امریکہ نے انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی کا جو فیصلہ کیا ہے‘ اگر اس کے قانونی وآئینی پہلو سامنے رکھیں تو اس فیصلے کے مطابق‘ مودی سرکار غیر قانونی اور دہشت گرد قرار پاچکی ہے اور پاکستان کو چاہیے تھا کہ اس نکتے کو عالمی سطح پر اٹھاتا‘ کیونکہ ریکارڈ سے ثابت ہو چکا کہ نریندر مودی‘ امیت شاہ‘ راج ناتھ‘ ادتیا ناتھ جوگی آر ایس ایس کے بنیادی اراکین ہیں۔ ان کے علا وہ بھارت کی حکمران جماعت کے سبھی لوگ جہاں راشٹریہ سیوک سنگھ پر مشتمل ہیں ‘تو بھارت کی خفیہ ایجنسی رائ‘ آئی بی پولیس اورسول سروس جیسے اہم عہدوں پر وشوا ہندو پریشد کے بنیادی کارکنوں کی اکثریت کام کر رہی ہے۔
آر ایس ایس‘ جنتا پارٹی سمیت وشوا ہندو پریشد جیسی انتہا پسند جماعتیں دلت‘ مسلم ‘ سکھ‘ عیسائیوں سمیت بھارت کے شمال مشرقی حصوں کی ریا ستوں کی80 فیصد سے زائد آبادی کو اپنے سے کم تر نچلے درجے کے شہریوں کا درجہ دیتے ہوئے ان پر ظلم ڈھاتی چلی آ رہی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ان کے مظالم سے تنگ آ کر یہ تمام اقلیتیں ایک ایک کرتے ہوئے بھارت سے آزادی کا علم بلند کر نا شروع ہو گئی ہیں۔ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کو دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے کے بعد اقوام متحدہ سمیت دنیا کے انسانی حقوق سے متعلق ہر اس ادارے پر فرض ہے کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت تمام وزراء پرغیر قانونی قرار دی گئی‘ ان دہشت گرد تنظیموں کی بنیادی رکنیت ثابت ہونے کے بعد ان کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر پا بندیاں عائد کر دے ۔ پاسدارانِ انقلاب کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد اگر ایران پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں‘ تو بھارت سرکار پر کیوں نہیں؟ آئین کے آرٹیکل 370/35A کی حیثیت کو ختم کرنے سے پہلے چالیس ہزار مزید بھارتی فوج کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں آر ایس ایس کے مسلح کارکنوں کو کشمیر بھیجنے کی خبریں‘ کسی ایک میڈیا نے نہیں‘ بلکہ دنیا بھرکے میڈیا نے نشر کی تھیں۔ ایسے میںاس سچائی کو سامنے رکھیں تو گاندھی کو قتل کرنے ‘ گاندھی کے قتل کیلئے پستول جیسے آلہ قتل کی نیلامی پر فخر کرنے والی آر ایس ایس جیسی دہشت گرد جماعت نہ جانے بھارتی فوج کی نگرانی میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہو گی؟تو کیا ایسے میں اقوام متحدہ پر فرض عائد نہیں ہوتا کہ کشمیر میں ان دہشت گردوں سے ایک کروڑ انسانوں کو بچانے کیلئے اپنی امن فوج بھیجے؟
نئی دہلی میں ہر سال بھارت جب بھی یوم جمہوریہ کے نام سے تقریب کا انعقادکرتے ہوئے دنیا کے کسی سربراہ کو بطورِ مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دیتا ہے‘ تو سلامی کے چبوترے پر بیٹھے ہوئے امریکہ سمیت وہ تمام سربراہان چیونگم کو دانتوں تلے چباتے ہوئے سوچتے تو ہوں گے کہ بھارت یوم جمہوریہ اس شان و شوکت سے منانے کا اخلاقی حق کیسے رکھ سکتا ہے؟ جبکہ اس میں بسنے والے 70 کروڑ سے زائد انسانوں کو''جمہور‘‘ کا حق ہی نہیں ۔جمہوری لغت میں اپنی مرضی کے نمائندے اپنی مرضی سے منتخب کرنا‘ آزادی سے عبا دت کرنا‘ اپنی مرضی کی بود وباش اور خوراک استعمال کرنا شامل ہے ‘لیکن کشمیر یوںکے علاوہ سکھ‘ عیسائی‘ دلت‘ بھارت کے اندر بسنے والے پچیس کروڑ سے زائد مسلمان جب اس حق سے محروم کر دیئے جائیں تو یہ جمہوریت کیسے ہو گئی ؟مزید ستم ظریفی دیکھئے کہ اس کے با وجود بھارت پھر بھی دھوم دھام سے یوم جمہوریہ منا تا چلا آ رہاہے‘ جہاں نہ تو اقلیتوں کو شخصی آزادی ہے اور نہ ہی مذہبی اور شاید یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر براک اوبامہ نے اپنے آخری دورہ بھارت کے موقع پر ٹا ئون ہال انڈیا میں سامنے بیٹھے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا '' بھارت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی دنیا کی نظروں میں درخشاںنظر آئے گا‘ جب تک وہ اپنے ملک میں ہر ایک قوم کو مذہبی آزادیاں دینے کی مکمل ضمانت نہیں دیتا‘‘ ۔
اوبامہ کے کہے ہوئے مذکورہ بالا الفاظ ساتھ بیٹھے ہوئے نریندر مودی کے سر پر اُس وقت بم کی طرح پھٹے‘ کیونکہ امریکی صد اوبامہ کے دورہ بھارت مکمل ہونے سے چند گھنٹے پہلے کہے جانے والے یہ الفاظ ان کے دورہ بھارت کا مشترکہ اعلامیہ سمجھا گیا تھا اور دورۂ بھارت کے بعدبراک اوبامہ کے قدم ابھی اپنے اوول آفس میں پڑے ہی تھے کہ امریکیوں کو جواب دینے کیلئے دہلی کے نواح میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہا پسندوں نے پانچ عیسائی عبادت گاہوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ 2013ء میںبھارت کی شمالی مشرقی ریاستیں اسی جبر‘ ظلم اور توہین کے خلاف اٹھتے ہوئے آزادی کا مطا لبہ کر رہی تھیں‘ جنہیں بھارتی سکیورٹی فورسز نے وقتی طور پر کمزور کردیاتھا۔ اپنے مضمون کے آغاز میں کشمیر میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے غنڈوں کو بھیجنے کا جو ذکر کیا ہے‘ اس میں میرے وہ خدشات شامل ہیں‘جو بھارتی فوج نے آسام میں حریت پسندوں کو کچلنے کیلئے آر ایس ایس کے ذریعے انجام دیئے۔ 23 دسمبر2014ء کو بھارتی فوج نے اس تحریک کو کچلنے کیلئے آسام کے سونت پور اور کوکراجھر اضلاع کے چائے کے باغات میں کام کرنے والے75 افراد ‘ جن میں 18 بچے اور23 خواتین شامل تھیں‘ راشٹریہ کی طرف سے نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ کے ذریعے بہیمانہ طریقے سے یہ کہہ کرقتل کروا دیا گیا کہ ان باغات میں کچھ دہشت گرد چھپے ہوئے تھے ۔اس قتل عام کی خبریں جب سامنے آئیں تو انٹر نیشنل ہیومن رائٹس(The Rome Statute of the International Criminal Court)کے تحت بھارتی فوج کے خلاف کریمنل ایکٹ کے تحت کارروائی کی اپیل کی گئی۔ آسام کے اس و اقعہ کو پانچ برس ہونے کو ہیں‘ لیکن ابھی تک بھارت کی نہ تو مرکزی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں نے کوئی ایف آر درج کی ہے۔ شاید وہ چھپانا چاہتے ہیں‘ کیونکہ اس میں بھی نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ فرنٹ ملوث تھی۔
بھارت جب آزاد ہوا تو کچھ عرصے بعد ہی آسام میں ارد گرد کی بہت سی قومیتوں اور مذاہب سے متعلق لوگ آ کر بسنا شروع ہو گئے اور یہیں سے مسلح تحریکیں جنم لینا شروع ہو گئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ اقوام پورے آسام میں پھیل گئیں ۔آسام جو انگریز دور سے ہی اپنی سفید‘ کالی چائے کیلئے مشہور تھا‘ جب تیل کی پیداوار بھی دینا شروع ہو گیا تو یہیں سے سب کی نظریں وہاں کے چائے کے با غات کی طرف للچانا شروع ہو گئیں‘ جو چین کے بعد دنیا کا سب سے زیا دہ چائے پیدا کرنے والا علاقہ ہے‘ جس سے وہاں کے سیا سی اور معاشرتی حالات میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی اور یہیں سے مسلح جتھوں کو پالنے کا رواج بھی شروع ہو گیا ۔ وہ لوگ جو یہاں اپنی من مانیاں کرنی چاہتے تھے‘ انہوں نے آسام کی صوبائی حکومت کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی ہی مرضی کے قوانین بنا نا شروع کر دیئے۔ یہاں کا ہر انتظامی افسر ان کی ہی منظوری سے تعینات ہونے لگا‘ جس سے عوام کے مسائل کی طرف کم اور اپنی من مانیوں کی جانب زیا دہ دھیان ہونا شروع ہو گیا‘ جس سے غریب عوام کی زندگیاں اجیرن ہو کر رہ گئیں اور پھر جب لوگوں نے اس زیادتی کے خلاف آوا ز اٹھانی شروع کر دی تو غدار دشمن جیسے نام دے کر ان کا خاتمہ شروع کر دیا۔
اب آئے روز مقبوضہ کشمیر کی طرح وہاں بھی کبھی عیسائیوں تو کبھی بنگالی مسلمانوںکو نشانہ ستم بناناشروع کر دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں تعینات بھارتی فوج نے وہاں کی غیر ہندو آبادیوں کے خلاف وہی سلوک شروع کر دیا ہے‘ جو 70 برسوں سے نہتے کشمیریوں کے ساتھ کر رہی ہے۔