تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     07-10-2019

30بزنس مین 300 کہانیاں

لاہور سے ایک مہربان نے میسج بھیجا۔ ملک کی تقدیر بدلنی ہے، فلاں فلاں کو بدل کیوں نہیں دیتے۔ اگلے دن، اُسی درجے کے دوسرے حکومتی اہل کار سے ملاقات کی Juicy تصویریں بھجوا دیں۔ ساتھ لکھا، پاکستان کا سب سے کریڈیبل آدمی‘ جس کے خلاف ساری دُنیا سازشوں میں مصروف ہے۔ جی ہاں، آپ دُرست سمجھے۔ یہ Hero hunting مُہم ہے۔ کرکٹ ٹیلنٹ ہنٹ کی طرح۔ اپنا اپنا ہیرو، اور ہیرو کے چنائو کی اپنی اپنی وجوہات بھی۔ عین اسی طرح سے انٹ شنٹ فارمولے کے تحت معیشت کی ناکامیاں بیان ہو رہی ہیں۔
اگلے روز، تازہ سازشی تھیوری نے کمال کی ٹانگیں توڑ دیں۔ چیف ایگزیکٹو اور چیف آف آرمڈ فورسز نے ملک کے 30 چُنیدہ ٹاپ بزنس مینوں سے نشست رکھی۔ ابھی ملاقات شروع نہیں ہوئی تھی کہ کچھ سکرینوں پر بریکنگ نیوز چلنے لگی‘ بزنس مین برس پڑے۔ بزنس ایڈوائزری پر Open House میٹنگ کے تھوڑی دیر بعد میں وزیر اعظم سے ملا۔ میٹنگ کے کچھ شرکاء سے بھی۔ اُسی کمپائونڈ میں، امریکہ افغان مکالمے کے شرکاء بھی موجود تھے۔ سکیورٹی معمول سے اگلے لیول پر تھی۔ اس لئے کسی الیکٹرانک چڑیا کا ''پَر‘‘ مارنا بھی ممکن نہ تھا۔ اِس کے باوجود گھنٹوں تک خواہشوں کی پُوجا کرنے والے مصدقہ ذرائع، غیر مصدقہ کہانیوں کی فیک نیوز برساتے رہے۔ 
اس اکٹھ کے شرکاء کے نام میرے سامنے ہیں۔ کچھ کی سیاسی وابستگیاں، اُن کے ناموں سے بھی زیادہ مشہور ہیں۔ میٹنگ کا ایجنڈا تھا، بزنس مینوں کے مسائل۔ خاص طرح کے بزنس مینوں نے شکایت کی، اُنہیں نیب بہت تنگ کرتا ہے۔ حل آیا کہ بزنس مینوں کی ایک کمیٹی بنا دیتے ہیں جس پر الزام آئے، کمیٹی تحقیقات کر کے فیصلہ دے، نیب کو کارروائی کرنی چاہیے یا نہیں۔ دوسرا سوال سمگلنگ بند کرنے کے بارے میں تھا۔ جواب آیا، افغانستان والی سائیڈ پر کافی باڑ لگ چکی ہے۔ باڑ مکمل ہونے پر سمگلنگ تقریباً ختم ہو جائے گی۔ بلوچستان اور ایران کے سرحدی علاقے میں غریب آبادی کا دار و مدار سرحد کے آر پار چیزیں آنے جانے پہ ہے۔ آپ ان علاقوں میں فیکٹریاں کیوں نہیں لگاتے۔ مقامی آبادی کو روز گار ملے گا۔ سمگلنگ بھی بند ہو جائے گی۔ 
دوسری تجویز دی، آپ لوگ ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے ایسی اشیاء پر انویسٹ کریں، جو آج کی دُنیا کی ضرورت ہیں۔ آپ 50 سال پہلے کی دُنیا سے باہر آنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ٹیکسٹائل سے ایک قدم آگے چلیں۔ بلوچستان میں سونے کی کان کا ریکوڈک منصوبہ ہے‘ اس کی سرمایہ کاری کا ذمہ لیں۔ کے پی میں Mining کا وسیع میدان خالی ہے۔ سکیورٹی آپ کو فوج دے گی۔ آپ اکانومی کو جمود کا شکار بنا کر کیوں بیٹھ گئے۔ اس پہ کئی سیاست دانوں کے فرنٹ مین بغلیں جھانکتے رہے۔
ایک صاحب بولے اگر میرا ساتھ دیا جائے تو میں تعمیراتی شعبے میں پورے ملک کو یورپ کی طرح چمکا دوں۔ ایک چیف نے جواب دیا: آپ اُس کا نام بتائیں جس نے آپ کو روکا ہے۔ پھر ایک فراڈِ مسلسل کی رپورٹ سامنے لائی گئی‘ جو چین سے پاکستان پہنچی۔ اعلیٰ سطحی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی بزنس مینوں کے ٹوٹل 12 بلین ڈالرز کے Import Orders ہیں۔ پاکستان میں یہی Figures بزنس مینوں نے ریکارڈ پہ صرف 6 بلین ڈالرز لکھوائے۔ صاف مطلب یہ ہے دوسرے 6 بلین ڈالرز کی under Invoicing کی گئی۔ وہ 6 بلین ڈالرز چین ہی سے براہِ راست انگلینڈ، دبئی، سوئٹزر لینڈ اپنے غیر ملکی اکائونٹس میں بھجوا دیے۔ دو نمبری کرنے والوں کو یہ بھی بتایا گیا، جب نیب آپ سے یہی سوال پوچھتی ہے تو کہتے ہو ہم کو ڈرایا جا رہا ہے۔ دبئی میں پیسہ ڈوب گیا۔ یہی سرمایہ پاکستان آ جائے تو پاکستان کا فائدہ ہو، آپ کا اور انویسٹرز کا بھی۔
