تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     08-10-2019

مولانا اور لانگ مارچ

مولانا فضل الرحمن نے اپنے متوقع '' آزادی مارچ‘ ‘ کا اعلان کر دیا ہے‘ جو مبینہ طور پر اس ماہ کی ستائیس تاریخ کو شروع ہوگا ۔نیت اور مقصد جو بھی ہو یہ مولانا کااس نظام کے خلاف آخری اقدام ہوگا‘ جس نے انہیں حکومتی راہداریوں سے نکال با ہر کیا ہے۔ابتدا ہی میں اس اَمر کی نشاندہی ضروری ہے کہ مولانا اور ان کے حامیوں کو کسی جگہ اکٹھا ہونے (آرٹیکل 16-)سیاسی ایسوسی ایشن بنانے (آرٹیکل 17-)اور اسلام آباد آنے (آرٹیکل 15-)کا آئینی حق ہے۔انہیں یہ حق ''پبلک آرڈر ‘‘ اور ''اخلاقیات ‘‘جیسے ایشوز میں حاصل ہے‘مگر اس کوالیفکیشن کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مولانا اور ان کے حامی لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد نہیں آسکتے۔درحقیقت سیاسی تحریک یا احتجاج ہر جمہوری معاشرے کا لازمی حصہ ہوتا ہے اورحکمران جماعت کی پالیسیوں کو مستقل طور پر چیک کرنے کے لئے اسے تسلیم کیا جاناچاہئے۔اس کے باوجود آخر اس مارچ کے پس پردہ کیا بات ہے ؟کیا کوئی ایسے پالیسی مطالبات ہیں جو مولانا کے مارچ میں مہمیز کا کام کر رہے ہیں؟کیا یہ لانگ مارچ مسئلہ کشمیر یا اس حوالے سے حکومتی کار کردگی سے متعلق ہے؟کیا یہ مارچ ملکی معیشت کے حوالے سے ہوگا؟یا یہ پولیس کے ظلم و ستم کے خلاف ہے؟یا یہ مارچ حکومت کی مجوزہ مدرسہ ریفارمز سے متعلق ہے؟کیا مولانا صاحب اپنے کسی آئینی یا قانون سازی سے متعلق مطالبات کے حصول کے لئے یہ مارچ کر رہے ہیں؟اگر کوئی مخصوص قانون پاس ہو جائے یا اس بارے میں کوئی عملی اقدام ہو جائے تو کیا وہ اپنا دھرنا لپیٹ کر واپس آجائیں گے؟کیا یہ مارچ صرف عمران خان کی مخالفت کے لئے کیا جا رہا ہے؟اگر عمران خان مستعفی ہو جاتے ہیں‘ مگر پالیسی میںکوئی بڑی تبدیلی رونما نہیںہوتی تو کیا ہوگا؟کیا مولانا صاحب مطمئن ہو جائیں گے؟کیا اس دھرنے کے نتیجے میں عوام کے لئے بھی کوئی تبدیلی رونما ہوگی ؟
کیا مولانا صاحب محض ایک پراکسی کے طور پر استعمال ہورہے ہیں‘ جن سے وہ پریشر ڈلوانا مقصود ہے جس میں(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کامیاب نہیںہو سکے؟کیا مولانا کو تقویت دینے کے لئے دیگر جماعتیں بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گی؟کیا وہ انہیں مادی اور مالی وسائل فراہم کریں گی؟یا یہ لانگ مارچ محض حکومتی راہداریوںمیں دوبارہ گھسنے کی غرض سے محض دباؤ ڈالنے کی ایک تکنیک ہے؟ اگرحکومت انہیں کوئی منفعت بخش ذمہ داری اور منسٹرز انکلیو میں ایک گھر دے دیتی ہے تو کیا مولانا صاحب اپنا دھرنا سمیٹ کر گھر واپسی کی راہ لیںگے؟ ہم معمول سے ہٹ کر کچھ باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔مولانا صاحب کے پاس کوئی پالیسی یا انتظامی مطالبات نہیں ہیں۔ان کے پاس معیشت کی بحالی کے لئے ایسی کوئی تجاویز نہیں ہیں‘جن پر عمل کرنے سے حکومت انکاری ہو۔وہ یہ بھی شکایت نہیں کر رہے کہ حکومتی بیانیے میںمذہبی احساس کا فقدان پایا جاتا ہے اور اقوام متحدہ میں عمران خان کے خطاب کے بعد تو اس کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ مولانا صاحب کو حکومت کی کشمیر پالیسی کے بار ے میں بھی کوئی شکایت نہیں ہے اور وہ ایسا اس لئے بھی نہیںکر سکتے کہ کہ خود قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے دس سال سربراہ رہنے کے باوجود ان کی اپنی کار کردگی انتہائی مایوس کن رہی۔شاید انہیں ''الیکشن میں دھاندلی ‘‘ کی شکایت ہے۔یہ ایک حد تک جائز بھی ہے‘2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں کافی الزامات ہیں‘مگر ان الیکشن کے بارے میںمولانا صاحب کی اصل شکایت ہے کیا؟ 2013ء کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی نے بعض مخصوص نوعیت کے الزام عائد کئے تھے مثلاًچار حلقے کھولنے کا مطالبہ ‘ہر حلقے میں جعلی ووٹوں کا کھلا الزام وغیرہ‘مگر مولانا صاحب کوئی ایسادعویٰ یا الزام عائد نہیں کر رہے ۔کسی ٹھوس مواد کے بغیر الیکشن میں دھاندلی کا الزام محض ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ‘ جس کا مقصد اپوزیشن سیاسی جماعتوںکی ملمع کاری کرنا ہے ۔ 
تو پھر یہ کیا ہے ؟مولانا اور ان کے حامی اسلام آباد کیا لے کر آرہے ہیں؟اور ریاست کو ان سے بات چیت کے لئے کیا کوشش کرنی چاہئے؟اگر ہم مولانا صاحب کی لانگ مارچ کال پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو اس کے پیچھے ہمیں دو محرکات نظر آتے ہیں‘ اول : عمران خان سے اندھی نفرت ‘دوم:اس ''سسٹم‘‘میں گھسنے کی خواہش اور بیتابی جو مولانا صاحب کی شمولیت کے بغیر بھی کام کرتا نظر آرہا ہے ۔ پہلا محرک ‘یعنی عمران خان سے اندھی نفرت ایسا ایشو ہے جو مولانا اور کم از کم ایک اور اپوزیشن لیڈر مریم نواز کے درمیان قدر ِمشترک ہے۔یہ امید ہے کہ اگر عدالت سے انہیں ضمانت مل گئی تو وہ یقینا اسلام آباد میں مولانا کے دھرنے کا حصہ ہوں گی۔شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے سسٹم کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کا عندیہ دیا ہے اور اگر ممکن ہوا تو وہ عمران خان کے ساتھ نبھاہ کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔مگر مولانا اور مریم نواز ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی برطرفی اور تذلیل سے کم پر وہ راضی نہیں ہوں گے۔اس مقصد کے لئے وہ ریاست دشمن علاقائی فورسز کے ہاتھ مضبوط کرنے سے گریز نہیں کریں گے ‘حتیٰ کہ وہ ہمارے ڈانواں ڈول جمہوری نظام کو بھی ڈی ریل کرنے کا رسک لینے کے لئے بھی تیار ہوں گے۔اس طرح کی نفرت (جسے ہم بغض کہتے ہیں) کا کوئی عقلی حل نہیں ہوتا ۔کسی پالیسی یا قانونی حل کے ذریعے بھی اس کی تسکین نہیں ہو سکتی۔یہ نفرت ایسے ہی رہے گی اور شاید کبھی ختم نہ ہو۔
دوسرا فیکٹر یعنی حکومت سے مولانا کی بے دخلی‘ تو یہ کسی حد تک قابلِ فہم ہے ‘مولانا اپنے بغیر ریاست کو کام کرتے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں‘وہ فیصلہ سازی کے عمل سے دور رہ ہی نہیں سکتے۔گزشتہ بیس برسوں میں مولانا کوہر حکومت میں جگہ مل ہی جاتی تھی۔آخری مرتبہ 1997ء کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی میں نہ پہنچ سکے ۔2002ء کے الیکشن کے بعد مولانا وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے اور انہیں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر قناعت کر نا پڑی۔2007ء کے الیکشن کے بعد بھی مولانا نے وزیر اعظم بننے کے لئے اپنی بولی لگوائی۔گارڈین اخبار میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں ڈیکلن والش نے (وکی لیکس کے حوالے سے)انکشاف کیا کہ ملک کی سب سے بڑی طالبان نواز مذہبی جماعت کے لیڈر مولانا فضل الرحمن نے امریکی سفیر پیٹرسن کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا‘ جس میں انہوں نے سفیر سے درخواست کی کہ وہ وزیر اعظم بننے میں ان کی پشت پناہی کریں۔اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ کا دورہ کرنے کی درخواست بھی کی۔مولانا کے قریب ترین ساتھی اور مشیر سینیٹر عبدالغفور حیدری کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ پاکستان کی تمام جماعتوں کو حکومت بنانے کے لئے امریکہ سے منظور ی لینا پڑتی ہے ۔ملاقات کے بعد پیٹرسن نے اپنے حکام بالا کو رپورٹ بھیجی کہ مولانا صاحب نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کے ووٹوں کی ایک خاصی تعداد ابھی تک برائے فروخت ہے ۔
2008ء کے بعد آصف زرداری اور نواز شریف کے ادوار ہائے حکومت میں مولانا کو اقتدار کے اعلیٰ ترین مناصب تک رسائی رہی اور وہ مسلسل کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے‘ جس کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے ۔مگر اس کے بعد سب کچھ تبدیل ہو گیا ۔نہ صرف یہ کہ مولانا پارلیمنٹ کی اپنی سیٹ سے ہار گئے بلکہ انہیں منسٹرز انکلیو میں اپنا مستقل گھر بھی چھوڑنا پڑا۔ان کی پارٹی کے لوگ اب بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں‘ مگر وہ خود نہیں ہیں‘اور یہی ان کا اصل مسئلہ ہے۔ اس لانگ مارچ کا اصل محرک یہی ہے کہ ''ہمیں کیوں نکالا‘‘۔ ہم اس لانگ مارچ کو وہی نام دیتے ہیں جو کہ یہ ہے ۔آپ اسے پاکستانی سیاست میں اپنا وجود اور جواز قائم رکھنے کے لئے مولانا صاحب کی آخری کوشش کہہ سکتے ہیں۔آپ اسے ''مجھے کیوں نکالا‘‘ہی کی ایک شکل کہہ سکتے ہیں۔یہ ذاتی بقا اورجاہ و جلال کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے ۔یہ بات اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ اس لانگ مارچ کی بنیاد یا تقاضے کے پس پردہ کوئی پالیسی یا قانون سازی کا ایجنڈا نہیں ہے مولانا صاحب اور ان کے حامیوں کو پرامن طریقے سے اسلام آباد آنا چاہئے۔حکومت کو بھی ان کے راستے میںکوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے نہ کسی قسم کی محاذ آرائی کا موقع دینا چاہئے۔جب وہ اسلام آباد پہنچ جائیں تو شاید ہمیں ٹھیک طرح معلوم ہو سکے کہ مولانا صاحب کس بات پر احتجاج کر رہے ہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved