ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ عدی بن حاتم طائی کے متعلق مجھ تک جو روایات پہنچی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حددرجہ نفرت کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے دین عیسائیت اختیار کرلیا تھا اور میں اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ میرا مقام بادشاہوں اور حکمرانوں جیسا تھا۔ بنو طے سے مال غنیمت کا چوتھا حصہ مجھے ملتا تھا‘ اسی پر گزر بسر تھی۔ میں اپنے مذہب کو سچا مذہب گردانتا تھا اور اپنی حکمرانی پر بہت نازاں تھا۔ مجھے کسی قسم کا غم اور فکر نہ تھا۔
وقت گزرتا گیا‘ یہاں تک کہ کسی نے مجھے محمدبن عبداللہ کے بارے میں بتایا۔ ان کا نام سنتے ہی مجھے ان سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ جب مدینہ سے ان کی فوجیں گردونواح کے علاقوں میں نکلنے لگیں تو مجھے فکر دامن گیر ہوئی۔ میں نے اپنے ایک عربی غلام سے کہا: ''تیرا بھلا ہو میرے لیے موٹے تازے تیز رفتار اونٹوں کا ایک گلہ تیار رکھنا۔ جونہی محمدؐ کے لشکروں کی خبرپہنچے مجھے فوراً مطلع کردینا۔‘‘ میرا یہ غلام میرے اونٹوں کی رکھوالی کیا کرتا تھا۔میری ہدایات کے مطابق‘ اس نے اونٹ تیار کرلیے۔ ایک دن وہ بھاگتا ہوا میرے پاس پہنچا اور کہا: ''محمدؐ کے لشکر آگئے ہیں‘ میں نے دور سے کچھ جھنڈے دیکھے‘ معلوم ہوا کہ افواجِ محمدؐ ہیں‘ اب جو کرنا ہو‘ کرلو۔‘‘یہ سنتے ہی میں نے غلام سے کہا: ''میرے اونٹ جلدی حاضر کرو۔‘‘ جب اونٹ آگئے تو میں نے ضروری سامان لیا اور اہل وعیال کو اونٹوں پر بٹھایا اور شام کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ شام میں میرے ہم مذہب عیسائیوں کی حکومت ہے‘ ان سے جاملوں گا۔ اس بھگدڑ میں میری بہن سفانہ بنت حاتم پیچھے رہ گئی۔ روانگی کے وقت وہ کہیں کسی ضروری کام سے گئی ہوئی تھی۔ میں بادلِ حزین بہن کو چھوڑ کر شام چلا گیا۔
اسلامی فوج نے بنوطے کو شکست دی اور ان کے مال مویشی پکڑ لیے‘ بہت سی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ اکثر مرد میدان جنگ سے بھاگ گئے۔ قیدی مدینہ لائے گئے۔ حضور اکرمؐ کو میرے شام کی طرف بھاگ جانے کی اطلاع مل گئی تھی۔ بنوطے کے قیدیوں کو مسجد کے قریب ایک احاطے میں رکھا گیا اور ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کی گئی۔ میری بہن بھی ان کے ساتھ قید تھی۔ ایک دن رسول کریم ؐوہاں سے گزرے تو میری بہن کھڑی ہوگئی۔ وہ بڑی جرأت مند اور فصیح زبان عورت تھی۔ اس نے کہا: ''یارسول اللّٰہؐ ھلک الوالد وغاب الوافد فامنن علّی منَّ اللہ علیک‘‘ یعنی اے اللہ کے رسولؐ میرا باپ فوت ہوگیا ہے اور سرپرست بچھڑ گیا ہے۔ آپ مجھ پر احسان فرمائیں‘ اللہ آپ پر احسان فرمائے گا۔‘‘
آپؐ نے پوچھا: ''تیرا سرپرست کون ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''عدی بن حاتم۔‘‘رسول پاکؐ نے پوچھا: ''کیا وہی جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے دور دور بھاگتا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر آپؐ چلے گئے۔ دوسرے روز پھر نبی پاکؐ قیدیوں کے پاس سے گزرے۔ بنت حاتم نے پھر وہی بات کہی‘ جو پہلے دن کہہ چکی تھی۔ آپؐ نے اپنا وہی جواب دہرایا۔ بنت حاتم کہتی ہیں کہ جب تیسرا دن ہوا اور آپؐ قیدیوں کے پاس آئے تو میں مایوس ہوچکی تھی ‘مگر حضور پاکؐ کے پیچھے پیچھے ایک نوجوان چلا آرہا تھا‘ اس نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں اپنا معاملہ پیش کروں؛ چنانچہ میں ہمت پاکر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی درخواست دہرائی۔میری درخواست سن کر آپؐ نے فرمایا: ''میں نے تم پر احسان کیا اور تم سب کو آزادی دے دی ہے‘ مگر جلدی نہ کرنا‘ یہاں انتظار کرو‘ یہاں تک کہ تمہاری قوم کا کوئی معتمد آدمی یا قافلہ ادھر سے گزرے‘ پھر ان کے ساتھ چلے جانا۔ جانے سے پہلے مجھے اطلاع دے دینا۔‘‘میں نے اس آدمی کے بارے میں پوچھا ‘جس نے مجھے نیک مشورہ دیا تھا۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ علی بن ابی طالب ہیں‘ رسول اللہؐ کے چچا زاد بھائی۔ میں آنے جانے والے قافلوں کے بارے میں پوچھتی رہی ‘بالآخر قبیلہ بلی یا قضاعہ کا ایک کارواں آیا۔ وہ شام جارہے تھے اور ان سے ہماری جان پہچان تھی۔ میں بھی اپنے بھائی کے پاس شام جانا چاہتی تھی۔ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپؐ نے مجھے کپڑے عطا فرمائے۔ سواری دی اور راستے کا سفر خرچ دے کر عزت وتکریم سے رخصت فرمایا۔ میں اس کارواں کے ساتھ شام چلی گئی۔ باقی بچوں اور خواتین کو بنوطے کے علاقے میں بھیج دیا گیا۔
عدی کہتے ہیں: ''خدا کی قسم میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ شام میں مقیم تھا ‘مگر سخت پریشان تھا۔ دھیان اپنی بہن کی طرف رہتا تھا۔ پتا نہیں اس پر کیا بیت رہی ہو گی۔ ایک روز اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ سامنے سے ایک قافلہ نظر آیا۔ ایک اونٹ پر محمل میں کوئی پردہ نشین سوار تھی۔ وہ قافلہ ہماری جانب بڑھتا چلا آیا۔ میں نے دل میں کہا یہ حاتم طائی کی بیٹی چلی آرہی ہے‘ جب وہ پہنچی تو وہی تھی۔‘‘ میرے پاس پہنچتے ہی اس نے مجھے ملامت کرنا شروع کردی۔ ''قطع رحمی کرنے والے‘ ظالم تونے اپنے بال بچوںکو اپنے ساتھ سوار کرکے فرار کی راہ اختیار کر لی اور اپنے باپ کی بیٹی اور اس کی عزت کو چھوڑ آیا۔‘‘ میں خود بہت نادم تھا۔ میں نے کہا: ''پیاری بہن تم نے جو کچھ کہا سچ ہے میں کوئی عذر پیش نہیں کرتا‘ اب مجھے معاف کردے اور کوئی بدعا نہ دینا۔‘‘ پھر وہ سواری سے اتری اور میرے پاس مقیم ہوگئی۔ وہ بڑی عقل مند خاتون تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: ''تم نے اس شخص (محمدؐ) کو کیسا پایا ہے اور اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘اس نے جواب دیا: ''میری رائے یہ ہے کہ تم فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ۔ اگر یہ شخص اللہ کا نبیؐ ہے تو اس کی جانب جلدی جانا باعث ِفضیلت ہے اور اگر بادشاہ ہے تو وہ لوگوں کی قدر کرنا جانتا ہے۔ اس کے ہاں عزت والوں کو ذلیل نہیں کیا جاتا اور تمہارا مقام ومرتبہ تو ظاہر وباہر ہے۔‘‘
میں نے اس کی رائے کو صائب جانا اور مدینہ کی جانب چل دیا۔ مدینہ پہنچا تو حضور پاکؐ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا‘ آپؐ نے پوچھا: ''کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ''عدی بن حاتم طائی۔‘‘ آپؐ نے میرا پرجوش استقبال کیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے۔ گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک بدحال کمزور بڑھیا نے انہیں روک لیا۔ آپؐ دیر تک اس کی باتیں سنتے رہے اور وہ اپنی مشکلات اور ضروریات کا ذکر کرتی رہی۔میں نے اپنے دل میں کہا: ''خدا کی قسم یہ بادشاہ تو نہیں ہیں۔‘‘ بڑھیا سے فارغ ہوکر آپؐ مجھے گھر لے گئے۔ چھوٹے سے گھر میں آپؐ نے کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا گدا میری طرف بڑھایا اور فرمایا: ''اس کے اوپر بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا: ''نہیں آپؐ اس پر تشریف رکھیں۔‘‘ مگر آپؐ نے حکم دیا: ''نہیں تم اس پر بیٹھو۔‘‘ میں گدے پر بیٹھ گیا‘جبکہ رسولِ مقبولؐ چٹائی پر تشریف فرما ہوئے۔ اب پھر میں نے دل میں کہا: ''خدا کی قسم یہ معاملہ بادشاہوں والا تو نہیں ہے۔‘‘آپؐ نے مجھ سے فرمایا: ''اے عدی! کیا تو رکوسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا؟ (رکوسی ایک مذہبی گروہ تھا‘ جن کے دینی عقائد و رسومات صابیوں اور عیسائیوں کے بین بین تھے)۔ میں نے عرض کیا: ''جی ہاں مَیں رکوسی ہوں۔‘‘ آپؐ کا دوسرا سوال تھا: ''کیا تم اپنی قوم سے مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ وصول نہ کرتے تھے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ''جی ہاں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ''یہ وصولی تمہارے دین کے مطابق ‘حلال بھی نہ تھی۔‘‘ میں نے تسلیم کیا کہ حضورؐ کا فرمان درست ہے۔ اب میں بخوبی جان گیا کہ آپؐ اللہ کے رسولِ برحق ہیں‘کیونکہ جو باتیں عربوں کو ہر گز معلوم نہ تھیں‘ آپؐ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔
اب آپؐ نے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا‘ فرمایا: ''اے عدی شاید دین ِ اسلام میں داخل ہونے سے تمہیں یہ امر مانع ہے کہ اہلِ اسلام کی مالی حالت بہت کمزور ہے؟ خدا کی قسم مال و دولت کی ایسی ریل پیل ہوجائے گی کہ دینے والے سبھی ہوں گے اور لینے والا کوئی نہ ہوگا اور شاید تجھے اس چیز کی بھی پریشانی ہو کہ یہ لوگ تعداد میں بہت قلیل ہیں اور پوری دنیا ان کی دشمن ہے؟ خدا کی قسم اس دین کا غلبہ یوں ہوگا کہ تو سن لے گا اور دیکھ لے گا کہ ایک خاتون زیورات سے لدی پھندی تن تنہا اپنے اونٹ پر قادسیہ سے سوار ہوگی اور حج بیت اللہ کے لیے مکہ کا سفر کرے گی۔ اسے کوئی ڈر اور خطرہ نہ ہوگا۔ اے عدی ممکن ہے کہ تو نے سوچا ہو دنیا میں بہت سے بادشاہ اور سلاطین ہیں اور ان لوگوں میں کوئی تاجدار نہیں۔ بخدا تو سن لے گا کہ بابل کے سفید محلات ان لوگوں کے ہاتھوں فتح ہوجائیں گے۔ قیصر شکست و ہلاکت سے دوچار ہوگا‘ پھر دنیا سے قیصریت ختم ہوجائے گی۔ کسریٰ ہلاک و معدوم ہوجائے گا اور کوئی کسریٰ پھر اس کے تخت پر نہ بیٹھے گا۔‘‘عدی کہتے ہیں: ''یہ سن کر میں نے اِسلام قبول کرلیا۔‘‘ وہ کہا کرتے تھے: ''میں نے دو باتیں تو دیکھ لی ہیں۔ بابل کے محلات بھی فتح ہوچکے ہیں اور قادسیہ سے تنہا سفر کرنے والی عورت بھی میں نے دیکھی ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی اور صدقہ و خیرات لینے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘ (حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں یہ پیش گوئی پوری ہوگئی)