راوی کے مطابق، اے کے ڈی اور گوہر اعجاز نے حسبِ منشا کاروبار کے عادی کی خوب کلاس لی۔ واردات جو پکڑی گئی، وہ تھی capacity charges کی مد میں حکومت کو مہنگی بجلی بیچنے والی۔ دونوں نے کہا‘ آپ کی وجہ سے ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر تباہ ہو رہا ہے۔ آپ کو 18 فیصد ریٹرن ملنا چاہیے۔ پچھلی حکومتوں کی مجرمانہ سرپرستی اور ناروا مہربانیوں کی وجہ سے آپ 60 فیصد تک ریٹرن لے رہے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہو، زیادتی ہو رہی ہے‘ میں تباہ ہو گیا۔ اسی Story Board پہ دوسری بحث حال ہی میں فنانس ہوئی۔ پاکستان کو احتساب کا کون سا ماڈل فالو کرنا چاہیے۔ تاثر یہ دینا مقصود ہے‘ گویا قومی احتساب کا موجودہ ادارہ پچھلے ایک سال میں تخلیق ہوا‘ جس کا سربراہ عمران خان کا Buddy ہے۔ پی ٹی آئی کا چُنا ہوا اور جس کے سارے اہل کار بنی گالہ سے بھرتی ہوئے۔ فالودے والی کہانی خود ساختہ، ٹی ٹی والے فلمی کردار ہیں۔ بے نامی اکائونٹس قدرت کا انعام۔ لہٰذا احتساب نہیں سیاسی انتقام چل رہا ہے۔
آئیے ایک لٹمس ٹیسٹ کریں۔ احتساب کا ادارہ بے نظیر حکومت گھر بھجوانے کے بعد صدر لغاری نے بنایا۔ قانون کا نام تھا احتساب آرڈیننس، 1996۔ پہلا سربراہ جسٹس مجدد مرزا۔ اس دور میں صرف اور صرف پی پی کی حکومت کے اہل کار اور عہدے دار گرفتار کیے گئے۔ 1997 میں حکومت نواز شریف کو دی گئی۔ مشہورِ زمانہ بھاری مینڈیٹ والی سرکار۔ اسی سال، احتساب آرڈیننس کو ایکٹ آف پارلیمنٹ بنایا گیا۔ نواز شریف نے اسے مستقل قانونی شکل دے دی۔ اب جگر تھام کر سُنیے۔ اس بے لاگ اور منصفانہ احتساب کی سربراہی نواز شریف کے دست راست سینیٹر سیف الرحمن کو سونپی گئی۔ اس حکومت میں صرف اور صرف اپوزیشن کا احتساب ہوا۔ حکومت کے تمام گماشتوں کو کُھلی چھوٹ تھی، لوٹ کھسوٹ کرنے کی۔
اس دور میں عدلیہ کی آزادی پہ نہیں، سپریم کورٹ کے بنچ نمبر 1 پر حملہ کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ کے جج حضرات کو دھمکیاں اور لالچ دے کر پچھلی تاریخوںکے لکھے ہوئے فیصلے صادر کروائے گئے۔ ان گفتگوئوں پر مبنی ٹیپ ریکارڈنگ اب بھی آپ سُن سکتے ہیں۔ 1999 میں مشرف حکومت آ گئی۔ ماورائے آئین اقدام کے خلاف ن لیگ کے ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ چلے گئے۔ نواز شریف کی نون نے اُن کی دائر کردہ پٹیشن کو Disown کر دیا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے 12 اکتوبر 1999 کے مارشل لاء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی کور فراہم کر دیا۔ ملاحظہ ہو PLD 2000 SC 869۔
اس پہ طرفہ تماشا، نواز شریف نے تیسری باری پر جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 99 کے اقدام کو چیلنج کیا نہ ہی غداری کا مقدمہ دائر کیا۔ نواز حکومت کا دائر کردہ موجودہ مقدمہ سیاسی جج کو ہٹانے پر بنا جو 3 نومبر2007 کا واقعہ ہے۔
اب آئیے چلیں پی ٹی آئی حکومت کے دورِ احتساب میں۔ جس کی مدعیت میں ابھی تک کسی سیاسی شخصیت کے خلاف کو ئی مقدمہ نہیں بنا۔ شہباز شریف سے خورشید شاہ تک۔ پیراگون سے پانامہ تک۔ سب انکوائریاں نواز دور میں شروع ہوئیں۔ نواز دور کا احتساب 22 سال پُرانا ہے‘ جس کی زد میں اُن کا ہر بڑا ناقد آیا۔ عمران خان نے کے پی حکومت میں اپنے ہی وزیر گرفتار کیے۔ پنجاب اور مرکز میں جس وزیر پر بھی الزام آیا۔ اُس نے استعفیٰ دے دیا۔ 30 بزنس مین ہوں یا 40 چور۔ احتساب کا نام آتے ہی ان سے زیادہ پیسہ لے کر پروفیشنل ماتم کرنے والیاں مائیاں بین ڈال رہی ہیں۔ ہر ہر بین کا رُخ تین بڑے قومی ادارے ہیں یا وطن۔ اُن کے ناز اُٹھانے والے ادارے اورکھلانے والا ملک۔
وہ فرشتے بھی بُرا لکھتے رہے
جن کو کاندھوں پہ بٹھائے رکھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved