تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     09-10-2019

دھرنا

مولانا فضل الرحمن دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے خلاف دھرنے کا اعلان کر کے وہی تو کر رہے ہیں جو دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف نے جناب عمران خان کی قیادت میں کیا تھا۔ اس وقت عمران خان شاہراہ دستور پر بیٹھ کر نواز شریف سے استعفیٰ طلب کر رہے تھے، اب وہی کام مولانا فضل الرحمن کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ دو ہزار چودہ میں بھی حکومت ملکی مشکلات کی دہائی دے رہی تھی اور تحریک انصاف کان نہیں دھر رہی تھی، آج تحریک انصاف ملک کے نازک دور میں ہونے کا شور مچا رہی ہے تو جمعیت علمائے اسلام کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ پانچ سال پہلے کے دھرنے میں عمران خان اسے ملک کی تاریخ بدل دینے والی تحریک قرار دیتے تھے‘ آج مولانا فضل الرحمن اپنی تحریک کو تاریخی کہتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے دھرنے کا نام آزادی مارچ رکھا تھا تو مولانا بھی اسے آزادی مارچ کے نام سے موسوم کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ابھی ایک سال دو ماہ ہوئے تھے کہ عمران خان مع ڈاکٹر طاہرالقادری شاہراہ دستور پر آ گئے تھے۔ اب عمران خان کی حکومت کے ایک سال دو ماہ گزرے ہیں تو مولانا فضل الرحمن شاہراہ دستور کی طرف چل پڑے ہیں۔ عمران خان کو بھی دستور کی دہائی دی جا رہی تھی، مولانا فضل الرحمن کو بھی اسی کے واسطے دیے جا رہے ہیں۔ ایک فرق ان پانچ سالوں میں ضرور پڑا ہے کہ اُس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت اتنی خوفزدہ نہیں تھی جتنی تحریک انصاف کی حکومت آج دکھائی دیتی ہے۔ اُس وقت کے وزیروں پر اتنا لرزہ نہیں طاری نہیں تھا جتنا آج کے وزیروں پر ہے۔ وہ سارے وزیر جو اپنے لیڈر کی پیروی میں امکانی دھرنے کے لیے کنٹینر اور کھانا فراہم کرنے کی بات کرتے تھے‘ آج منمنا منمنا کر اپنے خلاف دھرنے کی مذمت کرتے ہیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ وہ دیدہ دلیری، وہ زبان آوری، وہ خوش بیانی، وہ گالیاں کہاں چلی گئیں جن کا مظاہرہ ابھی صرف پانچ برس پہلے ایک سو چھبیس دن تک پوری قوم کے سامنے کیا جاتا رہا تھا؟ مان لیا کہ دلیل اور منطق تحریک انصاف کا میدان نہیں مگر کچھ تو اس چمک دمک کا مظاہرہ ہو جو کچھ عرصہ پہلے ڈی چوک میں ہر شام کیا جاتا تھا۔ اتنی جلدی اتنی پسپائی!
تحریک انصاف کی یہ پسپائی لمحاتی نہیں۔ جیسے جیسے مولانا فضل الرحمن آگے بڑھتے جائیں گے، تحریک انصاف کو پیچھے ہٹنا ہو گا۔ مولانا نے دھرنے کا اعلان کر کے اسے سیاسی طور پر ایسا پھنسا لیا ہے کہ اس کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ دھرنا، کنٹینر، سڑکوں پر استعفے کا مطالبہ، الیکشن میں دھاندلی کا الزام‘ آخر کون سا ایسا نکتہ ہے جسے بزبان خود عمران خان صاحب نے شاہراہ دستور پر پانچ برس پہلے استعمال نہیں کیا تھا۔ لہٰذا بیانیے کی حد تک تو مولانا نے اس حکومت کا کام تمام کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ایک برس کی حکومتی کارکردگی اتنی بری ہے کہ سوائے تحریک انصاف کے غالی حامیوں کے شاید ہی کوئی اسے مزید وقت دینے کے لیے تیار ہو۔ اپنے خواب جیسے منشور کا کوئی ایک نکتہ ایسا نہیں جس پر پچھلے چودہ مہینے میںحکومتی جماعت نے کوئی کام کیا ہو۔ نوے دن میں ملک کو مشکلات سے نکالنے کا دعویٰ کرنے والے خان صاحب کی کارکردگی کی انتہا یہ ہے کہ کارخانوں کی جگہ لنگر خانوں کا افتتاح فرما رہے ہیں۔ نوکریاں فراہم کرنے کا دعویٰ ہوا ہو چکا، پچاس لاکھ مکان بنانے کا خواب بکھر چکا۔ پولیس اور انتظامی اصلاحات کا پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔ با صلاحیت لوگوں کو آگے لانے کی بجائے کچھ مخصوص لوگ قوم کی چھاتی پر چڑھا دیے گئے ہیں۔ میڈیا کی آزادی کے نغموں کا انجام یہ ہے کہ ملک میں بات کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی تباہی ہمارے نزدیک آتی جا رہی ہے۔ جو نا تجربہ کاری پہلے دن تھی، وہ آج نالائقی کا سونامی بن چکی ہے۔ امور حکومت میں دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ پندرہ منٹ کا اجلاس معاشی مسائل پر رکھا جاتا ہے اور میڈیا کے بارے میں بیٹھک دوپہر سے رات تک چلتی رہتی ہے۔ ویسے اس حکومت سے توقع بھی کیا ہو کہ جو صبح سویرے کام کا آغاز کرنے کی بجائے سورج سر پر آ جائے تو انگڑائی لے رہی ہوتی ہے۔ کارکردگی، ترقی، پالیسی اور گورننس وغیرہ تو بڑی باتیں ہیں، یہ حکومت صبح آٹھ بجے دفتر ہی چلی آئے تو یقین مانیے معجزہ ہو گا۔ اب ایسی حکومت کو اپوزیشن گرانے کی کوشش نہ کرے تو کیا کرے؟ مولانا کا دھرنا اسی کوشش کی ابتدا ہے، اور جو پاکستان کی تاریخ سے آگاہ ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابتدا یونہی تو ہوا کرتی ہے۔ 
عمران خان اپنے خلاف مولانا کے دھرنے کو کچھ بھی قرار دیں، لیکن انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ دھرنا دراصل ان کی ناقص کارکردگی پر نظام کی ایک چیخ ہے۔ کوئی انہیں بتائے کہ انیس سو اٹھاسی میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو برسر اقتدار آئیں تو صرف ایک سال کے دوران ان کے نالائق وزیروں نے وہی تباہی پھیلائی تھی جو آج عمران خان کے وزیر پھیلا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو گھر بھیجنے کا سیاسی و غیر سیاسی نظام حرکت میں آ گیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اصلاح احوال کے مشورے دیے گئے، معاملات کی اونچ نیچ سمجھائی گئی، ان کے ساتھیوں کی نا اہلی کا ذکر بھی ہوا‘ مگر وہ ان پُر خلوص کوششوں کو اپنے خلاف سازش قرار دیتی رہیں۔ آخری دن تک ان کی خود اعتمادی بالکل ایسی ہی تھی جیسی عمران خان صاحب کی ہے۔ اُن کے وزیر بھی اخبار نویسوں کے سامنے ایسے ہی رجز پڑھا کرتے تھے جیسے آج کل کے وزیر ٹی وی پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ وہ بھی میڈیا کے خلاف لفافے لینے کے الزامات لگایا کرتے تھے، یہ بھی وہی کچھ کرتے ہیں۔ اُنہیں بھی ہم دشمن لگتے تھے، اِن کا بھی ہمارے بارے میں یہی خیال ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت جانے کے بعد احساس ہوا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ عمران خان صاحب اگر تاریخ کو مختلف انداز میں لکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ابھی کرنا ہو گا۔ 
اگر عمران خان اپنی انا کی قربانی دے کر آج بھی یک سوئی کے ساتھ پولیس اور بیوروکریسی میں بنیادی اصلاحات، معاشی حالات میں بہتری کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی اور اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کار قائم کر لیں تو وہ بہت کچھ بچا لیں گے‘ ورنہ سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ دو ہزار چودہ میں دھرنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نواز شریف کے پاس پارلیمانی جماعتوں کی قوت موجود تھی‘ جس نے دھرنے والوں کو تنہا کر دیا تھا۔ مولانا نے دھرنے کا اعلان کرنے سے پہلے حکومت کو تنہا کر دیا ہے، لہٰذا جب وہ دھرنا دیں گے تو عمران خان صاحب شاید اس قابل بھی نہ رہیں کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس مصیبت کو ٹال دیں۔ خان صاحب کے پاس راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کر لیں، وقت کے تعین کے ساتھ واضح اہداف قوم کے سامنے رکھ دیں تو صورت حال بدل جائے گی اور انہیں وقت مل جائے گا۔ مولانا کا دھرنا ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔ دوسری صورت میں یہ دھرنا انہیں اتنا کمزور کر ڈالے گا کہ ان کی حکومت کا چراغ ہلکی سی ہوا کی تاب بھی نہ لا سکے گا۔ اب تک فیصلہ عمران خان صاحب کے ہاتھ میں ہے، مولانا کے ہاتھ میں نہیں۔ وقت گزر گیا تو خان صاحب کا فیصلہ کوئی اور کرے گا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ابھی ایک سال دو ماہ ہوئے تھے کہ عمران خان مع ڈاکٹر طاہرالقادری شاہراہ دستور پر آ گئے تھے۔ اب عمران خان کی حکومت کے ایک سال دو ماہ گزرے ہیں تو مولانا فضل الرحمن شاہراہ دستور کی طرف چل پڑے ہیں۔ عمران خان کو بھی دستور کی دہائی دی جا رہی تھی، مولانا فضل الرحمن کو بھی اسی کے واسطے دیے جا رہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved