اب تو ہم آزادی کے بعد ایک صدی کی آخری چوتھائی میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔ چند برس اور۔ دو نسلوں سے ہم اور ہمارے جیسے سینکڑوں ممالک مغرب کے مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کر چکے ہیں۔ بہت قربانیاں دیں، لاکھوں شہید اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ آزادی کی قیمت خون، جذبے اور جیل کاٹ کر سب نے ادا کی۔ کسی نے کم، کسی نے زیادہ۔ نوآبادیاتی سامراج زمین، زر اور جسموں پر ہی حکمرانی تک محدود نہ تھا‘ اس کا مقصد خام مال سستے داموں خرید کر اپنے کارخانوں میں استعمال میں لانا اور پھر تیارشدہ اشیا کو نوآبادیاتی مارکیٹوں میں کئی گنا بھاری قیمت پر فروخت کرنا بھی تھا۔ یہ سب کچھ ہوا، اور کئی صدیوں تک جاری رہا۔ دور دراز کے وسیع ممالک اور کثیر آبادیوں پر غیر ملکی اقلیت کی حکمرانی کا آخر راز کیا تھا کہ ہزاروں کی تعداد نے کروڑوں کو صدیوں تک غلام بنائے رکھا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینا اس لیے ضروری ہے کہ استعماریت کے ثقافتی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی اثرات ابھی تک غالب نظر آتے ہیں۔
باشعور، ترقی پسند اور روشن خیال مفکروں کا خیال ہے کہ ملکی اور قومی آزادیاں موہوم ہی رہیں گی اگر استعماری نظام کی باقیات حکمران طبقوں اور مغربی ثقافت کی صورت جاری رہیں۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کی مجموعی صورتحال کو دیکھیں تو آپ کو چہرے بدلتے نظر آئے ہیں، لیکن استحصالی نظام وہی پرانا، حکمران خاندان وہی جو کسی زمانے میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے ہرکارے تھے، فکری اور ثقافتی رویوں پر پرانی چھاپ گہری۔
ہمارے علاقوں میں انگریز بادشاہ نے بہت سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے تحت فطری طور پر ارتقا پذیر تاریخی سماجی نظام، ثقافت، اخلاقیات، ادب، تاریخ، تاریخ نویسی اور تعلیمی نظام کو تباہ کیا۔ انگریز اور دیگر سامراجی طاقتوں کی ضرورت تھی کہ وہ مکانی اور ثقافتی تقاضوں، مذاہب اور تہذیبوں کو بے توقیر، مفلس، کمزور اور بے روح کر دیں۔ یہ کام اُن کیلئے مشکل نہ تھا۔ سیاسی طاقت اور حکمرانی اُن کے ہاتھ میں چلی گئی۔ یہ دائمی قانون ہے کہ جس ہاتھ میں اقتدار ہوگا، معاشرے میں اُسی کا ڈنکا بجے گا۔ خیالات، ثقافت اور نظریات غالب حکمران طبقوں کے ہی پنپتے اور معاشرے میں جڑیں گاڑتے ہیں۔ جب طاقت کسی ایک مرکز، شخص اور سلطنت میں مرکوز ہوجائے تو سب اس کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ صرف یاددہانی کیلئے ذرا غور فرمائیں کہ نادرِ روزگار شاعراور ادیب مرزا اسداﷲ خان غالب انگریز حکومت میں اس قدر محتاج اور لاچار ہوئے کہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے قصیدے لکھے، اور پنشن کی بحالی کیلئے دہلی سے کلکتہ جا کر درخواست گزار ہوئے۔ جب کوئی قوم اپنی طاقت کھو بیٹھتی ہے تو اس کی اشرافیہ کا یہی حال ہوتاہے۔ عام آدمی کی صورتحال اس سے بھی ابتر تھی۔ زمانے نے کروٹ لی، نظام بدلا اور لوگ بھی ہوا کارخ دیکھ کر اپنی تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی ترجیحات بدلنے لگے۔ کسمپرسی کے حال میں تاریخ میں مزاحمت کار کم ہی تھے۔ سلطان ٹیپو تو بہت پہلے اپنی مثال قائم کرچکے تھے مگر مزاحمت کرنے والے اور بھی بہت بعد میں آئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں افراد نے قربانیاں دیں، اور اس میں مذہب کی تخصیص نہ تھی۔ طاقت کا توازن عالمی سطح پر اور برصغیر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ انگریز اور اُس کی سامراجی سلطنت نے نہ صرف مغلوں کے اثرات کو ختم کیابلکہ آہستہ آہستہ تمام نوابوں، راجوں اور مہاراجوں کو اپنے جھنڈے تلے لاکر اپنا اقتدار قائم رکھنے کیلئے استعمال کیا۔
انگریزوں اور دیگر نوآبادیاتی حکمرانوں نے پرانے مقتدر طبقات کو کسی طور اپنا حلیف بنالیا۔ وہ سامراجیت کے لیے کارآمد کل پرزے تھے۔ اُنہیں مقامی آبادیاں، زمین، انتظامی طاقت اور سماجی وقار بخش کر تمام ضروری اور ناپسندیدہ کام کرانا مقصود تھا۔ اُنہیں ایسے غلام میسر آئے جولاکھوں لوگوں کو انگریزی حکومت کے تابع رکھ سکتے تھے۔ صرف انہی پر انحصار نہ تھا۔ اُن کے متوازی، بلکہ نگرانی، معاونت اور حکم عدولی کی صورت میں سرکوبی کے لیے انگریز نوکرشاہی، پولیس، جاسوسی کا نظام اور فوج کے ادارے شامل تھے۔
آج ہماری ریاست کے تمام آئینی، قانونی اور انتظامی ڈھانچوں کا تعلق سامراجی ریاست کے قیام، ترویج اور فکری ساخت سے جڑا ہوا ہے۔ اس نظام کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ کوئی بھی کہیں کسی متبادل نظام کے بارے میں فکر کرتا نظر نہیں آتا۔ اس میں دو طرح کے مفکرین کو استثنا حاصل ہے۔ ایک اسلامی نظریات اور تحریکوں سے وابستہ، اور دوسرے اشتراکیت پسند۔ یہ دونوں فکری دھارے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں، لیکن ایک قدر ان میں مشترک ہے کہ وہ مغربی، استعماری ثقافت، سیاست اور نظریات کا غلبہ ختم کرکے اپنے نظریات کے مطابق ایک نیا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ اُن کے نزدیک سیاسی آزادی ایک دھوکا تھا۔ اُن کے مقابلے میں لبرل مبصرین استعماری جدیدیت سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوگئے۔ اس ڈھانچے میں قومی تقاضوں اور مفادات کی روشنی میں اصلاحات اور جدیدت کو تعلیمی، ثقافتی، ادبی اور سیاسی میدانوں، خصوصاً جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کو نافذ کیا گیا۔
سچ یہ ہے کہ زمانہ بدل چکا۔ نہ صرف حکمران طبقات کے، بلکہ معاشی اور سماجی ترقی سے مستفید ہونے والے متوسط طبقے کے مفادات بھی جدیدیت سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ دو صدیوں سے بڑی فکری بحثوں میں سے ایک بحث یہ بھی ہے کہ استعماری نظام کی سب باقیات ہماری ثقافت، مذہب اور تاریخ سے متصادم نہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر اس نظام کی کسی بھی جزویات کو رد کریں تو اس کا بہتر متبادل سامنے لائیں۔
ہزارہا سال سے پرانی تہذیبیں اور ثقافتیں خاک میں ملائی گئیں۔ ہم اُن کو قلمی نسخوں، لوک ورثہ کی داستانوں، غیر معروف زبانوں میں لکھی گئی کتابوں اور کچھ ان علاقوں اور لوگوں کے رویوں میں تلاش کر سکتے ہیں‘ جو مغربی اثرات سے محفوظ رہے ہیں۔ یہ غلامی کی انتہا ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ انگریز کی عطا ہے۔ ہمارے پاس بہت کچھ تھا، خصوصاً تعلیمی نظام، اور فکری اثاثہ، جسے تباہ کرکے اس کی جگہ ہمیں کمتر، حقیر اور ہمیشہ محتاجی اور فکری غلامی میں رہنے کا درس دیا گیا۔ ہمارے ایک بہت بڑے فکری محسن، استاد اور مصلح، جی ڈبلیو لٹنر کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ آج سے پچاس برس پہلے اُن کا مجسمہ پنجاب یونیورسٹی کے باہر مال پرموجود تھا۔ اُن کے ساتھ محبت کے اظہار کے لیے کوئی طالب علم، استاد یا لاہور کا کوئی شہری کبھی کبھار پھولوں کا ہار گلے میں ڈال دیتا۔ اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ اُنھوں نے انگریزوں سے قبل پنجاب میں رائج تعلیمی نظام کا انگریزی حکومت کے زیرِتسلط علاقوں سے موازنہ اپنی 1883 کی ایک کتاب میں کیا تھا۔ اسے پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ یہاں شرح خواندگی سارے ہندوستان سے بہتر تھی۔ تعلیم پر زیادہ رقم خرچ ہوتی تھی۔ معیار بھی انگریزی تعلیم سے بہتر تھا۔ ذہنی غلامی صرف ثقافتی، فکری اور نظریاتی مزاحمت سے ہی ممکن ہے مگراس کے لیے نئی نسل کی ذہنی زمین ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں اپنی مقامی، فکری اور ثقافتی وجود کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ کل کلاس میں 'مشرقیت اور مستشرقین نے جو ہمیں شناخت دی، اور جیسے ہمیں اور ہمارے معاشروں کو مغرب میں متعارف کرایا‘ کا موضوع زیرِ بحث تھا۔ ہر سال سکولوں سے آئے ہوئے تازہ ذہنوں والے طالب علموں سے ضرور پوچھتا ہوں کہ علی ہجویریؒ المعرو ف داتا گنج بخش کون تھے، اور کہاں دفن ہیں۔ گزشتہ سال ستر کی تعداد میں سے صرف ایک کو معلوم تھا۔ رواں سال بھی نتیجہ حسبِ سابق ہے۔ دل گرفتہ ہوجاتا ہوں۔ بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ نہ تاریخ کا علم نہ سماج کی خبر، نہ تہذیبی رنگ سے آشنائی۔ خوش قسمت ہوں کہ زندگی میں کتابوں کے ساتھ گہرا تعلق رہا، مگر کشف المحجوب کے ہم پلہ بہت کم کتابیں دیکھی ہیں۔ داتا صاحبؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ افسوس ہے کہ وہ ہزاروں کتابیں غرنی میں چھوڑ آئے۔ علم و عرفان کی ایسی بلندیاں بہت کم کو نصیب ہوتی ہیں۔ یقین کیجیے، ہماری گدڑی میں بہت کچھ ہے۔ چلیں یہ خستہ ہے، پیوند زدہ اورپتلی ہے، مگر اسی میں علم و دانش کے لعل و گہر ہیں۔ ان پر تو مغرب کے دانشور بھی دنگ ہیں۔ کوئی تلاش تو کرے۔