تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     06-10-2019

کرپشن کا خاتمہ: چین‘ سعودی عرب ماڈل ہی کیوں؟

نومبر دو ہزار سترہ کی ایک سرد رات ڈھل رہی تھی جب سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شاہی خاندان کے سینئر ارکان، اعلیٰ سرکاری شخصیات اور سرمایہ کاروں کے گھروں پر اچانک یلغار ہوئی۔ سوتے جاگتے ان گھروں کے مکین نہیں جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ محلات اور فارم ہاؤسز کے مکینوں کے ذاتی محافظوں نے مزاحمت کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ انسداد بد عنوانی یونٹ اور سرکاری فورسز نے چھاپہ مارا ہے۔ اس کارروائی کو روکنے کے لیے اکا دکا مزاحمتی کوششوں کو سرکاری فورسز نے ناکام بنا دیا اور مطلوب افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ کچھ کو گھروں میں نظر بند کیا گیا اور کچھ حراستی مراکز میں لے جائے گئے۔
سعودی عرب میں شاہ سعود کو ہٹائے جانے کے بعد یہ سب سے بڑی کارروائی تھی جس میں شاہی خاندان کے سینئر ارکان گرفت میں آئے تھے۔ ایک ہفتے کے دوران کم از کم پانچ سو ممتاز شخصیات کو گرفتار کر کے ہوٹل رٹز کارلٹن پہنچایا گیا۔ معروف برطانوی صحافی اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ڈیوڈ ہرسٹ کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر گرفتار کی گئی ان شخصیات کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گرفتار شاہی خاندان کے افراد، سرکاری عہدے داروں، بزنس ٹائیکونز میں سے چند ایک کو علیحدہ کر کے تشدد کے نت نئے حربوں کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد اس طریقے سے کیا گیا کہ ان کے لباس سے باہر دکھائی دینے والے اعضا اور چہروں پر کوئی نشان نہیں تھا لیکن کئی افراد کی حالت اس قدر بگڑی کہ انہیں ایمبولینسز میں ڈال کر ہسپتال پہنچانا پڑا۔
تشدد کا مقصد گرفتار افراد سے ان کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جاننا تھا۔ شاہ عبداللہ کے وفادار اس مہم کا خاص ٹارگٹ تھے۔ اس سے پہلے ولی عہد رہنے والے شہزادہ محمد بن نائف کو گھر پر نظر بند کر کے ان کے اثاثے ضبط کئے گئے تھے۔ سلطان بن عبدالعزیز کے بیٹوں کو بھی گرفتار کر کے اثاثے منجمد کئے گئے۔ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل شہزادہ ولید بن طلال کو بھی گرفتار رکھ کر ان سے رقوم نکلوائی گئیں۔
سعودی عرب میں یہ گرفتاریاں اس قدر اچانک اور خفیہ تھیں کہ اپنے ذاتی جیٹ رکھنے والے بھی ملک سے فرار نہ ہونے پائے۔ سعودی شاہی خاندان کا اتحاد‘ جو مملکت کے استحکام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے‘ اس مہم کے دوران متاثر ہوا لیکن شہزادہ محمد بن سلمان نے اس کی پروا نہ کی۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے ولی عہد بننے سے پہلے کہا تھا کہ کرپشن میں ملوث کوئی شخص بچنے نہیں پائے گا خوا وہ شہزادہ ہو یا وزیر۔ ولی عہد کا منصب سنبھالنے کے فوری بعد دو ہزار پندرہ کے اوائل میں محمد بن سلمان نے اپنے معتمدین کو کرپٹ افراد کی فہرست بنانے کا حکم دے دیا تھا اور انہیں دو سو افراد کی فہرست پیش کی گئی تھی۔
شاہی خاندان کے علاوہ بڑے کاروباری بھی اس مہم کا نشانہ بنے۔ سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی بن لادن کے سربراہ بکر بن لادن بھی شکنجے میں آئے۔ لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کی کمپنی بھی شکنجے میں آ کر دیوالیہ ہوئی۔ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد ترقی پانے والے اور ان کے وژن دو ہزار تیس کے معمار عادل فقیہ اور وزیر اطلاعات عادل الطریفی سمیت کئی وزیر بھی اس مہم میں گرفتار ہوئے۔
تین ماہ جاری رہنے والی یہ مہم گرفتار شہزادوں اور کاروباری افراد کے ساتھ رقوم کی واپسی کے معاہدوں کے ساتھ ختم ہوئی لیکن تین ماہ سعودی عرب میں کاروبار کے حوالے سے بے یقینی چھائی رہی۔ معاہدوں کی تفصیل سرکاری طور پر سامنے نہیں لائی گئی۔ غیر مصدقہ اعداد و شمار گردش کرتے رہے کہ سو ارب ڈالر واپس قومی خزانے میں جمع کرا دیئے گئے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر بھی پیش کئے گئے۔
تحریک انصاف کی حکومت بننے سے پہلے کپتان صاحب کرپشن کے خاتمے کے لیے چین کا ماڈل بیان کرتے رہے۔ کپتان نے ہر تقریر میں چین کے چار سو وزیروں کو کرپشن پر سزا ملنے کی بات کی لیکن ڈھونڈنے سے بھی کہیں آپ کو ان چار سو وزیروں کی فہرست دستیاب نہیں ہو گی۔ سعودی عرب کی مہم سے متاثر ہو کر تحریک انصاف نے کرپشن مٹانے کے لیے سعودی ماڈل کا بھی چرچا کیا۔ ستمبر دو ہزار اٹھارہ میں سعودی عرب کے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انسداد بد عنوانی کے لیے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ان کے لیے رول ماڈل ہیں، جس طرح محمد بن سلمان نے اپنے ملک سے کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جرات مندانہ مہم چلائی ہے‘ میں اسی طرح پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتا ہوں۔ اب نیب کپتان کے وژن کے عین مطابق کام کر رہا ہے اور کرپشن مٹانے کے لیے سعودی ماڈل کو سامنے رکھ کر سعودی عرب کے انسداد بد عنوانی محکمے جیسے اختیارات کا خواہش مند ہے۔ 
کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے انڈیکس میں چین کا نمبر شفافیت کے حوالے سے ایک سو اسی ملکوں کی فہرست میں 87واں ہے۔ سعودی عرب کا نمبر اٹھاون ہے۔ پاکستان 117ویں نمبر پر ہے۔ سخت ترین سزاؤں کے لیے معروف ایران کا نمبر ایک سو اڑتیس ہے۔ شفاف ترین دس ملکوں میں اکثریت ویسٹرن یورپ کے ملکوں کی ہے۔ شفاف ترین ملکوں میں ڈنمارک پہلے، نیوزی لینڈ دوسرے، فن لینڈ تیسرے، سنگا پور چوتھے نمبر پر ہے۔ سویڈن، سوئٹزرلینڈ، ناروے، نیدر لینڈ، کینیڈا اور لکسمبرگ دس شفاف ترین ملکوں میں شامل ہیں۔
پاکستان میں چین اور سعودی عرب کا ماڈل اپنانے کے خواہش مند ارباب اختیار نے یا تو اس انڈیکس پر غور نہیں کیا یا پھر وہ اسے اہمیت دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ جن دو ملکوں کے ماڈل اپنانے کی بات ہو رہی ہے وہ شفافیت کے اعتبار سے پہلے پچاس نمبروں میں بھی نہیں ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ پھر بھی یہ دونوں ملک ہمارے ارباب اختیار کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں؟
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر محمد بن سلمان نے اپنا اقتدار مضبوط کیا۔ مخالفین کو معاشرے میں بے وقعت کرنے اور ان کی ساکھ مجروح کرنے کی کوشش کی۔ محمد بن نائف سمیت اہم سیاسی حریفوں کو گرفتار کرکے اطاعت پر مجبور کیا گیا۔ سعودی عرب میں شاہی نظام رائج ہے اس لیے فوری طور پر کوئی سیاسی عدم استحکام نہیں آیا۔
چین میں ون پارٹی نظام حکومت ہے اور نظام کے اندر رہ کر کوئی بھی کچھ کرتا رہے کوئی مسئلہ نہیں۔ جب بھی کوئی نظام سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا مارا جائے گا۔ اس کی مثال حال ہی میں ایک میئر کے گھر سے ملنے والے تیرہ ٹن سونے اور اربوں روپے مالیت کی کرنسی کے انبار ملنا ہے۔ برسوں ایک سیاسی کارکن رشوت کا بازار گرم کئے بیٹھا رہا اور چین کا نظام حرکت میں نہ آیا۔ کیا اس گرفتاری کو چین کے مثالی نظام کی ایک جھلک کہا جائے گا؟
چین میں ون پارٹی نظام بھی آمریت کی ایک شکل ہے ۔ سیاست اور عوام کی نمائندگی کے لیے کمیونسٹ پارٹی واحد پلیٹ فارم ہے اور نظام کا حصہ رہنے کے لیے پارٹی سے غیر مشروط وفاداری لازم ہے۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو سیاسی جماعت کی تشکیل اور اپنی سیاسی رائے رکھنے کا حق دیتا ہے۔
اگر ارباب اختیار واقعی کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں اور ان کا مقصد اقتدار کو مضبوط کرنا یا سیاسی مخالفین کا گھیرا تنگ کرنا نہیں تو وہ شفافیت کے اعتبار سے اولین دس ملکوں کے نظام کا جائزہ کیوں نہیں لیتے؟ سویڈن، ناروے، ڈنمارک، نیوزی لینڈ میں ایسا کیا ہے کہ وہ دنیا کے شفاف ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ارباب اختیار ہمیں ان کے نظام کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے؟ چین، سعودی عرب اور ایران کے سخت گیر قوانین کا حوالہ دینے والے دنیا کی ان ویلفیئر ریاستوں کو مثال کیوں نہیں بناتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا سامنا کرنے سے ماضی میں بھی گریز کیا جاتا رہا اور اب بھی کچھ نہیں بدلا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved