ترکی کے صدر طیب اردوان نے بدھ کو اعلان کیا کہ ترکی کی فوج نے شمالی شام میں اپنی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ امریکی حمایت یافتہ کرد پیش مرگہ فورسز کے ساتھ اُن کی براہ راست جھڑپیں بھی ہو سکتی ہیں۔ترک صدر نے اس بات پر زوردیا کہ وہ اس علاقے میں ایک محفوظ زون بنانا چاہتے ہیں‘ جہاں کرد ملیشیا کا وجود نہ ہو اور جہاں ترکی میںآنے والے تقریباً 36 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو رکھا جائے گا۔
دوسری جانب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کی فوجی کارروائی سے قبل متنازع طور پر امریکی فوج کو علاقے سے نکال لیا تھا‘ لیکن یہ بھی کہاگیا کہ ترکی کو معاشی نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کی جانب سے کرد پیش مرگہ فورسز پر شمال مشرقی شام میں کیے جانے والے حملے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک ''غلط اقدام‘‘ قرار دیا ۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے بیان اور حملے کا فیصلہ اس خطے سے امریکی فوجوں کو نکالنے کے بعد کیا گیا ‘ تاہم اس اقدام کو دراصل حملے کی اجازت کے حربے کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔کردوں پر ترکی کے حملے کیلئے صدرٹرمپ کی سبز روشنی پڑ رہی ہے۔یہ صرف ایک ہی الزام نہیں ‘ پچھلے ہفتے جب بیشترعلاقوں ‘ خاص طور پر شام کے شمال مشرقی کرد زیر کنٹرول علاقوں سے امریکی فوج کے انخلا کی حیران کن خبریں زیرگردش تھیں‘وہیں رواں عشرے میں روس کے سفیر آندرے کارلوف کے قتل کی واردات ذہن میں گردش کرنے لگی۔
کارلوف کی موت ایک ترک پولیس اہلکار کے ہاتھوں ہوئی‘ جسے شامی شہر حلب کے خلاف روس کی وحشیانہ فضائی مہم کو بظاہر بنیاد بنا کر قتل کیا گیا تھا۔ بیشتر دنیا اس کے بارے میں جلدی سے بھول گئی۔ یہ دسمبر 2016ء کی بات ہے‘ برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے چند مہینوں کے بعد اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے دو ماہ بعد مغرب کے بیشتر لوگوں کوان دو واقعات نے ہلادیا تھا۔ شام کی جنگ کے پانچویں سال؛ حتیٰ کہ روس کا ستمبر 2015 ء میں بشار الاسد کی حکومت کی طرفداری کرنے یا اس تنازع میں کودنے کا فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا۔کارلوف کی موت نے انٹرنیشنل میڈیا میںیقینی طور پر سرخیاں بنائیں۔ یہ چونکا دینے والا اور حیرت انگیز عمل تھا۔ مختصر یہ کہ یورپ اور امریکہ‘ دونوں الگ الگ منظر نامے پر دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کوئی ٹیکٹونک ایونٹ نہیں تھا۔ کارلوف کی موت‘ بالکل اسی طرح نومبر 2015ء میں ترکی کی فضائیہ کے ذریعہ روسی جیٹ طیارے نیچے گرائے جانے کا واقعہ ‘ آسانی سے ترکی اور روس کو براہ راست محاذ آرائی پر لاسکتا تھا۔نا صرف شام میں ‘بلکہ بحیرہ اسود میں‘ یہاں تک کہ یوکرین میں بھی ‘ کریملن جنگ کی طرف بڑھنے کے اشارے مل رہے تھے ‘ لیکن 2017ء کے اوائل تک مغرب میں فراموش ہونے والا واقعہ بن گیا۔
بڑے پیمانے پرخود شام ہی نہیں‘ بلکہ اسد حکومت کے غیر قانونی ساتھی اور اس کے روسی مدد گار دباؤ ڈال رہے تھے۔ 2017ء کے آخر تک مزید 33000 افراد ہلاک ہوئے۔ 2018ء میں ہلاکتوں کی تعداد میں20000 کا اضافہ ہوا۔ کیمیائی حملے‘ بیرل بم اور منظم قتل عام ‘ ملک بدریاں‘ یہ سب بنیادی طور پر شام کی شہری آبادی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور جنگ 9 سال سے جاری ہے۔ یہ جنگ مزید پھیل چکی ہے۔ دریں اثنا مغرب میں نام نہاد جنگ مخالف گروہوں نے اسد کو کھل کر گلے لگانا شروع کر دیاہے۔ کچھ ممالک نے شامی حکومت نے ان باتوں پر بات چیت کی کہ وہ کیسے بنیاد پرست اسلام پسندوں کے خلاف جنگ کریںگے؟ دیگر افراد نے صریحاًسازشی نظریات سے کام لیا‘ جیسا کہ مغربی بائیں بازو کے بہت سارے افراد نے یوگوسلاو جنگوں کے دوران کیا تھا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ شام میں حکومت مخالف قوتیں بشمول انسانیت پسند وائٹ ہیلمٹ گروپ‘ علیحدہ علیحدہ جھنڈے کے وسیع کاموں میں ملوث ہیں۔
ترکی کے شام کے کردوں پر حملہ کا سیاق و سباق پر نظر دوڑائیں تو ساری باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں‘ پیدا ہونے والاتنازع صرف سابق اور صبر سے دوچار کرد اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے گہری خیانت کا نتیجہ نہیں ۔ تباہ کن یہ فیصلہ صرف شرق ِاوسط میں ہی نہیں ‘بلکہ پوری دنیا میں طویل مدتی امریکی سلامتی اور سفارتی مفادات کیلئے ہے۔یہ مغرب اور پوری عالمی برادری کی طرف سے ایک قدیم سلوک ہے۔ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سیاسی اور اخلاقی تباہی انہی ممالک نے مچائی ہے۔یورپین اور امریکیوں کو شام میں کسی بھی طرح کی مربوط‘ پائیدار پالیسی کے ساتھ قریب ایک
دہائی کا عرصہ گزر چکا۔ بغیر کسی ناکامی کے ‘ بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف یکے بعد دیگرے انتظامیہ اور حکومتوں نے ایسی پالیسیاں تیارکیں ‘جن پر عمل نہ ہو سکا۔ ہر موڑ پر ان حکومتوں نے محض اس وحشت کی ذمہ داری کو قبول کرنے کی بجائے ناقابل نظر متنازع‘ نا قابل نظیر اور غیرمنطقی دلیل کو عملی طور پر برا بھلا کہاہے۔
سابق امریکی صدر براک اوبامہ کا دعویٰ آج بھی ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اسد حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال‘ ان کی انتظامیہ کیلئے ایک '' سرخ لکیر ‘‘ بنائے گا ‘جو خاص طور پر حقارت کے مستحق ہے ۔جب امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے یہ دعویٰ کیا کہ اگست 2013 ء میں اس طرح کے حملے ہوئے‘ تب اوبامہ نے امریکی کانگریس سے فوجی اجازت کیلئے درخواست کا جواب دیا۔ اس نے یہ کام آئینی ذمہ داری کی وجہ سے نہیں کیاتھا‘اصل میں وہ اسد کا مقابلہ کرنے کیلئے رقم کو منتقل کرنا چاہتا تھا۔دسمبر میں صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا‘ تاہم انہیں کرد اتحادیوں کی جگہ ترک عسکری حملے کی حمایت پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس اعلان کے بعد امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے احتجاجاًاستعفیٰ دے دیا تھا اور اس وقت کے قومی سکیورٹی مشیر جان بولٹن کی جانب سے کردوں کو محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات بھی اٹھائے گئے تھے۔
تاہم ترکی نے کا یہ پہلا حملہ نہیں‘ اس سے قبل دو مرتبہ اس طرز پر عسکری کارروائی میں حصہ لے چکا۔ پہلی مرتبہ دولتِ اسلامیہ کیخلاف 2016ء میں اور دوسری مرتبہ وائی پی جی کیخلاف 2018 ء میں کارروائی کی‘ تاکہ شامی باغی شمالی شام میں علاقے پر قبضہ کر سکیں۔