تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-10-2019

من موج

دنیا میں انسان کو مجبور پیدا کیاگیا ہے ۔ہم میں سے ہر کوئی ساری زندگی ان مجبوریوں سے نباہ کرتا ہے ۔ یہ مجبوریاں کیا ہیں ؟ پیٹ پالنے کی مجبوری ۔ آپ کا باس آپ کی شدید بے عزتی کرتا ہے ۔ آپ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں ۔ آپ کا خون جوش مارتا ہے‘ لیکن مجبوری ایک بھی سخت لفظ زبان سے ادا ہونے نہیں دیتی۔وہ سوچتا ہے:باس نے اگر نوکری سے نکال دیا تو کیا ہوگا ؟ کتنے ہی شوہر ہیں جو اپنی بدزبان بیوی سے سخت نالاں ہیں ۔ اگر انہیں موقع ملے تو ایک سیکنڈ میں اس سے جان چھڑا لیں‘ لیکن پھر وہ بچوں کو دیکھتے ہیں اور گردن جھکا لیتے ہیں ۔ کتنی ہی بیویاں ہیں‘ جنہیں اگراختیار ملے تو دوبارہ کبھی اپنے شوہر کا چہرہ دیکھنا گوارا نہ کریں‘ پھر وہ سوچتی ہیں کہ میں یہاں سے جائوں تو جائوں کہاں؟ گھر کے اخراجات تو شوہر ہی برداشت کر رہا ہے۔بے شمار لوگ ہیں ‘ جو اپنی نوکری سے ‘ لگی بندھی روٹین سے تنگ ہیں ۔ ان کا خواب ہے کہ کبھی ایک دن جنگل میں وہ کسی ندی کنارے ایک خیمے میں وقت گزار سکیں اور آگ پر تازہ شکار کیا ہوا گوشت بھون کر کھائیں ۔ افسوس کہ یہ خواب خواب ہی رہتاہے ۔ ساری زندگی انسان ان مجبوریوں سے نباہ کرتے گزار دیتا ہے ۔ 
لیکن دنیا میں ایک خاص قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں ۔ یہ زیادہ دیر مجبوری سے نباہ نہیں کرتے ۔ ایک وقت آتا ہے ‘ جب یہ لوگ اس مجبوری کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں ۔ وہ استعفیٰ لکھ دیتے ہیں ۔ وہ اپنا بریف کیس اٹھاتے ہیں اورکسی نئی ‘ انجان منزل کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ آج دنیا جہاں موجود ہے ‘ اس میں ایک بہت بڑا کردار ان لوگوں کا ہے ‘ جو مجبوری کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ 
یہ لوگ جب مجبوری کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیتے ہیں تو پھر انہیں تکالیف سے گزارا جاتاہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ عوام میں ان کی محبت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ مجبور معاشرے کے مجبور لوگ جب انہیں مجبوری کے سامنے جھکنے سے انکار کر تا ہوا دیکھتے ہیں تو یہ انہیں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوتی ہے ۔ تاریخ میں ان کا نام لکھ دیا جاتاہے ۔ حضرت بلالؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے ‘ جو انسانی تاریخ میں صرف ایک ہی ہیں ۔ کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ ایک غلام ابنِ غلام کی حیثیت سے‘ اگر حضرت بلالؓ بھی اپنی مجبوریوں سے سمجھوتہ کر لیتے تو اسلامی تاریخ کتنی مختلف ہوتی ؟ لیکن یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ بلالؓ سمجھوتہ کر لیتے ۔ اس لیے کہ حالات کے جبر میں بظاہر پیدائشی غلام ہونے کے باوجود ذہنی طور پر آپؓ آزاد تھے ۔ جیسے ہی سرکارؐ اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں ‘ حضرت بلالؓ ایمان لے آتے ہیں اور بدترین تکالیف کو اپنے جسم و جان پہ گزر جانے کی دعوت دے ڈالتے ہیں ۔ 
حضرت بلال ؓ کا موازنہ توکسی سے ممکن ہی نہیں ‘لیکن عام لوگوں میں کہیں نہ کہیں آپ کو ایک اور طرح کے لوگ ضرور نظر آئیں گے ‘ جنہیں من موجی کہا جاتاہے ۔ ایک خاص حد کے بعد نہ انہیں نہ تو اپنی نوکری ختم ہونے کا ڈر باقی رہتاہے اور نہ ہی یہ کسی کی منتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ‘بلکہ اس خاص لمحے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ جو پہاڑ گرنا ہے ‘ آج گر ہی جائے ۔ 
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ قوموں کی برادری میں پاکستان ایک من موجی ملک ہے ۔ یہ ایک غریب ملک ہے ۔ کرپشن عام ہے ۔ا بھی یہ اس دور سے گزر رہا ہے ‘ جہاں پہلی بار یہ تصور پیدا ہوا ہے کہ طاقتور افراد بھی قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں ۔30مئی 2019ء کو قومی ادارے کی طرف سے ایک سابق ملازم کو حساس معلومات بیرونِ ملک بھیجنے کے جرم میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی ۔ دوسری طرف ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور ان کے کچھ اہلِ خانہ گرفتاری اور تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ملازمین کے شناختی کارڈ استعمال کرتے ہوئے کرپشن کا پیسہ بیرونِ ملک بھیجنے والی بڑی سیاسی شخصیات کے خلاف تحقیقات جار ی ہیں ۔ میڈیابڑی حد تک آزاد ہے اور عدالتیں بھی‘ لیکن ملک قرض میں ڈوبا ہوا ہے ۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کی دس سالہ حکومت نے ان قرضوں میں انتہائی حد تک اضافہ کیا ہے اور نئی حکومت بھی قرض لینے کے معاملے میں ان کی پیروی کرتی نظر آرہی ہے ۔پاکستان کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے ؛لہٰذا یہ ایک مجبور ملک ہے ۔ 
لیکن ‘اس سب کے باوجودکچھ چیزیں ایسی ہیں ‘ جن میں پاکستان آپ کو ایک من موجی نظر آئے گا۔ کئی بار یہ ایسے اقدامات اٹھاتا ہے ‘ جہاں اسے پوری دنیا کی مخالفت کی کوئی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔عالمی برادری سب سے زیادہ قوت کے ساتھ جس چیز پر ری ایکٹ کرتی ہے ‘ وہ کسی ملک کی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش ہے ۔ ایران نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کے دیکھ لیا‘ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کر سکا۔لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوری کی؛حالانکہ ایٹمی ہتھیار کوئی ہیرے جواہرات نہیں کہ آپ کو کہیں سے مل گئے اور آپ اٹھا کر لے آئے۔ ان کی حفاظت‘ maintenanceکرنا ہوتی ہے ۔ ورنہ عراق ‘ لیبیا اور ایران والوں کے ساتھ کیا ہوا ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش میں ۔ چلئے ایٹمی ہتھیار بن گئے ‘ پھر ان کوہدف پہ deliverکرنا؟ میزائل پروگرام بھی بنا اور ایسا شاندار کہ دنیا ششدر ہے ۔ شاہین تھری جیسا میزائل بنا اور چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ‘ جنہیں روایتی جنگ میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ امریکہ سمیت دنیاان چیزوں کے سخت خلاف تھی کہ پاکستان یہ صلاحتیں حاصل کرے۔ افغان جنگ کی آڑ میں پاکستان اپنے اہداف انتہائی چالاکی کے ساتھ حاصل کرتا رہا۔ 
پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ دیکھ لیں ۔ 2007ء میں ملک میں روزانہ خود کش دھماکے ہوا کرتے ۔ عراق اور شام سمیت دنیا میں ایک بھی ایسا ملک موجود نہیں ‘ جس نے اس طرح کی دہشت گردی کے بعد امن حاصل کیا ہو ۔ خصوصاً سوات اور جنوبی وزیرستان کے آپریشنز کی تو کوئی مثال نہیں ملتی ۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کر کے بھی افغانستان میں ہار گیا ‘ جبکہ پاکستان پچاس ساٹھ ارب ڈالر خرچ کر کے یہ جنگ جیت لیتا ہے ۔ یہ بڑی بڑی کامیابیاں کسی طرح بھی ہضم نہیں ہوتیں‘ جب آپ پاکستان کو ہر میدان میں ناکام دیکھتے ہیں ۔ 
اسی طرح پیدائشی طور پر بھارت جیسے بڑے طاقتور دشمن کی موجودگی میں سروائیو کرنا ‘ جس کی وجہ سے آپ کی آدھی فوج ہمیشہ مشرق میں انگیج رہتی ہے ۔ اس بڑے دشمن کی موجودگی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا اور جیت لیتا۔ اگست 2014ء میں جب شمالی وزیرستان آپریشن شروع ہوا‘ تو بھارت نے سرحدوں پر ایک چھوٹی جنگ چھیڑ دی تھی اور کئی ماہ تک شدید گولہ باری ہوتی رہی ۔ 
پاکستان کے من موجی ہونے کی ایک شہادت یہ ہے کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا‘ امریکہ جس کا پشتیبان ہے اور ہمیں امریکہ کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا‘ پاکستان نے نہیں کیا ۔ ان سب معاملات کو جب دنیا دیکھتی ہے تو اسے محسوس ہوتاہے کہ پاکستان ایک خطرناک ملک ہے‘ گوکہ یہ غربت کا مارا ہوا ہے‘ لیکن جب اس کی جان پہ بن جائے‘ تو پھر یہ من موجی ملک ساری مجبوریاں ایک طرف رکھ کر کوئی بھی کارنامہ سر انجام دے سکتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ہمیشہ پاکستان کی طرف سے محتاط رہتی ہے ۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved