تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-10-2019

کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تقریباً ہر حکومتی وعدے پر چچا غالبؔ کا یہ شعر ذہن میں گونجتا ہے ؎
تیرے وعدے پہ جیے ہم‘ تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے‘ اگر اعتبار ہوتا
یہ شعر لکھتے ہی دل میں کالم آگے چلانے کے بجائے ایک خوف سا پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کمپوزر بھائی جان نے شعر اوپر نیچے کر دیا تو کل کے اخبار میں برادرِ محترم ظفر اقبال صاحب کا درستی نامہ آ جائے گا اور شاعری تو رہی ایک طرف‘ سخن شناسی کے بارے میں بھی شکوک پیدا ہو جائیں گے۔ سو کمپوزر صاحب اور ایڈیٹوریل والے صاحبان سے خاص گزارش ہے کہ باقی کالم کی خیر ہے۔ چچا غالب کے شعر کے بارے میں خصوصی احتیاط فرمائیں تاکہ فدوی کل کے ''دال دلیا‘‘ میں دلیہ بننے سے محفوظ رہ سکے۔
فی الحال غالب کا یہ شعر عمران خان کے حالیہ بیان سے یاد آیا ہے جس میں جنابِ وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ ملک میں طبقاتی نظامِ تعلیم ختم کر کے ایک نظام اور ایک نصاب نافذ کیا جائے گا۔ یہ عاجز اسی قسم کے اور اس سے ملتے جلتے بیانات سن کر جوان ہوا اور اب بڑھاپے کی منزل کے قریب قریب ہے لیکن بات بیانات سے رتی برابر آگے نہیں گئی بلکہ بتدریج مزید خراب ہوئی ہے۔
آج سے پچاس سال پہلے ملتان میں پانچ قسم کے سکول تھے۔ پہلی قسم سرکاری سکولوں کی تھی۔ دوسری قسم میونسپل کمیٹی کے زیرانتظام چلنے والے سکول تھے۔ تیسری قسم انجمن اسلامیہ کے تحت چلنے والے پرائیویٹ سکولوں کی تھی جسے گیلانیوں کی قائم کردہ انجمن اسلامیہ چلاتی تھی‘ یہ سکول اسلامیہ سکول کہلاتے تھے۔ چوتھی قسم انگریزی میڈیم سکولوں کی تھی۔ یہ ملتان میں صرف تین سکول تھے ایک جونیئر سکول اور دو ہائی سکول تھے۔ جونیئر سکول مس بلموریا کا ہوتا تھا اور کینٹ کے علاقے میں تھا۔ اس میں بچے اور بچیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔ دو ہائی سکول تھے‘ ایک سکول سینٹ میری کانومنٹ تھا جو لڑکیوں کے لیے تھا اور چھوٹی کلاسوں سے لے کر میٹرک تک تھا۔ چرچ کے زیر انتظام یہ سکول 1919ء میں قائم ہوا۔ 1964ء تک اس سکول میں مخلوط تعلیم تھی۔ یعنی میٹرک تک لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔ 1964ء میں چرچ نے ملتان میں لڑکوں کے لیے ایک علیحدہ سکول بنا دیا۔ یہ لا سال ہائی سکول تھا۔ درمیان میں1964ء سے لے کر اَسی کی دھائی تک یہ حساب چلتا رہا کہ نرسری سے لے کر کلاس سوئم تک لڑکے اور لڑکیاں کانوونٹ میں اکٹھے پڑھتے تھے اور لڑکے چوتھی کلاس سے کانوونٹ چھوڑ کر لا سال ہائی سکول آ جاتے۔ 1983-84ء میں یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا اور کانوونٹ صرف لڑکیوں اور لا سال صرف لڑکوں کی تعلیم کے لئے مخصوص ہو گئے۔ یہ تینوں سکول ''ایلیٹ کلاس‘‘ کے سکول تے اور یہاں کا ذریعہ تعلیم انگریزی زبان میں تھا۔ ملتان کے سکولوں میں پانچویں قسم انفرادی قسم کے پرائیویٹ سکولوں کی تھی جیسے جماعت اسلامی کا جامع العلوم ہائی سکول‘ مرزا مسرت بیگ کا ملت سکول‘ نصرت الاسلام ہائی سکول اور مسلم سکول وغیرہ۔
میں شروع شروع میں میونسپل گرلز مڈل سکول باغ بیگی میں پڑھتا رہا۔ تیسری کلاس کے بعد میں میونسپل پرائمری سکول کڑی جمنداں میں ماسٹر اقبال مرحوم عرف ماسٹر بالی کے زیر سایہ کچھ عرصہ پڑھا اور پھر اپنے پسندیدہ ماسٹر غلام حسین کے پاس میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں آ گیا۔ ماسٹر غلام حسین دراصل ماسٹر اقبال کے دوست اور جونیئر تھے اور ایک بار سکول ان کے پاس آئے اور ہماری کلاس کو پڑھایا۔ اسی دن میں نے فیصلہ کیا کہ بس پڑھنا ہے تو ماسٹر غلام حسین کے پاس پڑھنا ہے۔ وہ تب پانچویں کلاس کو پڑھاتے تھے۔ جب میں پانچویں جماعت میں پہنچا تو کڑی جمنداں کا سکول چھوڑ کر میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں آ گیا۔ ماسٹر غلام حسین مرحوم تب پانچویں جماعت کو پڑھاتے تھے۔ سکول میں پانچویں کے دو سیکشن تھے میں ماسٹر غلام حسین صاحب والے سیکشن میں داخل ہو گیا۔
