تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-05-2013

مشرق جیت رہا ہے…!

کیسا حادثہ تھا کہ دل و جاں پر گزر گیا۔ بچے اداس اور سہمے ہوئے تھے۔ آنکھیں تھیں کہ چھلکنے کو بے تاب‘ میرے ارد گرد جمع ہو گئے جیسے میں کوئی مسیحا ہوں۔ ایسے لمحوں میں اُس کا خیال ہاتھ تھامتا ہے جو زندگی کامالک ہے اور موت کا بھی۔مرض دیتا ہے تو شفا بھی عطا کرتاہے۔دل مردہ نہ ہوتو پریشانی میں صرف اسی کاخیال آتاہے جو امید کا چراغ جلا دیتا ہے۔میں نے اپنے بچوں امل اور احمد کو پیار کیا اور کہا: نوافل پڑھو اور اطمینان رکھو کہ تمہاری بات اس کے دربار میں پہنچ گئی جہاں موت و حیات دست بستہ حکم کی منتظر رہتی ہیں۔میں نے بھی جانماز تلاش کی اور رب کے حضور قیام کیا۔ نماز اور صبر… اﷲ کی کتاب کہتی ہے کہ ایسے وقت میں اُن سے بہتر سہارا کوئی نہیں۔ نہیں معلوم کہ ان نا مہربان ساعتوں میں اﷲ کی اس زمین پر کہاں کہاں مصلّے بچھے ہوں گے۔کتنی جبینیں اُس کے حضورمیں جھکی ہوں گی۔رکوع و سجود کا نذرانہ پیش کیا جارہا ہوگا۔ میں نہیں جانتا کہ کتنے ہاتھ اس کے حضور میں اُٹھے ہوں گے۔ یہ البتہ جانتا ہوں کہ پورا پاکستان ایک دل بن چکا تھا۔میں اُس کی دھڑکن سن رہا تھا تو عالم کا پروردگار کیسے نہ سنتا جو دل کی گہرائیوں میں کروٹ لیتے احساس سے بھی با خبر ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ عمران کو زندگی اور شفا ہی نہیں ، قوم کو ایک ولولۂ تازہ بھی عطا فرما رہاتھا… ایک نیا پاکستان بھی۔کوئی آواز مجھے پکار رہی تھی: کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ 1970 ء کے انتخابی نتائج سامنے آئے تو سلیم احمد کے قلب و جگر کو یاس کی آکاس بیل نے آ گھیرا۔ قلم اُٹھایا تو ایک شاہکار تخلیق کر ڈالا۔’’ مشرق ہار گیا‘‘۔ سلیم احمد آج زندہ ہوتے تو میں ان سے عرض کرتا: دیکھیے! آج مشرق جیت گیا، ایک نئے پاکستان کی صورت میں۔ نواز شریف آزردہ ہوگئے۔ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔ ایک انسان ، ایک سیاست دان پر غالب تھا۔ سیاست کے سینے میں دل نہ ہو، انسان کا سینہ تو اس سے خالی نہیں ہوتا۔ اُن کی آواز میں التجا تھی، درخواست تھی۔ دعا التجا ہی تو ہے، درخواست ہی تو ہے،اس کے حضور میں جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ہم یہ منظر پہلے بھی دیکھ چکے جب ایک جان لیوا حادثے نے محترمہ بے نظیر کو آ لیاتھا۔ بے قرار نواز شریف ہسپتال جا پہنچے۔ دعا تو انہوں نے اس وقت بھی کی لیکن مغفرت کی۔ سچ یہ ہے کہ انسان دعا سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔ نہ جینے کے بعد نہ مرنے کے بعد۔ اس وقت بھی ایک نیا پاکستان طلوع ہوا تھا۔ افسوس ہوس نے دلوں میں آ بسیرا کیا۔ قرآن مجید کی تمثیل مستعار لوں تو اہلِ سیاست اس بڑھیا کی طرح ہو گئے جس نے سوت کاتا اور پھراسے اپنے ہی ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر دیا۔اُس وقت بھی ایک نئے پاکستان نے دستک دی لیکن ہم نے دروازہ نہیں کھو لا۔ قسمت کم ہی دوبارہ اس دروازے کا رخ کرتی ہے جہاں سے ایک بار دھتکار دی جائے۔ہم خوش نصیب ہیں کہ وہ دوبارہ ہمارے دروازے پر کھڑی ہے۔ آج پھر ایک نیا پاکستان طلوع ہو رہا ہے ۔عمران نے جواں سالوں میں چنگاریاں سی بھر دی ہیں۔تبدیلی نہ آئی تو انہیں چین نہیں آئے گا۔نواز شریف کے عزائم بھی بہت بلند دکھائی دے رہے ہیں۔وہ پاکستان کو عالمی افق پر دمکتا چمکتا دیکھ رہے ہیں۔مجھے یقین ہو چلا ہے کہ 12 مئی کو ایک مختلف پاکستان ہمارے انتظار میں ہے۔اس کے بہت سے رنگ ہیں۔سب سے نمایاں اور غالب رنگ امید کا ہے۔انتخابی مہم جب اپنے اختتام کو چھو رہی تھی تو لاہور سے اسلام آباد تک امید کا دریابہہ رہا تھا،آغاز جس کا لاہور تھا اور منزل اسلام آباد۔عمران خان کو نئی زندگی کیا ملی ،قوم کو ایک نیا پاکستان مل گیا۔ آج اہلِ پاکستان نے فیصلہ کرنا ہے ۔نواز شریف کے گرد امید کا ہالہ ہے اور عمران خان کے گرد بھی۔دونوں عوام کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔خیال یہی ہے کہ عوام کا فیصلہ ان دونوں کے حق میں ہو گا۔ممکن ہے نواز شریف جیت جائیں۔ لیکن وہ عمران سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ہونا بھی نہیں چاہیے۔ نتیجہ بر عکس ہو تو بھی آرزو یہی ہوگی۔میرا دل چاہتا ہے کہ نیا پاکستان دونوں کے مابین تعلقات کے ایک نئے دور کا نقطہ آغاز بن جائے۔تاہم دونوں خبردار رہیں کہ یہ اس طرح کے تعلقات نہ ہوں جو 2008ء میں نواز شریف اور زرداری صاحب کے درمیان قائم ہوئے تھے۔تعلقات کیا تھے،کاٹھ کی ہنڈیاتھی جو بیچ چوراہا پھوٹ گئی ۔عمران خان کو پیش آنے والے حادثے نے دلوں میں جو نرمی پیدا کی ہے ،اس کا دائرہ پھیل جانا چاہیے۔شقاوتِ قلب سے زیادہ تباہ کن کوئی مرض نہیں ہوتا۔ اﷲ دلوں کو اس سے محفوظ رکھے۔نئے پاکستان کی بنیاد ماضی کے واقعات پر نہیں،مستقبل کے امکانات پر ہو۔دونوں عہد کریںکہ مل کر نئے پاکستان کی تعمیر کریں گے۔دونوں کے منشور ہمارے سامنے ہیں‘ اگر انتخابات کے بعد وہ ایک لائحہ عمل پر متفق ہو سکیں تو امید کی یہ کرن ایک آفتاب میں ڈھل سکتی ہے۔آج قوم نواز شریف اور عمران خان کی محبت میں بٹی ہوئی ہے، اس محبت کو سمیٹا جا سکتا ہے۔اس قوم کی خاطر ،حسن ظن کی بنیاد پر قائم ہونے والا یہ تعلق اگر ایفائے عہد کے اصول پر آگے بڑھتا ہے تو بلا شبہ ایک نیا پاکستان ہمارے انتظار میں ہے۔معاملہ اب نواز شریف اور عمران کے ہاتھ میں ہے۔ عمران کی صحت کے لیے اٹھنے والے ہاتھ اگر ایک ہو جائیں تو یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔کل زرداری اور نواز مل سکتے ہیں تو آج نواز اور عمران کیوں نہیں! دل یہ چاہتا ہے کہ نئے سفرکا آ غاز ہو تو حسنِ ظن کا زادِ راہ ساتھ ہو۔میں جانتا ہوں یہ جنس پاکستان میں اتنی ارزاں نہیں۔ہم بد گمانیوں کے حصار میں ساری عمر بِتا دیتے ہیں۔میں جانتاہوں انتخابی مہم کی تلخیاں جلد سمیٹی نہیں جا سکتیں الا یہ کہ معاملہ کسی عالی ہمت کے ہاتھ میں ہو۔اگر اقتدارمیںتعاون نہ ہوپائے تومثبت اپوزیشن بھی تعاون کی ایک صورت ہے۔تنقید برائے اصلاح ہو تو یہ نادان کی دوستی سے زیادہ قیمتی ہے۔میں نئے پاکستان میں دیکھ رہا ہوں کہ آنے والی حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام میں یکساں مقبول ہیں۔دونوں اگر عوام کی توقعات پر پورا اتریں تونیا پاکستان ہم سب کی امیدوں کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ ا ن فیصلہ کن لمحات میں،میں کسی قیمت پر بھی امید کو کھونا نہیں چاہتا۔شاید یہی سبب ہے ٔکہ شب کے اِن آخری لمحوں میں، جب کالم تمام ہوا تو مجھے فیض صاحب بہت یاد آرہے ہیں: رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آ کر چاند نے مجھ سے کہا… ’’جاگ سحر آئی ہے جاگ اِس شب جو مے خواب ترا حصہ تھی جام کے لب سے تہِ جام اتر آئی ہے‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved