے صبح سے دو گھر دیکھ چکا تھا لیکن دونوں گھروں کا مسئلہ یہ تھا نیچے والے پورشن میں مالکِ مکان رہتا تھا‘ جو مسلسل دردِ سر ہو سکتا تھا۔ ایک نسبتاً ویران سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے اچانک میں نے سڑک کے کنارے چائے کا ایک ڈھابہ دیکھا۔ پلاسٹک کی کچھ کرسیاں اور دو چارپائیاں پڑی تھیں۔ عرصے بعد مجھے نوکری کے جھمیلوں سے فراغت ملی تھی۔ نئی نوکری اگلے ہفتے سے شروع ہونی تھی۔ یہ نومبر کا مہینہ تھا اور ہلکی ہلکی دھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ سردیوں کی دھوپ یوں بھی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے سوچا‘ کیوں نہ کچھ دیر یہاں بیٹھا جائے اور چائے پی کر مکان کی تلاش پھر سے شروع کی جائے۔ میں نے گاڑی ڈھابے کے سامنے جا کر روک دی۔ یہ ایک کشادہ جگہ تھی جہاں کا زیادہ حصہ کچی زمین تھی اور ایک کمرے پر مشتمل ڈھابہ تھا۔ میں پلاسٹک کی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور چائے کا آرڈر دیا۔ میرے سامنے سڑک تھی اور دوسری طرف خال خال آبادی تھی۔ کہنے کو تو یہ اسلام آباد کا ایک حصہ تھا‘ لیکن ابھی تک اس علاقے میں ساری سہولتیں نہیں پہنچی تھیں۔ اتوار کو اسلام آباد میں لوگ دیر سے بیدار ہوتے ہیں لہٰذا سڑک پر گاڑیوں کی وہ روانی نہیں تھی جو عام دنوں میں ہوتی ہے۔ میں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ ہی دیر میں ویٹر کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ وہ چائے لے آیا تھا۔ میں نے آنکھیںکھول کر دیکھا۔ ویٹر میری میز پر چائے رکھ کر چلا گیا تھا‘ لیکن میری میز کی ایک کرسی پر ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا۔ اس کے سرکے بال سفید تھے اور داڑھی میں بھی سفید بالوں کی تعداد زیادہ تھی۔ پتہ نہیں وہ کب سے یہاں تھا۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا ''سر جی آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘ میں یہی سمجھا‘ اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے اُسے ایک بار پھر غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ اچانک مجھے چمکتی آنکھوں والا وہ لڑکا یاد آ گیا جسے میں بہت پہلے ملا تھا اور جو اس تعلیمی ادارے میں کام کرتا تھا‘ جہاں میں تھا‘ جس کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی‘ جس کے بال گھنے اور سیاہ تھے۔ میں نے کہا ''کاشف؟‘‘ وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا ''سر جی آپ نے مجھے یاد رکھا ہے آپ کا بہت شکریہ‘‘ میں نے اٹھ کر اسے گلے لگا لیا۔ میں نے کہا ''تم یہاں کیسے؟‘‘ حالانکہ میں اس سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ وقت نے تمہارا چہرہ کتنا بدل دیا ہے؟ وہ مسکراتے ہوئے بولا ''سر جی بڑی لمبی کہانی ہے‘ پر اب اس کہانی کا انجام بہت قریب آ گیا ہے‘‘۔ میں نے کہا ''انجام تو بعد کی بات ہے مجھے تو اس کہانی کا آغاز بھی معلوم نہیں‘‘۔ وہ ہنس پڑا ''سر جی آپ کو واقعی میری کہانی میں دلچسپی ہے؟‘‘ میں نے کہا ''کیوں نہیں تمہاری کہانی تمہاری طرح دلچسپ ہو گی‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے ویٹرکو بلایا اور کاشف کے لیے چائے لانے کو کہا۔
