تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-10-2019

مرضی نہیں چلے گی… !

بہت کچھ ایسا ہے‘ جو ہماری مرضی کا تو نہیں ہے‘ مگر ہے ہر اعتبار سے ہمارا۔ اگر زندگی کا مزا کچھ ہے‘ تو اِس بات میں کہ جو کچھ ہماری پسند یا مرضی کا نہیں‘ اُسے بھی اپنا بنائیں‘ اپنائیں۔ یہ کام ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے‘ کیونکہ کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جو کچھ ہماری مرضی یا پسند کا نہ ہو‘ اُسے اپنانا‘ اپنا بنانا خاصا چیلنجنگ کام ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِسے بیلنسنگ ایکٹ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ 
ہر انسان کے مقدر میں بہت سے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ کچھ رشتے وہ خود بناتا ہے۔ ایک حلقۂ احباب بھی ہوتا ہے۔ خون کے رشتے اچھے اور سودمند ہوں تو ٹھیک ورنہ ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ کے مصداق مرتے دم تک جھیلنے اور نبھانے ہی پڑتے ہیں۔ 
بنائے جانے والے رشتوں کے معاملے میں انسان تھوڑا بہت خود مختار ہوتا ہے۔ احباب کے انتخاب کے معاملے میں انسان اپنی مرضی اور پسند کے مطابق‘ فیصلے کرسکتا ہے۔ نہ کرے تو الگ بات ہے۔‘پھر اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ پڑوس کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے۔ اور بین الریاستی تعلقات میں پڑوس کو کسی صورت تبدیل کیا جاسکتا ہے‘ نہ نظر انداز۔ 
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ بھارت کے پڑوس کی پوری آبادی (ایک ملک کے سوا) ایک اچھی کہانی رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ صبح کا بُھولا شام کو گھر آ ہی جائے گا‘ یعنی ایک دن ''مائنس ون‘‘ (ظاہر ہے‘ پاکستان!) کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ علاقائی تعاون کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے پر رضامند ہوگا۔ یہ سب کچھ ایس جے شنکر نے نئی دہلی میں ورلڈ اکنامک فورم کے تحت منعقدہ انڈیا اکنامک سمٹ میں کہا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ''مائنس ون‘‘ کا اصل مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ جس دن یہ مسئلہ حل ہو جائے گا‘ خطے میں ترقی اور استحکام یقینی بنانے کا عمل تیز ہوجائے گا۔‘‘ ایس جے شنکر کا استدلال تھا کہ ''مائنس ون‘‘ کے سوا خطے کے ہر ملک سے اقتصادی سطح پر اشتراکِ عمل کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ اپنے (مثبت) اثرات مرتب کرے گا اور ''مائنس ون‘‘ کو بھی غلطی کا احساس ہو ہی جائے گا۔ (گویا معاشی ثمرات کا کدوں کٹے گا ‘تو پاکستان بھی حصہ لینے پہنچ جائے گا!) 
پاکستان اور دیگر ریاستوں کی طرح بھارت کا بھی ایک مائنڈ سیٹ تو بہرحال ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ ہے ''اکنامک ایڈوانٹیج‘‘ کا۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ اُس کا ملک بہت سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ بھارت کے نالج ورکرز اور دیگر ہنرمند دنیا بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اُن کی کارکردگی اب تک بہت اچھی رہی ہے۔ بیرون ملک مقیم بھارتیوں اور بھارتی نژاد باشندوں میں متعدد انتہائی مالدار آجر بھی شامل ہیں۔ بھارتی قیادت مضبوطی سے گڑے ہوئے ‘اِس کُھونٹے کی بنیاد پر بہت اچھلتی ہے۔ ٹھیک ہے‘ حق بھی بنتا ہے ‘مگر محض معاشی موافقت کی بنیاد پر کوئی بھی ملک ایک حد تک ہی جاسکتا ہے۔ پوری جنگ کسی ایک محاذ پر موافق حالات کو بنیاد بناکر نہیں جیتی جاسکتی۔ بڑی منڈی ہونے کے باعث بھارتی قیادت کا مکمل مائنڈ سیٹ ''منڈیانا‘‘ ہوگیا ہے۔ 
معاشی موافقت کی آڑ لے کر بھارت نے پاکستان اور سری لنکا جیسے آسانی سے نہ جُھکنے اور آنکھیں دکھانے کی صلاحیت رکھنے والے ہمسایوں کے خلاف بہت کچھ کیا ہے۔ عالمی اداروں میں بھارت کی سُنی جاتی ہے اور اُسی کے مفادات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں پاکستان اور سری لنکا کو الگ تھلگ رکھنے‘ بلکہ بہت حد تک irrelevant بنانے میں بھارت کا کلیدی کردار رہا ہے۔ 
ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ امریکا سے وسیع تر تجارتی معاہدہ طے پانے والا ہے۔ اس حوالے سے اچھا خاصا کام کیا جاچکا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر تجارت خاصے ''سٹریٹجک فرد‘‘ ہیں۔ ایسی بات اُسی وقت کہی جاسکتی ہے ‘جب معاشی موافقت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بھرپور اعتماد کا طوطی بول رہا ہو‘ بلکہ سر پر چڑھ کر ناچ رہا ہو۔ 
پاکستان پر طرح طرح کے الزامات عائد کرکے اُس کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے والی بھارتی قیادت اپنے گریبان میں نہیں جھانکتی۔ معاشی قوت کی بنیاد پر پورے جنوبی ایشیا کو مسخّر کرکے جیب میں رکھنے کی خواہش پر بھی تو کچھ بات ہونی چاہیے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے افغانستان میں وزن بڑھانے کی کوشش کس کھاتے میں رکھی جائے گی؟ نئی دہلی کے پالیسی میکرز بتانا پسند کریں گے کہ پاکستان کے پڑوس میں اُن کا ملک کیا کر رہا ہے؟ اب کوئی یہ نہ کہے کہ وہ تو سیاحت کے لیے آیا ہوا ہے! 
بات ریاستی سطح کی ہو تو ہمسائے بنائے نہیں جاتے‘ تقدیر میں لکھے ہوتے ہیں۔ یہ موتی چُور کا وہ لڈّو ہے ‘جسے کھانا بھی پڑتا ہے اور کھاتے وقت موڈ بھی اچھا رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں ''مائنس ون‘‘ کا مائنٹ سیٹ بھارتی قیادت کو ترک کرنا ہوگا۔ مذہب اور سٹریٹجک ترجیحات کو ایک طرف ہٹادیں تو دونوں ممالک میں بہت کچھ ہے ‘جو انتہائی مماثل ہے۔ زمین کی نوعیت‘ موسم‘ ثقافت‘ رسوم‘ زبان‘ نسل ---- غرض یہ کہ بہت کچھ مشترکہ ورثے کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسے میں 20 کروڑ کی آبادی والے ملک (اور وہ بھی پڑوسی) کو ناپسندیدہ قرار دے کر دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔ پاکستان سے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی فرمائش کی جارہی ہے۔ یہی کام بھارت کو بھی تو کرنا ہے۔ 
امن و استحکام اور علاقائی تعاون کا خواب مکمل طور پر شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کو بالائے طاق نہ رکھا جائے۔ معاشیات کے میدان میں کمزور ہونے کے باوجود پاکستان کو دفاعی اور دیگر بہت سے معاملات میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسا کرنے کے جو خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ‘اُن کا اندازہ بھارت کے پالیسی میکرز کو بھی ہوگا۔ محض برتر معاشی حیثیت کو بنیاد بناکر دادا گیری کے ذریعے بڑے رقبے اور بڑی آبادی والی کسی ریاست کو ناکامی سے دوچار کرنے کی کوشش پورے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار کرسکتی ہے۔ نئی دہلی کے اہلِ دانش کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ خود بھی شیشے کے گھر میں رہتے ہیں۔ شیشے کے گھر کی ساری خوب صورتی‘ نفاست اور نزاکت کو خاک میں ملانے کے لیے ایک پتھر کافی ہوا کرتا ہے۔ 
سب کو اپنی مرضی سے جینے اور چلنے کا حق ہے‘ مگر بعض معاملات میں مرضی نہیں چلتی۔ بھارتی قیادت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں سے اخلاص پر مبنی تعلقات استوار کرنا دوسروں کے ساتھ ساتھ خود بھارت کے بھی مفاد میں ہے۔ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کو مائنس نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ یہ معاملہ مرضی کا ہے ہی نہیں۔ سب کو مل جل کر‘ اچھے تعلقات استوار کرکے رہنا ہے۔ 
نریندر مودی بیشتر اندرونی اور بیرونی معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق ‘چلانا چاہتے ہیں۔ ریاستی امور میں ذاتی یا انفرادی نوعیت کی مرضی نہیں چلتی۔ احساسِ ذمہ داری کی حامل ریاست کو سبھی کچھ حالات کی روشنی میں اور قومی مفادات ذہن نشین رکھتے ہوئے کرنا پڑتا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی (اور اُن کی ٹیم) ملک کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کے بعد کسی پڑوسی کا وجود نظر انداز کرتے ہوئے ایسے فیصلے نہیں کرسکتے جو ہر اعتبار سے قومی مفادات کے تابع ہوں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved