تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-10-2019

ہیروز کی تلاش!

وزیر اعظم عمران خان کے پہلے امریکہ اور اب چین میں دیے گئے بیان کو پاکستانی میڈیا اور عوام نے اہمیت نہیں دی۔ جس دن امریکہ میں عمران خان نے کہا 'مجھے پاکستان کے حالات درست کرنے کیلئے چین کا نظام چاہیے‘ تو اندازہ ہوا اس نئی خواہش کے پیچھے ذاتی خواہشات زیادہ ہیں جو ہر حکمران میں وقت کے ساتھ پیدا ہو جاتی ہیں‘ جیسے نواز شریف پاکستان اور پاکستانیوں کو درست کرنے کیلئے امیرالمومنین بننا چاہتے تھے۔
عمران خان صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک تقریر اور ایک ہی سانس میں درجنوں ملکوں کے ماڈلز متعارف کرا دیتے ہیں‘ جو ان کے خیال میں پاکستان کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے ماڈلز بھی ایک دوسرے سے خاصے متضاد ہوتے ہیں لیکن وہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ عوام اش اش کر اٹھتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کو فالو کریں تو اندازہ ہو گا اب تک وہ درجن بھر نئے نظام ہمیں سمجھا چکے ہیں‘ جو ان کے خیال میں پاکستان کے موجودہ حالات کو درست کر سکتے ہیں‘ یعنی پاکستان کے پاس کوئی ماڈل نہیں یا پاکستانی معاشرے کی حیثیت یا وقعت نہیں ہے کہ وہ دیسی ماڈل فالو کرکے ترقی کر سکے۔
یہ خطہ ہمیشہ سے غلام رہا ہے۔ بیرونی حملہ آوروں کے حکمران رہنے کی وجہ سے ہمارے اندر احساس کمتری گہری ہو چکی ہے۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد ہم خود کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اچھا نظام، اچھا حکمران یا ماڈل تخلیق کر سکیں‘ جس کی مثالیں یورپی حکمران ایسے دیں جیسے ہمارے حکمران ان کی دیتے ہیں۔ صدیوں سے بیرونی حکمران اور ماڈل ہمارے فیورٹ بن چکے ہیں۔ سب ماڈل اور ہیروز عرب، افغان اور سینٹرل ایشین ہیں۔ ہماری تسلی نہیں ہوتی جب تک فارن حکمران یا معاشرے کا حوالہ اپنی گفتگو میں نہ دیں۔ بھٹو نے اسلامک بلاک بنانا شروع کیا تھا تو انہوں نے مسلم ملکوں کے سربراہوں کو پاکستانیوں کیلئے ماڈل کے طور پر پیش کیا‘ جن میں سب سے نمایاں قذافی اور شاہ فیصل تھے۔ بھٹو نے قذافی کے نام پر لاہور کرکٹ سٹیڈیم رکھا تو لائل پور کا نام فیصل آباد یا اسلام آباد میں مسجد کا نام فیصل رکھ دیا گیا۔ ہر حکمران نے کوشش کی کہ کسی مسلمان حکمران سے اپنے تعلقات کو پاکستان کے اندر سیاسی طور پر استعمال کرے۔
بھٹو سے جنرل ضیا تک سب نے یہ کوشش کی اور عربوں سے انسپائریشن لیتے رہے۔ بڑا پاکستانی لیڈر وہ مانا گیا جس کے عربوں سے تعلقات اچھے تھے یا یہ کہ کس حکمران کے لیے کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا۔ شریفوں نے تو عربوں اور ترکوں سے تعلقات کو سائنس بنا دیا۔ اس سے انہوں نے سیاسی اور کاروباری فائدے بھی اٹھائے۔ جب شریف خاندان جیل گیا تو ان کی دوستیاں اور کاروباری تعلقات کام آئے۔ شہباز شریف نے تیسری دفعہ وزیر اعلیٰ بنتے ہی ہمیں بتانا شروع کر دیا کہ پاکستان کو ترکی کے عبداللہ گل جیسے لیڈر کی ضرورت ہے۔ وہ ہر ہفتے ترکی پہنچے ہوتے تھے اور واپسی پر عبداللہ گل کی قیادت کے فوائد سمجھاتے تھے۔ عمران خان کو محسوس ہوا کہ وہ اس کھیل میں پیچھے رہ جائیں گے لہٰذا انہوں نے عبداللہ گل کے مقابلے پر مہاتیر محمد کو متعارف کرایا۔ یوں پاکستانیوں کو ایک طرف عبداللہ گل تو دوسری طرف مہاتیر کی مثالیں دے کر یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ مہاتیر اور عبداللہ گل تو پاکستان آنے سے رہے‘ لہٰذا شہباز شریف کو عبداللہ گل اور عمران خان کو مہاتیر کا متبادل سمجھا جائے۔
عبداللہ گل کے جانے کے بعد طیب اردوان کی انٹری ہوئی اور لوگ عبداللہ گل کو بھول گئے۔ مہاتیر سیاست سے ریٹائرڈ ہو گئے تھے‘ لہٰذا عمران خان نے نئے ہیروز تلاش کرنا شروع کیے۔ انہیں محسوس ہوا‘ شریف خاندان اس کھیل میں جیت رہا ہے لہٰذا انہوں نے چھکا مارنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں دنیا بھر کے مختلف حکمرانوں، مغربی معاشروں اور سسٹم کے حوالے دینے شروع کر دیے‘ وہیں اسلامی تاریخ کے پرانے ہیروز ڈھونڈ کر لائے۔ ہر تقریر میں کہنا شروع کیا 'اگر فلاں ملک میں ایسے ہوتا تو قیامت آ جاتی‘ فلاں ملک کا وزیراعظم تو سائیکل پر دفتر جاتا ہے، فلاں ملک کی پولیس اتنی اچھی ہے، فلاں کی معاشی حالت اتنی اچھی ہے‘ کوریا کے وزیراعظم نے کیسے کشتی کے حادثے پر استعفیٰ دے دیا۔ جب دل چاہا امریکی مثال دے دی۔ ایک ہی سانس میں لندن سے فرانس، جرمنی تو وہیں سے جاپان جا پہنچتے۔ غربت دور کرنے کیلئے ماڈل چین کا چنا۔ اچانک انہیں خیال آیا‘ مخالفین کے منہ بند کرانے کیلئے ریاست مدینہ کا ماڈل بھی متعارف کرانا چاہیے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی سانس میں پہلے ریاست مدینہ، پھر چین، ملائیشیا، ترکی کے ساتھ یورپ، کورین ماڈل تک کی مثالیں دیتے ہیں حالانکہ یورپ اور چین کا نظام حکومت اور معاشرہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ یورپ نے چینی ماڈل فالوکیے بغیر غربت ختم اور ترقی کی۔ یورپ میں تحریر‘ تقریر، لکھنے بولنے کی آزادی ہے لیکن چین میں پابندیاں ہیں۔ مغربی معاشرے کا ماڈل کیپٹل ازم ہے تو چین کا کنٹرولڈ سسٹم۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو ریاستِ مدینہ کے تصور اور دیگر تمام سسٹمز میں بہت فرق ہے لیکن عمران خان صاحب وہ ہیں جن کے ہاتھ میں ایک ہی لاٹھی ہے اور جہاں دل چاہے اسے گھما دیتے ہیں۔ اب کہتے ہیں‘ انہیں چین جیسی پاورز چاہئیں اور وہ پانچ سو لوگوں کو جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ یقینا ان پانچ سو لوگوں میں ان کی اپنی پارٹی اورکابینہ کے وزیر شامل نہیں ہوں گے جن پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں۔
نواز شریف کے پہلے دور اقتدار میں آرمی چیف جنرل آصف نواز کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے تھے تو یہ خبر سامنے آئی کہ طاقتور حلقوں نے فہرست تیار کررکھی تھی جنہیں مارشل لاء لگانے کے بعد ٹھکانے لگانے کا پروگرام ہے۔ ابھی چند ماہ قبل پاکستانی صحافیوں کے گروپ کی ایک بڑی غیر سیاسی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو صحافیوں کو بھی یہی کہا گیا پانچ ہزار لوگوں کی فہرست تیار ہے‘ جس میں صحافیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ایک طرف بزنس مینوں کو بلا کر کہا جا رہا ہے کہ نیب سے نہ ڈریں اور قوم سے لوٹا ہوا پیسہ معاف ہے تو دوسری طرف فرماتے ہیں کرپشن ختم کرنے کیلئے چینی ماڈل اور اختیارات چاہئیں۔ 
یورپ، امریکہ، ملائیشیا، ترکی، ریاست مدینہ کے ماڈل کا نعرہ لگانے کے بعد اب تازہ ترین نعرہ‘ چینی طرز کے اختیارات مانگے جارہے ہیں۔ مطلب ہمارا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ ہو۔ وزیراعظم بننے کے لیے پاکستانی سسٹم ٹھیک ہے لیکن حکمرانی انجوائے کرنے کے لیے چینی یا سعودی ماڈل درکار ہے۔ جو ہماری وفاداری کا حلف اٹھا لے اس کا نام فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ جو سرنڈر نہیں کرے گا اسے جیل میں ڈال دیں یا پھانسی چڑھا دیں۔ میں حیران ہوتا تھا‘ عمران خان گورننس کے اتنے سارے ماڈلز‘ جو ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہیں‘ ایک ساتھ کیسے پاکستان میں نافذ کریں گے؟ اب انہوں نے میری پریشانی اور کنفیوژن دور کردی ہے۔ وہ چینی طرز کی حکومت چاہتے ہیں جہاں ون پارٹی حکومت ہو، ذاتی پسند کا میڈیا ہو، پسند کی عدالتیں، حکمران کو کھلی چھٹی ہو اور اپنی پسند کی پارلیمنٹ ہو۔ اگر اب عمران خان کو چینی طرز کی پاورز نہیں ملتیں تو یقینا وہ کہہ سکیں گے کہ وہ تو پاکستان کو راتوں رات درست کرنے کا پلان بنائے بیٹھے تھے لیکن عوام ہی بیوقوف نکلے جو ان کی اس اعلیٰ تجویز کو نہ سمجھ سکے۔ 
سوال یہ ہے کہ جن مغربی معاشروں کی وہ مثالیں دیتے رہے ہیں‘ انہوں نے چینی ماڈل کو فالو کرکے ترقی کی یا اپنا معاشی اور گورننس ماڈل بنایا اور نتائج حاصل کیے؟ برطانیہ اور یورپ میں سزائے موت نہیں‘ پھر بھی یورپین بڑی تعداد میں قتل یا بڑے پیمانے پر کرپشن نہیں کرتے۔ چین میں کرپشن کی سزا موت ہے‘ لیکن پھر بھی وہاں کرپشن کے بڑے کیسز سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں قتل کی سزا موت ہے‘ پھر بھی روزانہ درجنوں کے حساب سے لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ موت کی سزا کے باوجود چین میں کرپشن تو پاکستان میں قتل کیوں نہیں رک رہے جبکہ یورپ میں موت کی سزا نہ ہونے کے باوجود قتل اور کرپشن کم ہے؟ وزیراعظم کو وقت ملے تو غور کریں‘ ممکن ہے وہ درجنوں غیرملکی نظام ہائے حکومت سے متاثر ہونا اور ہیروز تلاش کرنا ترک کردیں۔ ایک پرانے فرانسیسی ڈرامے کا سین یاد آگیا۔ ایک کردار جیل میں قید باغی سے کہتا ہے: ہم برباد ہورہے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے پاس ہیرو نہیں جو بچا سکے۔ باغی جواب دیتا ہے: میرے دوست بدقسمتی یہ نہیں کہ ہمارے پاس ہیرو نہیں، بدقسمتی یہ ہے ہمیں ہیروز کی تلاش ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved