تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-10-2019

غلامی ہو تو ایسی ہو!

فرانس کے معروف مفکر والٹیئر نے کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے‘ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہر جگہ پا بہ زنجیر ہے۔ والٹیئر کا زمانہ ہم نے دیکھا تو نہیں‘ مگر ہاں‘ اُس کے بارے میں پڑھا ضرور ہے اور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ والٹیئر نے یہ بات کیوں کہی ہوگی۔ 
ہر دور کا انسان مختلف النوع پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا کرتا رہا ہے۔ یہ حقیقت اس قدر واضح ہے کہ سمجھنے کے لیے غیر معمولی ذہانت درکار نہیں۔ انسان کی مجبوریاں جاننا اور سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ہم زندگی بھر ایسے حالات سے دوچار رہتے ہیں ‘جو ہمارے لیے الجھنیں پیدا کرتے ہیں۔ حالات سے لڑتے ہوئے الجھنوں کا گراف نیچے لانا ہی ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جو یہ چیلنج قبول کرتے ہیں‘ وہ معیاری زندگی گزارتے ہیں۔ اس چیلنج سے گھبراکر ایک طرف ہٹ جانے والوں کو ہم نے ہمیشہ پریشان حال اور نامراد پایا ہے۔ 
بیشتر مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں‘ جب ہم حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ کسی بھی حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز کی صورت میں محض خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہر حقیقت اس امر کی متقاضی ہوتی ہے کہ اُسے سمجھا جائے اور تفہیم کے مطابق‘ معاملات درست کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ 
کسی نے خوب کہا ہے کہ ہم چیزوں کو اُس روپ میں نہیں دیکھتے ‘جس روپ میں وہ ہوتی ہیں‘ بلکہ اُس روپ میں دیکھتے ہیں ‘جو ہم ہیں‘ یعنی ہم ہر چیز اور معاملے کو اپنی خواہشات اور امنگوں کے آئینے میں دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ 
والٹیئر نے ہر جگہ انسان کو پا بہ زنجیر پایا تھا۔ اُس کا اشارہ حالات کی پیدا کردہ الجھنوں کی طرف تھا۔ بیشتر معاملات میں حالات پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ ہم ان کو بدلنے کی مطلوبہ صلاحیت نہیں رکھتے‘ ہاں اپنے آپ کو بدلنا ہمارے اختیار میں ہوتا ہے‘جو لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں ‘وہ مرتے دم تک کامیاب رہتے ہیں اور اگر کامیابی مطلوبہ معیار کی نہ ہو تب بھی کوشش کرنے پر ضمیر تو بہرحال مطمئن رہتا ہے۔ 
ایک دور تھا کہ انسانوں کو بیچا اور خریدا جاتا تھا۔ مویشیوں کی طرح انسانوں کی بھی منڈیاں ہوا کرتی تھیں۔ اِن منڈیوں میں انسان انتہائی شرم ناک انداز سے فروخت ہوا کرتے تھے۔ یہ تھی؛ غلامی۔ انسانوں کی باضابطہ اور قانونی خرید و فروخت کی گھناؤنی روایت تو اب نہیں رہی ‘مگر انسان کی طبیعت سے خُوئے غلامی گئی نہیں۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں ‘جو انسانوں کو غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف عام آدمی ہے کہ غلامی پسند ذہنیت و طبیعت سے جان چھڑانے کو تیار نہیں۔ 
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں ‘جس میں روشن خیالی اور فکری بلندی کا غلغلہ ہے۔ انسانوں کو یقین دلایا جارہا ہے کہ فکر کی بلندی ہی سب کچھ ہوتی ہے اور اگر فکر بلند نہ ہو تو کوئی بھی معاملہ درست نہیں رہتا‘ پھر بھی معاملہ یہ ہے کہ لوگ فکر کو بلند کرنے پر مائل نہیں ہو رہے اور اب تک کسی نہ کسی شکل میں غلامی کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ 
ماہرِ نفسیات ٹامس زاز (Thomas Szasz) نے کہا ہے کہ واضح سوچ پیدا کرنے کے لیے ذہانت سے زیادہ ہمت و جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے‘ جس کا انکار حماقت کہلائے گا۔ بہت سے معاملات میں ہم کوئی واضح سوچ اپنانے سے محض اس لیے گریز کرتے ہیں کہ مطلوبہ ہمت و جرأت ہم میں نہیں پائی جاتی اور ہم یہ وصف پیدا کرنا بھی نہیں چاہتے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ہم سب اپنے اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ عمومی طور پر ہم کسی بھی معاملے میں ایک خاص حد تک ہی بڑھتے ہیں اور پھر رک جاتے ہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے کمفرٹ زون کی حد کہاں ختم ہوتی ہے۔ اس حد سے ایک قدم بڑھانا ہمارے لیے سوہانِ روح ہوتا ہے۔ 
آج ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے ‘جو ہماری آزادی کو سلب کر رہا ہے‘ مگر پھر بھی ہم اُس سے جان چھڑانے کا نہیں سوچتے۔ غلامی پسند ذہنیت ہماری فکری ساخت سے چمٹی ہوئی ہے۔ ہم غلامی کی روایت کوکسی نہ کسی شکل میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اب‘ سیل فون ہی کی مثال لیجیے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ہماری زندگی سمارٹ فون کے ہاتھوں قید خانے میں بند ہوکر رہ گئی ہے۔ ہمارے تمام معاملات سمارٹ فون میں بند ہیں‘ اسی لیے تو اسے سیل (قید خانہ کا کوٹھڑی) فون کہا جاتا ہے! سیل فون میں مقید ہوکر ہم نے اپنی زندگی کو تماشا بنا ڈالا ہے۔ رشتے‘ تعلقات اور دیگر معاملات ایک طرف رہ گئے ہیں۔ یومیہ بنیاد پر ہمارے وقت کا اچھا خاصا حصہ سیل فون کی نذر ہو رہا ہے۔ دوسروں سے جُڑے رہنے کی لت نے ہمیں اُن سے بہت دور کردیا ہے‘ جو ہم سے بہت قریب ہیں‘ یعنی گھر کے اندر ہی ہمارے ساتھ رہتے ہیں! ذرا سی فراغت نصیب ہونے پر لوگ سیل فون پر کوئی نہ کوئی ایپ کھول کر حِظ اٹھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ خدا ہی جانے کتنے معاملات سے کس قدر حِظ اٹھانا ہمارے لیے لازم ہے! 
اندھیرا اگر اپنا ہی پیدا کردہ ہو تو دوسروں کا بخشا ہوا اُجالا بھی ہماری کچھ خاص مدد نہیں کر پاتا۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم سب نے اپنی اپنی سہولت کے مطابق ‘کوئی نہ کوئی بڑی لت پال رکھی ہے۔ کوئی کسی کی کچھ خاص مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ 
ہر دور کا انسان مختلف لتوں میں مبتلا رہا ہے۔ دل بہلانے کے لیے انسان خدا جانے کیا کیا کرتا رہا ہے۔ ہر لت زمانے کے معیارِ ترقی کی مناسبت سے ہوتی ہے۔ انسان کو جو کچھ بھی میسر ہوتا جاتا ہے ‘اُسی کی بنیاد پر وہ اپنے لیے لت کا انتخاب کرتا ہے اور اُس راستے پر بڑھتا ہے۔ 
کم و بیش 300 سال قبل مغرب کے مفکرین نے شخصی آزادی کے تصور کو بلیغ انداز سے پیش کرنا شروع کیا اور یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق‘ زندگی بسر کرسکتا ہے۔ تب سے اب تک شخصی آزادی (individualism) کا غلغلہ ہے۔ مفکرین نے انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ایسا کرنے میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں‘ مگر اب معاملہ یہ ہے کہ انسان اپنی آزادی کا غلام ہوکر رہ گیا ہے۔ جس شخصی آزادی کو انسان کے لیے لازم قرار دیا گیا تھا‘ وہی اُس کے لیے زندان میں تبدیل ہوگئی ہے! آزادی اگر فکر سے عاری اور بے لگام ہو تو غلامی سے بدتر ہے۔ آج کے انسان کا بنیادی مخمصہ یہ ہے کہ وہ کسی کی غلامی میں نہ رہنے کی کوشش کے ہاتھوں اپنی آزادی کا غلام ہوکر رہ گیا ہے۔ منفرد انداز سے یا مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش نے انسان کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ شخصی آزادی کا خنّاس سر میں ایسا سمایا ہے کہ کسی کی معقول بات مان کر ڈھنگ سے جینے کی طرف مائل ہونا بھی ''مجاہدۂ نفس‘‘ کے درجے میں ہے! 
ہر حال میں بے لگام انداز سے جینے کی خواہش اور کوشش نے آج کے انسان کو اپنے ہی غلط اندازوں اور مغالطوں کا اسیر بنادیا ہے۔ یہی کیفیت چند قدم آگے بڑھ کر قانون شکنی کی طرف بھی لے جاتی ہے ‘کیونکہ بہت سوں کو قانون کی قائم کردہ حدود بھی اپنی راہ میں دیوار محسوس ہوتی ہیں! کم و بیش ایسی ہی کیفیت کے لیے غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
نہ لُٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا 
رہا کھٹکا نہ چوری کا‘ دُعا دیتا ہوں رہزن کو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved