مولانا فضل الرحمن صاحب ماہِ رواں کے آخر میں اسلام آباد میں دس لاکھ لوگ مارچ کرتے ہوئے لانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ انتخابات کے فوراً بعد سے مولانا نے حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو قریب لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ شروع میں ان کا مؤقف رہا کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم نہ ہونے دی جائے‘ لیکن وہ اعدادوشمار کے سامنے بے بس نظر آئے۔ پھر انہوں نے کوشش کی کہ حکومت قدم نہ جمانے پائے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ان کی دعوت پر سیاسی کانفرنسوں میں شرکت تو ضرور کی، مگر ان کے مفادات ایوان میں رہنے اور حقیقی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے میں تھا۔ مولانا کا خیال تھا کہ اگر حزبِ اختلاف ایوان سے باہر رہے تو گزشتہ انتخابات عوام اور دنیائے جمہوریت کی نظروں میں متنازعہ بنائے جا سکتے تھے۔ ایوان کا حصہ بنیں، حلف بھی اٹھائیں، قانون سازی کے عمل کا حصہ بھی ہوں، اور سوال اٹھائیں کہ ایوان غیر آئینی ہے، تو اس سے بڑا تضاد کوئی نہیں ہو سکتا۔ بالآخر مولانا نے سیاسی دوستوں کا مشورہ‘ قدرے تامل کے ساتھ ہی سہی‘ مان لیا۔ خود تو منتخب نہ ہو سکے تھے، جس کا ملال انہیں بہت زیادہ ہے، مگر اپنی جماعت کو ایوان کی طرف اشارہ کر دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ متبادل حکمتِ عملی یہ اختیار کی گئی کہ ایوان کو چلنے نہ دیا جائے۔ نئے منتخب وزیر اعظم کی پہلی تقریر کے دوران جو کچھ ہوا، وہی ہر دفعہ ہوتا ہے، جب عمران خان صاحب کبھی کبھار قومی اسمبلی کو رونق بخشتے ہیں۔ حکومتی اراکین کا جوابی طرزِ عمل بھی اتنا ہی مایوس کن رہا ہے۔ میاں شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری نے جب بھی ایوان میں تقاریر کیں، ایوان مچھلی بازار بنا رہا۔ بہتّر سال گزر گئے، معزز سیاست دانوں کی کئی نسلیں قومی سیاسی عمل کا حصہ رہیں‘ لیکن یہ جمہوری اور پارلیمانی روایات کو نہ سمجھ سکے، نہ ہی ان روایات کو سیاست اور جمہوریت کو منظم کرنے کے لیے بروئے کار لا سکے۔
حزب اختلاف کی سینیٹ میں غالب اکثریت ہے، اور صورتحال مزید تقریباً دو سال ایسی ہی رہے گی۔ حکومت کی فقط قومی اسمبلی میں اکثریت کسی بھی قانون کو لانے کے لیے کافی نہیں، سینیٹ کی توثیق لازمی ہوتی ہے۔ قومی مفاد، اصلاح اور ترقی کہنے کو تو سب سیاسی اداکاروں کی ترجیحات ہوتی ہیں؛ تاہم اگر مخالفین ایسا نہ کرنا چاہیں تو ان کا راستہ کیسے روکا جائے؟ مخالفین کو تو دھڑکا یہ لگا رہتا ہے کہ حکومت نے چاھے اقدامات کر دیے خصوصاً معاشی ترقی، قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو گیا تو روایتی ضلع کچہری اور تھانوں کے گرد چکر لگاتی ان کی خاندانی سیاست ختم ہو جائے گی۔ غریب عوام اسی لیے تو چوہدریوں، خانوں، سرداروں اور وڈیروں کے ڈیروں کے چکر لگاتے رہتے ہیں کہ ان کے بغیر ان کا جائز کام بھی سرکاری دفتروں میں ہونا مشکل ہے۔ ہاں اس کا متبادل افسروں کی مُٹھیاں گرم کرنے کی صورت میں موجود ہے‘ لیکن یہ مہنگا کام ہے۔ بعض اوقات ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ ان افسروں کی مانگ پوری کر سکیں۔ متوسط طبقے کے لوگ یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں‘ لیکن جو غریب ہیں‘ ان کے پاس وڈیروں کے ڈیروں پر جانے کے سوا کوئی چارا نہیں ہوتا اور وڈیرے اور جاگیردار ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا خوب جانتے ہیں۔ یہ تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ مسلم ممالک کی دوسری بڑی جمہوریت کی پارلیمان اگر مفلوج نہیں، تو بیکار ضرور بنائی جا چکی ہے۔ حزب اختلاف کی اس سیاست کے حق میں جو بھی دلائل دیئے جائیں، حقیقت یہ ہے کہ عوام، غیر جمہوری طاقتوں اور دنیا کو یہ واضح پیغام جا رہا ہے کہ پاکستانی جمہوریت چل نہیں پا رہی‘ حالانکہ یہ وہی کشتی ہے، جس میں حکومتی جماعت، اس کے اتحادی، حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں، روشن خیال دانشور اور میڈیا سب موجود ہیں۔
غالباً اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی قیادتیں جمہوریت کی گاڑی کو چلتا ہوا دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہ لوگ سوئی چبھو کر پنکچر کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ چلانے والوں کو کچھ دقت ہو، مگر اس کے انجن میں ریت بھر کر اسے مکمل طور پر ناکارہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ جو باہر سے غیر سیاسی کاریگر بلائے جائیں گے، وہ گاڑی ٹھیک کر کے، اس کا رنگ اور سیٹیں بدل کر خود ہی چلائیں گے۔ یہ تماشہ کئی بار ہو چکا ہے۔ میرے نزدیک دو بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ فیصلہ ابھی تک درست ہے کہ حکومت کو گرانے کا آئینی راستہ اختیار کیا جانا چاہیے‘ لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ ایوان کے اندر اس وقت تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں؛ تاہم تحریک انصاف کے اتحادیوں نے با جماعت پلٹا کھایا تو ایسا ہونا بعدید از قیاس نہیںکوئی بعید نہیں۔ سیاسی موسم اسلام آباد میں حکومت کے لیے صاف ہی نظر آ رہا ہے۔
بڑی سیاسی جماعتیں اگرچہ گزشتہ انتخابات پر سوال اٹھاتی رہی ہیں، اور ان کے نتائج سے ہرگز مطمئن نہیں ہیں‘ لیکن وہ تحریک کو بادل نخواستہ ہی سہی اقتدار میں رہ کر قسمت آزمائی کا موقع دینا چاہتی ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کو اس طرح تبدیل کرنا، جو عمران خان صاحب کا منشور ہے، ناممکن ہے۔ نہ وہ قیادت، نہ ہی انتظامی ڈھانچہ اور نہ واضح جمہوری اکثریت۔ محض جذبہ اور خان صاحب کی دیانتداری کافی نہیں۔ اور پھر پرانے نظام سے وابستہ تجارتی، صنعتی، سیاسی اور انتظامی مفادات بھی ہیں‘ پاکستان کی سیاسی اور سماجی اشرافیہ کسی طور پر جن کو تبدیل کرنے کے حق میں نہیں۔ مسلم لیگ نون کا خیال ہے کہ حکومت اپنی کمزوریوں، نا اہلی اور غیر موزوں اصلاحات کی بنیاد پر آہستہ آہستہ اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ ا یک سال پورا ہونے کے بعد کے تجربے، حکومت کے لیے کم از کم عوامی سطح پر خوش کن نظر نہیں آ رہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بڑی قومی سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی مہلت دیں گی؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔ اس بارے میں ان کا نقطہ نظر واضح ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ نافذ شدہ اور جاری اصلاحات کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ دہائیوں کا بگاڑ ایک یا دو برسوں میں ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ سارا معاشرہ، صرف ریاستی نظام نہیں، اخلاقی برائیوں کا پیکر ہے۔ رویے اور اقدار سب معاشرے اور سیاسی نظام کو زنگ آلودہ کئے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ماضی میں پاکستان میں سیاسی استحکام بھی آیا، ملک نے ترقی بھی کی اور خوشحالی بھی نمایاں رہی۔ ایسا اب بھی ممکن ہے۔
عمران خان غیر روایتی سیاسی رہنما ہیں۔ وہ معاشرے کے ان حلقوں کو متحرک کر کے اقتدار میں آئے ہیں جو ماضی میں برسر اقتدار رہنے والی جماعتیں نہ کر سکیں۔ ان کی انتخابی سیاست سیاسی خاندانوں کے گرد گھومتی رہی۔ اسی لئے نوجوان طبقہ ان کا قائل نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس کپتان نے ایک بڑا سیاسی خلا پُر کیا۔ عمران خان صاحب کامیاب ہو گئے تو روایتی سیاست دم توڑ جائے گی۔ اسی لئے ہماری پرانی سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو جلد چلتا کیا جائے، مگر کیسے؟
اس سوال کا جواب حزبِ اختلاف کے پاس یہ ہے کہ انتخابات دوبارہ ہوں۔ وہی درمیانی مدت کے انتخابات کا نعرہ پھر کھل کر سامنے آنے لگا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اتنا جلدی کیوں اس مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈالے گی؟ کسی حکومت نے ایسا نہیں کیا، یہ تو عمران خان ہیں، وکٹ پر کھڑے رہنے کا عزم کئے ہوئے، جب تک کہ وہ قانونی اور آئینی طریقے سے آئوٹ نہ ہوں۔ مولانا شور شرابا برپا کرکے خان کو آئوٹ قرار نہیں دلا پائیں گے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ معلوم ہے، عوام کو بھی اور غیر جانبدار مبصرین کو بھی۔ احتجاجی تحریک چلانا ایک بالکل الگ بات ہے۔ مولانا کچھ دیر کیلئے اسلام آباد کے شہر اور میڈیا کیلئے قابل دید میدان سجا سکتے ہیں۔ لوگ کتنے آئیں گے؟ یہ معلوم نہیں۔ جھنڈے، گاڑیاں، محفوظ کنٹینرز اور نعرے۔ عمران خان کے دھرنے کی طرز پر شام کو تقاریر ہوں گی اور بس۔ دھرنوں سے اگر جمہوری حکومتیں ختم ہوں، تو پھر کوئی حکومت اس ملک میں یا کہیں اور کامیاب نہ ہو سکے گی۔ ایسا ہوا، تو جمہوریت کا جنازہ پڑھنے کی نیت باندھ رکھیں۔ مولانا مجمع اکٹھا کرکے حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس منصوبے کی کامیابی کے کچھ امکانات ہوتے تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی پل بھر تامل نہ کرتیں۔ مولانا کو انہوں نے درست مشورہ دیا ہے کہ ابھی اس سلسلے کو ملتوی کریں، اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر اکیلے ہی جائیں۔