تب تک تو مجھے علم ہی نہیں تھا کہ شہر میں کوئی کانوونٹ سکول یا لاسال سکول ہے جہاں انگریزی میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے یا کوئی جونیئر سکول بھی موجود ہے۔ تب ہماری ساری معلومات میونسپل پرائمری سکول سے لے کر اسلامیہ ہائی سکول اور پھر وہاں سے پائلٹ سیکنڈری سکول ہمارے علم کی آخری حد تھی۔ بڑے بھائی طارق محمود مرحوم تب پائلٹ سیکنڈری سکول میں پڑھتے تھے۔ ہمارے محلے میں کوئی بچہ بھی کسی انگریزی میڈیم سکول میں نہیں پڑھتا تھا اس لیے ہمیں ان سکولوں کے بارے میں سرے سے علم ہی نہیں تھا۔ بعد میں گلابی چیک شرٹوں میں تانگے پر بچوں کو جاتے دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی صاف ستھری یونیفارم میں ملبوس بچے اسی شہر کے کسی سکول میں پڑھتے ہیں۔ لا سال ہائی سکول سے واقفیت اس طرح ہوئی کہ میں چٹھی کلاس میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں داخل ہوا تو سکول جاتے ہوئے اس سکول کے آگے سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ سلیٹی رنگ کی پینٹ یا نیکر میں ملبوس بچے سفید شرٹ پر ٹائی لگائے سکول آتے تھے۔ اس سکول کے آگے صبح بچوں کو چھوڑنے والی کچھ کاریں بھی ہوتی تھیں۔ سردیوں میں ایک جیسے گرم کوٹ‘ جن کی اوپر والی جیب پر سکول کا نام اور مونوگرام کڑھائی کیا ہوا ہوتا تھا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اس سکول سے گزرتے ہوئے حسرت سی ہوتی تھی کہ ہمارے گھر والوں نے ہمیں اس سکول میں داخل کیوں نہیں کروایا؟ ٹاٹ والے سکول سے فارغ التحصیل ہو کر جب گلگشت ہائی سکول میں بینچ نصیب ہوئے تو اس ''اَپ گریڈیشن‘‘ پرشروع شروع میں تو کافی خوشی محسوس ہوئی‘ لیکن اس خوشی کو لا سال ہائی سکول کھا گیا جس کے آگے سے روزانہ دو بار گزرتے ہوئے اپنا سکول خاصا فارغ لگتا تھا۔
تب طبقاتی فرق بہت زیادہ نہیں تھا۔ لا سال کے بیشتر بچے اپنی سائیکلوں پر آتے تھے۔ بمشکل پچاس ساٹھ بچے ہوں گے جن کو ان کے والد سکوٹر پر سکول چھوڑتے تھے اور دس بارہ یا پندرہ بیس بچے ایسے ہوں گے جن کو ان کے گھر والے خود یا ڈرائیور گاڑی پر چھوڑنے آتا تھا۔ سائیکلوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا۔ بھلا سائیکل میں کتنا فرق ہو سکتا ہے؟ میرے پاس ابا جی کی ریٹائر کردہ ''ریلے‘‘ سائیکل تھی۔ میرے سکول کے بیشتر بچوں کے پاس سہراب یا ایگل کی سائیکل ہوتی تھی جبکہ لا سال سکول کے بچے بھی زیادہ تر انہی سائیکلوں پر آتے تھے‘ فرق صرف اتنا تھا کہ ان کے پاس جو سائیکلیں تھیں وہ ان کی اپنی عمر کے حساب سے مناسب سائز کی ہوتی تھیں جبکہ ہمارے پاس وہی بڑی سائیکلیں ہوتی تھیں جو ابا جی یا بڑے بھائی نے پرانی کر کے بخشیش میں دی ہوتی تھیں۔
تب اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم سکولوں میں صرف ذریعہ تعلیم کی زبان کا فرق ہوتا تھا ‘سلیبس ایک جیسا ہوتا تھا۔ ہمارا اور لاسال یا کانوونٹ کا معاشرتی علوم ایک جیسا ہوتا تھا‘ صرف اردو اور انگریزی کا فرق ہوتا تھا۔ دونوں نظام کے تحت پڑھنے والے طالب علم میٹرک کا امتحان دیتے تھے۔ ملتان بورڈ سے سند حاصل کرتے تھے اور میٹرک کے بعد ایک ہی کالج میں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ ان کالجوں میں یہ عالم تھا کہ ع
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
نظام تعلیم یوں سمجھیں ایک تھا صرف ذریعہ تعلیم کی زبان میں فرق تھا۔ بعد میں سارا نظام ہی تبدیل ہو گیا۔ اے لیول‘ او لیول‘ جی سی ایس سی اور جانے کیا کیا پاکھنڈ پھیلا دیا گیا۔ ٹاٹوں والے سکول کے بچے اس دوڑ میں اتنا پیچھے رہ گئے کہ اب دور دور تک کہیں نظر نہیں آتے۔ عمران خان جب کہتے ہیں کہ ملک میں یکساں نصاب اور ایک نظام تعلیم ہوگا تو ہنسی آتی ہے۔ اس گئی گزری جمہوریت میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ابھی ایسی باتوں پر ہنس سکتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved