کم از کم الفاظ میں آپ ایک بڑی بات مخاطب کو سمجھا سکیں تو اسے فصاحت کہا جاتاہے ۔ فصاحت کی انتہا شاعری میں ہوتی ہے ۔ ایک مصرعے میں شاعر وہ بات کہہ دیتاہے ‘ جسے سمیٹنے کے لیے کبھی ایک پوری کتاب بھی ناکافی ہوتی ہے۔ جب سے انسان نے اس زمین پہ شعور کی آنکھ کھولی‘ وہ شعر کہتا چلا آیا ہے ۔ دنیا میں آج تک جتنے بھی شعر کہے گئے‘ ان کا ایک بڑا حصہ عورت کی خوبصورتی پہ مرتکز ہے۔محبوب کا چہرہ زندگی کی سب سے قیمتی اور نادر چیز بن جاتاہے ۔
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
انسان اپنے محبوب (عورت ) کی محبت میں اس قدر ڈوب جاتاہے کہ وہ اس کی آنکھوں‘ بال‘ ہونٹ اور حتیٰ کہ تل کی خوبصورتی بیان کرتے ہوئے فصاحت کے ایسے ایسے موتی لٹاتا ہے کہ آدمی ششدر رہ جاتاہے ۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
محبوب کے چہرے پر تل کے بارے میں شاعر کہتاہے ؎
اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب
دولتِ حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے
رات اور چاند ‘ ہر چیز میں شاعر کو محبوب کی جھلک نظر آتی ہے
رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح
اور ؎
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے ‘ وہ ہیں محوِ آرائش
وہاں ہونٹوں کی لالی ہے یہاں جانوں کے لالے ہیں
پھر وہ کہتاہے ؎
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں تیرے نین ‘ غزالاں سوں کہوں گا
یہ بات درست ہے کہ عورت کی خوبصورتی پر اس قدر اشعار لکھے گئے کہ شاید ہی کسی اور موضوع پر۔دوسری طرف خدا جہاں ان چیزوں کا ذکر کرتاہے ‘ جن میں خوبصورتی کو سجا دیا گیا ہے تو وہاں عورت کے ساتھ اولاد کاذکرآتاہے ۔ ایک سے تین سال کے بچّے میں تو اس قدر خوبصورتی ہوتی ہے کہ جو بیان سے باہر ہے ۔ انسان اس میں کھو سا جاتاہے ۔وہ گھوڑا بن کے اس بچّے کو اپنے اوپر سواری کا موقع دیتاہے۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتاہے ‘ بچّے کی خوبصورتی کم ہوتی چلی جاتی ہے ؛حتیٰ کہ پھر قد بڑھنے کی عمر میں کئیوں کی شکل کریلے جیسی ہو جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اسے ملنے والے لاڈ پیار میں کافی کمی واقع ہو جاتی ہے ۔شیر خوار بچوں میں آخری درجے کی خوبصورتی اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ ماں باپ ان کی حفاظت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنا لیں ۔ یوں انسان اور حتیٰ کہ جانوروں کی نسل بھی کامیابی سے آگے بڑھتی رہتی ہے ۔
بات ہو رہی تھی ‘ عورت کی خوبصورتی کی۔ اس خوبصورتی کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔بڑے بڑے لوگ اپنے محبوب کے در پہ بھکاری بن گئے ۔جاگیروں کے مالک محبوب کے جانور سنبھالنے لگے۔ کئی مرتبہ تو اس کی وجہ سے جنگیں ہوئی ‘ جن میں ہزاروں افراد قتل ہو ئے ۔ بے شمار افرادپر خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام عائد ہوئے اور انہیں سزائیں ہوئیں ۔ امریکی صدر بل کلنٹن اور سی آئی اے کے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو اپنے معاشقوں کی وجہ سے سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر اور دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی کا چیف بھی عورت کی اس خوبصورتی کے مقابل بے بس ہو چکے تھے ۔
لیکن کبھی کبھی ایک ایسا خیال انسان کے ذہن میں آتا ہے کہ جو اسے چونکا کے رکھ دیتا۔ ایک کاکروچ انسان کو کس قدر مکروہ لگتاہے ‘لیکن نر کاکروچ کو مادہ کاکروچ اتنی ہی خوبصورت لگتی ہے‘ جتنی کہ انسانوں میں ایک مرد کو عورت ۔ ایک بھینسے کو کالی اور موٹی بھینس بھی اتنی ہی خوبصورت لگتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوبصورتی اس چیز میں نہیں ہے ‘ جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے ‘ غلط کہتے ہیں ۔خوبصورتی دیکھنے والے کے دماغ میں ہوتی ہے ۔ خوبصورتی کے معیار ہمارے دماغوں میں تخلیق کیے گئے ہیں ۔ اگر ان معیارات میں تبدیلی کر دی جائے تو آپ کو کبھی عورت اور اولاد خوبصورت نہ لگیں۔ اگر ہمارے دماغوں میں ان معیارات کو تبدیل کر دیا جاتا۔ عورت کی جگہ اگر کاکروچ کی Dimensions ہمارے دماغ کے خلیات میں رکھ دی جاتیں تو انسان کی ساری شاعری کاکروچ پہ مرتکز ہوتی ۔ محبوب کی زلف کی جگہ کاکروچ کی دو انٹینا نما مونچھوں کی تعریف کی جاتی ۔ ہم انہیں اپنے کمروں میں پالتے اور جب یہ ہماری جلد پہ چلتے تو ان کی ٹانگوں کی سرسراہٹ ہمارے لیے انتہائی لطف انگیز ہوتی ۔ کاکروچ کے سرخ پروں کو شفق سے تشبیہ دی جاتی ۔ مغرب میں کتوں سے محبت تو عام ہے ۔ادب میں بھی ان کا ذکر ملتاہے ۔
آپ اس کا مطلب سمجھ رہے ہیں نا۔ خدا کہتاہے کہ سجا دی گئی لوگوں کے لیے شہوات کی محبت ‘ عورت ‘ اولاد‘ سونے چاندی کے ڈھیر ‘ گھوڑے ‘ جانور اور کھیتی۔ اور اللہ کے پاس ان سے بہتر بدلہ ہے ۔
اصل مسئلہ یہی ہے کہ کچھ چیزیں سجا دی گئی ہیں ۔ انسان جب مزاحمت کی بجائے خود کو ان کی محبت کے سپرد کر دیتاہے تو وہ نیم پاگل ساہو جاتا ہے ۔ اس میں اعتدال ختم ہو جاتاہے ۔ آپ ایک نشئی کو دیکھیں ‘ اسے ہر وقت اپنا نشہ پور ا کرنے کی فکر ہوگی اور اس کے سوا دنیا کی ہر چیز کی فکر رخصت ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح جب انسان ان شہوات کی محبت میں ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو پھر وہ ایک نشئی کی طرح ہو جاتاہے۔اپنے اس نشے اور لالچ میں انسان اتنا آگے نکل جاتاہے کہ اسے قانون کی حدود سے باہر نکلنے کا بھی خوف نہیں رہتا۔
ان سب چیزوں میں ٹریپ ہے ۔ پہلے تو آدمی ایک عورت کی محبت میں پاگل ہو جاتاہے ۔ پھر جب وہ اسے حاصل نہیں کر پاتا تو لوٹ پوٹ کر آخر کارٹھیک ہو جاتاہے ۔ اس وقت اس کی حالت نشہ چھوڑ کر آخر کار ٹھیک ہو جانے والے شخص کی طرح ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اس کی شادی ہوتی ہے ۔ پھر اسے اولاد سے انتہائی محبت ہوجاتی ہے ۔ پھر ایک وقت آتاہے ‘ جب وہ کہتاہے ؎
کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں
ارے وہ دردِ محبت سہی تو کیا مر جائیں
مخالف صنف کی محبت شاید مصنوعی طور پر انسان کے دماغ میں تخلیق کی گئی ہے تاکہ جانداروں کی نسل بڑھتی رہے ۔ ور نہ تو نفس اپنے آپ ہی سے محبت کرتاہے ۔ اگر وہ عورت اور اولاد سے محبت کرتاہے تو اس لیے کہ ان سے اسے تسکین حاصل ہوتی ہے ۔ لیکن جب یہ محبتیں اٹھا لی جائیں گی تو انسان کہے گا کہ کون سا محبوب‘ کون سی اولاد اور کون سے ماں باپ ۔ اس وقت نفس میں صرف اپنی ہی محبت باقی رہ جائے گی ۔ کیسا خوفناک ہوگا وہ وقت!