''سر جی ہم غریبوں کی کہانی کیا ہو گی لیکن آپ نے کہا تو میں ضرور سنائوں گا‘‘ کاشف نے بولنا شروع کیا ''میں وسطی پنجاب کے ایک گائوں میں پیدا ہوا تھا۔ میرا باپ اینٹوں کے ایک بھٹے پر مزدوری کرتا تھا اور ماں گائوں کی دائی تھی‘ ہم جس گھر میں رہتے تھے وہ ڈھائی مرلے پر مشتمل تھا۔ لیکن سر جی کہتے ہیں غریبوں پر خدا کی مار ہوتی ہے۔ 1973 کا سیلاب آیا تو ہمارا گھر بھی بہا لے گیا۔ میں ان دنوں پہلی کلاس میں پڑھتا تھا۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میرا گھر ختم بھی ہو سکتا ہے۔ ماں ہمیں کچھ دنوں کے لیے ایک اور محلے میں لے آئی۔ جب بارشیں ختم ہوئیں تو ہم نے مل کر اینٹ اینٹ جوڑ کر پھر چھوٹا سا گھر بنا لیا۔ میری ماں کو بہت شوق تھا کہ میں پڑھوں۔ وہ افلاس کے اس چنگل سے مجھے نکالنا چاہتی تھی۔ مجھے بھی پڑھنے کا شوق تھا۔ دوسری کلاس میں میری دوسری پوزیشن آئی تو میری ماں نے سارے محلے کو میری کامیابی کے بارے میں بتایا۔ میں سکول میں پڑھتا تھا لیکن دوسرے بچوں کی طر ح شام کو کھیلنے کودنے کے بجائے مزدوری کرتا تھا۔ 
والدہ مارچ سے اکتوبر تک کے گرم مہینوں میں تندور پر روٹیاں لگاتی تھیں۔ گرمیوں کے مہینوں میں جب آگ کے نزدیک بیٹھنا مشکل ہوتا تو لوگ تندور پر روٹیاں لگواتے۔ مجھے یاد ہے میری ماں کیسے گرمیوں کے تپتے ہوئے دنوں میں جلتی، دہکتی آگ کے قریب بیٹھ کر سینکڑوں روٹیاں لگاتی تھی۔ میرا ننھا سا ذہن اکثر یہ سوچتا‘ ماں دہکتے ہوئے تندور میں کیسے روٹیاں لگاتی ہے ؟ اس کا چہرہ اور پورا بدن پسینے سے تر ہو جاتا‘ وہ اپنا دوپٹہ کس کر اپنی پیشانی پر باندھ لیتی۔ مسلسل دہکتی آگ میں جھک کر جب وہ تندور میں روٹیاں لگاتی تو لپکتے ہوئے شعلے اس کے چہرے اور آنکھوں کے قریب ہوتے آہستہ آہستہ ماں کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔ اس کی خوب صورت آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور پھر اس کی آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے لگی۔ میں مزدور خاندان کا بچہ تھا۔ مجھے بھی مزدوری میں اپنا حصہ ڈالنا تھا۔ میں لوگوں کے گھروں سے گندھا ہوا آٹا لے آتا۔ تندور پر ماں روٹیاں لگاتی اور میں روٹیاں لوگوں کے گھروں میں پہنچا دیتا۔ مہینے کے آخر میں مجھے پانچ روپے ملتے جو میں گھر دے دیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں روٹیاں لے کر بازار بھی جاتا اور بیچ آتا۔ ہمارے محلے میں ایک صاحبِ دل ڈی سی صاحب کے ریڈر تھے۔ انھوں نے پڑھائی کے لیے میرا شوق دیکھا تو مجھے شہر کے قریب گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل کرا دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ میں ساتویں جماعت میں تھا تو سکول یونیفارم کا رنگ بدل کر خاکی کر دیا گیا تھا۔ ہمارے پاس نئے کپڑے خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ ماں نے خود ہی گھر میں کپڑے رنگ دیے۔ اگلے روز میں سکول گیا تو ماسٹر صاحب نے ساری کلاس کے سامنے ہنستے ہوئے کہا: کیا یہ کپڑے گھڑے سے نکال کر لائے ہو؟ میں سب کے سامنے جھینپ گیا، لیکن خاموش رہا۔ شاید ہمارے استاد کو معلوم نہیں تھا کہ مفلسی انسان کو کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ لیکن سچ پوچھیں تو مجھے کسی کی پروا نہیں تھی۔ میرے دل میں میری ماں کی آرزو کا چراغ جل رہا تھا۔ میرے ذہن میں ہر وقت ماںکی آواز گونجتی رہتی۔ بیٹے تم نے آگے بڑھنا ہے۔ آگے، بہت آگے۔ اسی دوران میرا میٹرک کا امتحان ہوا اور ہم سب نتیجے کا انتظار کرنے لگے۔ اس نتیجے نے میری زندگی کا فیصلہ کرنا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved